You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
زخم خوردہ امتِ مسلمہ نئے امتحانات اور قربان گہِ عمل میں مطلوب و مقصودِ مومن
غلام مصطفی رضوی، نوری مشن مالیگاؤں
زمانے کے نشیب و فراز فکرونظر کو متاثر کرتے رہتے ہیں۔ کبھی پروپے گنڈے کے بطن سے سچ گہنا جاتا ہے۔ جھوٹ کی ملمع کاری حُسن کو ماند کردیتی ہے۔ محبوب معتوب ہوجاتا ہے۔ خوبی؛ عیب اور اُجالا؛ اندھیرا معلوم پڑتا ہے۔ ایسے میں اہلِ حق کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ عزمِ یقیں، حکمت و دانش، فکرونظر کی بالیدگی سبھی کچھ درکار ہوتی ہے؛ تاکہ بگڑے خیالات کو راہِ مستقیم دی جا سکے۔اور نگاہ و فکر کو حجازی رنگ دیا جا سکے۔
چمن میں ہر طرف بکھری ہے داستاںمیری:
ہر آنے والا لمحہ امتِ مسلمہ کے لیے نئے کرب ساتھ لا رہا ہے۔ ایک دہائی قبل چند عنوانات شباب پر تھے۔ آج درجنوں عنوانات ہیں۔ جن سے امتِ مسلمہ مضمحل، نڈھال اور زخم خوردہ ہے۔ زخم پر زخم ہیں۔ حجاز کااَلمیہ، ترکوں کا انخلا، مغرب کا فکری غلبہ، عراق وایران اختلافات، عربوں میں اتحاد کا شدید بحران، پہلے عراق و کویت قضیہ کو بنیاد بنا کر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی۔ بعد کو تباہی والے ہتھیار کا شوشہ چھوڑا گیا، اور عراق کی رہی سہی طاقت ریزہ ریزہ کر دی گئی۔ لاکھوں جانوں کااتلاف ہوا۔ افغانستان میں خود ساختہ مجاہد اسامہ کی آڑ میں ٹنوں بم گرائے گئے۔ دست وجبل کے واسیوں کو نڈھال کیا گیا۔ دوسری سمت فلسطین پر غاصبانہ قبضہ اسرائیل نے کیا۔ اہلِ فلسطین کی نسل کشی کا سلسلہ نصف صدی سے جاری ہے۔ کبھی اجتماعی یورش کر کے مسلمانوں کی فصل کاٹی جاتی ہے۔
تصویر کا دوسرا رُخ بڑا بھیانک ہے۔ جو مسلم ممالک مالا مال ہیں۔ وہ مظلوم مسلم ملکوں کے پُرسانِ حال نہیں۔ انھیں مسلمانوں سے کچھ ہم دردی نہیں۔ کیوں کہ اگر وہ بہ حیثیت قومیت بیدار ہوئے تو امریکہ انھیں اقتدار سے بے دخل کر دے گا، برطانیہ ناراض ہوجائے گا، صہیونی ریاست کا وجود خطرے میں آنا انھیں گوارا نہیں، شاید اسرائیلی فکر ہی ان مسلم حکمرانوں اور مراکزِمسلمین کے بادشاہوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔جبھی انھیں مسلم کرب واضطراب سے کوئی غرض نہیں۔ بس ان کے عیش میں خلل نہ آئے۔ بوسنیا کا مصنوعی قحط، برما کے مسلم کش نسلی فسادات، روس سے آزاد مسلم ریاستوں میں شعائر اسلامی پر قدغن کی کوششیں، چائنا میں احکامِ اسلامی پر عمل سے روکنے کے قوانین، فرانس و جرمنی میں شعائرِ اسلامی کی بے ادبی، یورپین سوسائٹی میں مسلمانوں کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جانا سبھی کچھ اسلام دُشمنی کا بیّن ثبوت ہے۔
منزل کی تلاش میں:
’’داعش‘‘ اسلام کے عنوان پراسلام دُشمنی کا عظیم حربہ ہے۔ ان لوگوں نے مسلم تہذیب و تمدن کے آثار مٹائے۔ اسلامی زمینوں کو بنجر کیا۔ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ جائز آزادیوں کو چھینا۔ تباہ حالوں کو مزید تباہ کیا۔ مصیبت کے ماروں پر خود ساختہ قوانین کا نفاذ کیا۔ تسلیم نہ کرنے والوں کووحشت ودرندگی کا نشانہ بنایا۔ خود ساختہ ’’موحدین‘‘ نے مسلمانوں کو کافر ومشرک سمجھ کر خانماں برباد کیا۔ اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ نہ معلوم ان کے مظالم کا دائرہ کتناپھیلے گا۔ شام خانہ جنگی میں تباہ ہوا۔ جو بچا اسے داعش نے لوٗٹا۔آج اہلِ شام اپنی زمیں کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ وہ منزل کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ اسلامی ممالک تاراج کارواں کو ’’راحت‘‘ دینے سے محروم ومجبور ہیں۔ان تارکینِ وطن کی کشتیاں تھپیڑوں کا شکار ہیں۔ کتنے ہی ڈوب گئے۔ پٹرول کی دولت سے مالا مال ’حکمراں‘اپنے مسلم بھائیوں کے لیے تنگ نظر ہوچکے۔ عربوں کی زمیں اپنے ہی مسلم بھائیوں کے لیے سمٹ گئی۔ انھیں یورپ پناہ کی پیش کش کر رہا ہے۔ اس طرح ممالکِ اسلامیہ پر دو دو ذلتیں ہیں؛ جو کام عربوں کا تھا وہ غیر کر رہے ہیں، عیسائیت انسانی خدمت کے ناطے اپنے خود ساختہ نظریات خانماں بربادوں پر تھوپے گی۔ مجبوریوں میں کام آکر انھیں عیسائی بنانے کا خواب تک لیا گیا ہوگا۔ لاکھوں مسلمانوں کا مستقبل اسلام دُشمن عناصر کے ذمہ آگیا ہے۔ کیا یہ معمولی زخم ہے؟ اس پر غور کرنا ہوگاورنہ کل بہت بدلا ہوا ہوگا۔
