You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
یادِ امام حسین رضی اللہ عنہ اورہماری ذمہ داریاں
از: عتیق الرحمن رضوی
نوری مشن مالیگاؤں
-----------------
اپنے ماضی کو یاد رکھنا، اور ان کے نقوش کو نَسلوں میں منتقل کرنا زندہ قوموں کی علامت ہے۔۔۔ وہ قومیں آج بہ ظاہر ترقی و عروج کی منازل طے کرتی ہوئی نظر آتی ہیں جنھوں نے اپنے اسلاف کے نقوش کو باقی رکھا۔۔۔ مغرب اپنی نشانیاں کھود کھود کر نکال رہا ہے۔۔۔ ہم شعوری و لا شعوری طور اپنے نقوش ضائع کررہے ہیں۔۔۔ کچھ لا علمی کی بنیاد پر، کچھ بے راہ روی اور گُم رہی سے۔۔۔ اور لا علمی اور جہالت نے ہمارے معاشرے میں ایسا گھر کر لیا ہے کہ اللہ ہی رحم کرے۔۔۔
بے شک یادیں منائی جانی چاہیے۔۔۔ یادیں منا کر ہم اپنے ماضی سے واقف اور حال و مستقبل کو روشن کر سکتے ہیں۔۔۔ یادیں ہمیں ہمارے اسلاف کی قربانیاں یاد دلاتی ہیں۔۔۔ اگر یادیں نہ ہوتی تو ہم اپنے اسلاف کے کارناموں سے بے خبر ہوتے۔۔۔ یادوں نے ہمیں ہمارے اسلاف سے جوڑے رکھا۔۔۔ مگر شریعت مطہرہ نے جو راہیں مقرر کی ہیں ہم ان حدود میں رہ کر یادیں منائیں۔۔۔ تاکہ ہم شریعت کی مخالفت کے مجرم نہ بنیں۔۔۔ یادوں کے منانے کا یہ مطلب نہیں جو جی میں آیا کرلیا۔۔۔ شریعت کی دھجیاں اُڑا دیں۔۔۔ اسلامی تعلیمات کو یک سر ٹھکرا دیا۔۔۔ ایسی یادوں پر ہمیں اجر نہیں ملتا۔۔۔ ہم گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔۔۔ ہمارے دامنِ عمل مخالفتِ شرع سے داغ دار ہو تے ہیں۔۔۔
عالم اسلام میں جن عظیم دنوں یا واقعات کی یاد منائی جاتی ہے۔۔۔ ان میں ایک ’’واقعۂ کربلا‘‘ ہے۔۔۔ شہزادۂ رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ جو ظلم ہوا، اور یزیدی فوج نے جو زیادتیاں کیں ہم تقریریوں میں سنتے، کتابوں میں پڑھتے ہیں۔۔۔ یہاں واقعات کی تفصیل مقصود نہیں۔۔۔ ان واقعات کو بیان کر کے ماہِ محرم میں یادِ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ منائی جاتی ہے۔۔۔ بعض لوگ اس میں انتہائی جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔۔۔ اور یاد کے نام پر شریعت کا مذاق بناتے ہیں۔۔۔ غیر شرعی کاموں اور غیر شرعی و غیر اسلامی رسموں کو بڑی عقیدت و محبت اور دین سمجھ کر منایا جاتا ہے۔۔۔ مروجہ تعزیہ داری کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، یہ بدعت ہے۔۔۔ اس ماہ مبارک میں اور بھی اعمال قبیحہ رواج پا گئے ہیں، جو خوارج کا طریقہ ہیں۔۔۔ دلدل کی سواری، مہندیِ سکینہ، نمائش اور مصنوعی کربلا، سینہ کوبی، ڈھول تاشہ، تعزیوں کی تعظیم میں اس کے آگے سجدہ کرنا، تعزیوں کے نیچے سے دھول اُٹھا اُٹھا کر چہرے، سینے اور ہاتھ وغیرہ پر ملنا، بچوں کو محرم کا فقیر بنانا، نیاز کے لیے بچوں سے گلی گلی بھیک منگوانا ، سوگ کے لیے خاص رنگ کالے یا ہرے کپڑے پہن کر گریبان کھول کے یا پھاڑ کر کودنا، پھاندنا، بھاگنا۔۔۔ اور مجالسِ محرم میں غیر معتبر اور غیر صحیح روایات کا ذکر و بیان۔۔۔ غیر سنجیدہ اور جاہلانہ طرز و اُسلوب۔۔۔