سلامتی کی متشدد تعبیر:
پوری دُنیا میں ’’اسلام‘‘ کو ’’تشدد‘‘ کے معنیٰ میں متعارف کرایا جا رہا ہے۔ انسانی زندگیوں کو بموں کی زد پر بربا کرنے والے انسانیت کے نجات دہندہ کہلا رہے ہیں۔ ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے دہشت گردی مٹانے چلے ہیں۔ سلامتی کادین ’’دہشت گردی‘‘ کا حامی باور کرایا جا رہا ہے۔ اصطلاحی حملہ ہے یہ۔ جہاں تشدد ہی خلافِ مذہب ہے۔وہاں تشدد کی تہمت چہ معنی دارد! اس لیے ہمیں اپنے مذہب کی حقیقی قدروں کا تعارف کرانا چاہیے۔ جو متشدد حلقے ہیں وہ اسلامی تعلیمات سے دور ہیں۔ جتنی شدت پسند تنظیمیں ہیں وہ اسلامی اخوت سے نابلد ہیں۔ حقیقی تعلیماتِ اسلامی سے بے خبر ہیں۔ لیکن! حالات کی ستم ظریقی کہ ہم خود اسلامی تعلیمات کا صحیح تعارف نہیں کراتے۔ ہم میں اسلامی حِس کتنی ہے؟ اس پہلو سے سوچنا چاہیے۔ اصطلاحی اعتبار سے بھی ہم غیر محتاط ہیں۔ یہودیوں کی ہر اصطلاح پر آنکھ بند کر کے عمل کر لیتے ہیں۔ مثلاً: ظلم کو بربریت کہنا-زیادتی ہے، قومِ بربر ظالم نہیں بہادر تھی اور ظلم کی دُشمن۔ یوں ہی خلفیہ کا اطلاق اعاظم پر کیا جاتا تھا۔آج خلیفہ ’’ختنہ کرنے والے‘‘ کو کہا جا رہا ہے۔اس لیے لفظوں کا استعمال بھی دانش مندی سے کیا جانا چاہیے۔
قربان گہِ محبت میں عزم کی جستجو:
گزری کئی صدیوں سے دُشمنانِ اسلام کا حربہ تبدیل ہوگیا۔ ایک ذاتِ پاک ان کا رٹاگیٹ ہے۔ وہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جن کی عظمتوں کی مثال کسی دور میں نہیں پیش کی جاسکتی۔ وہ بے مثل ہیں۔ ہر عیب و بُرائی سے پاک ہیں۔بے نظیر ذات جس کا تصور پاکیزگی لاتا ہے۔ ان میں عیب جوئی اسلام دُشمنوں کا وطیرہ بن چکی ہے۔ ان کے علوم کا انکار،ان کی شان گھٹانے کی تگ ودو!الامان والحفیظ ؎
تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھے اللہ تعالیٰ تیرا
شانِ رسالت میں بے ادبی کی صہیونی سازش آج کی نہیں۔ ہاں! ان برسوں میں انھوں نے حملے تیز تر کیے ہیں۔ کارٹون کے مقابلوں کا انعقاد اسی کی مثال ہے۔ بے مثل زندگی پر حرف چینی، قوانین پر اعتراض، تعلیماتِ امن پر اعتراض روزآنہ کا معمول بن چکا ہے۔ حملہ جس عنوان سے ہوتا ہے، جواب بھی اسی کو ملحوظ رکھ کر دیا جاتا ہے۔ ناموسِ رسالت پر حملے کا تقاضا ہے کہ نسبتِ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مستحکم کیا جائے۔ ہر گھر میں ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو، محبتوں کے دیپ دلوں کے طاق پر روشن ہوں ع
ذکرِ نبی ہے لازمی ذکرِ خدا کے بعد
عیدِ قرباں کی مناسبت سے ایثار و قربانی کا عملی زندگی میں اظہار مطلوبِ ہے۔ ورنہ رسم ہی رسم ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام کے ہر حکم میں حکمت کا لازوال سمندر موج زن ہے۔ ظاہراً! تو جانور کی رضاے الٰہی کی خاطرقربانی ہے؛ لیکن! اسکے ذریعے نہ معلوم کتنے معاملات میں قربانی مطلوب ہوتی ہے۔ نفس کی قربانی، مال کی قربانی، دین کی خاطر اور حفظِ ناموسِ رسالت کے لیے جان ومال و آب رُو کی قربانی۔ قربانی ایک طرفِ سنتِ ابراہیمی ہے دوسری طرف ناموسِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں اہلِ یورپ کے گستاخانہ عزائم کے مقابل عزمِ یقیں کا اظہار ہے۔ضرورت اخلاصِ عمل کی ہے اور دین سے نسبت وتعلق کے استحکام کی بھی۔تاکہ مصائب کے بادل چھٹ جائیں اور صبحِ امید نمودار ہو۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.