افسوس! واقعہ کربلا بیان کیا جارہا ہے یا کسی کھیل کی کمینٹری؟ ۔۔۔ بات شہزادۂ رسول جگر گوشۂ بتول کی ہو رہی ہے۔۔۔ ان کے مقدس گھرانے کی ہو رہی ہے۔۔۔ وہ گھرانہ جو اعلیٰ و سخی ترین گھرانہ ہے۔۔۔ یہ وہ گھرانہ ہے جسے قرآن میں یاد کیا جا رہاہے۔۔۔ یہ وہ گھرانہ ہے جہاں جبرئیل علیہ السلام بھی بے اجازت تشریف نہیں لے جاتے ہیں۔۔۔ ان کا ذکر مکمل ادب و احترام سے ہو۔۔۔ محبت و عقیدت سے ہو۔۔۔ نہ کہ بلا وجہ چیخ چیخ کر۔۔۔ ہاں محبت میں آنسو بہانا اور بات ہے۔۔۔ مگر ذکر و بیان صحیح واقعات اور معتبر روایات کی روشنی میں ہو۔۔۔ شربت و نیاز کا اہتمام ہو۔۔۔ لوگوں کو ادب و احترام کے ساتھ نیاز تناول کے لیے دی جائے۔۔۔ ایصال ثواب کی محافل منعقد کی جائیں۔۔۔ بے جا کی چیخ پکار، چنگھاڑ سے کیا حاصل ۔۔۔ یہ نہ تو یادوں کا حصہ ہے نہ ادب کا۔۔۔ایسا کرکے ہم خود کو گناہوں کے عمیق گڑھے میں ڈھکیل رہے ہیں۔۔۔ یہ محبت کی علامت نہیں۔۔۔ محبوب اپنے محب کا ذکر پیار سے کرتا ہے۔۔۔ محبوب اپنے محب کا ہر لحظہ ہر آن احترام ملحوظ رکھتا ہے۔۔۔ محبوب اپنے محب کے بارگاہ میں آواز بلند نہیں کرتا۔۔۔ محبوب کے دربار میں شور نہیں مچاتا۔۔۔ بلکہ لجاجت سے جاتا ہے۔۔۔ سرتسلیم خم کیے جاتا ہے۔۔۔ عقیدت سے پلکوں کو بچھائے جاتا ہے۔۔۔ محبوب کی اداؤں کو اپناتا ہے۔۔۔ محبوب کے افعال و کردار کو اپنی زندگی میں شامل کرتا ہے۔۔۔ محبوب کے طریقے کو عزیز رکھتا ہے۔۔۔ تا کہ جانے انجانے میں کوئی گستاخی نہ ہو۔۔۔ آیئے ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں، ہمیں محبتِ اہل بیت کا دعویٰ ہے۔۔۔ محبت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دعویٰ ہے۔۔۔ آؤ محاسبہ کریں۔۔۔ ہم تعلیماتِ اہلِ بیت پر عمل کرتے ہیں یا دشمنانِ اہل بیت کی تعلیمات پر۔۔۔ آؤ آئینے میں چہروں کو دیکھیں یہ سنتِ انبیاء و اہل بیت کا مظہر ہے یا یزیدیت کا؟۔۔۔ اگر ہمیں امام عالی مقام سے محبت سچی ہے تو ان کے نانا کی عظیم سنت ہمارے چہروں پہ بھی سجی ہونی چاہیے۔۔۔ امام حسین سے محبت کا دعویٰ! امام عالی مقام نے تلواروں کے سائے میں بھی جان کی پروا کیے بغیر نمازوں کو قائم کیا۔۔۔ کیا ہم نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں؟ یا ہمارا دعوائے محبتِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بس خیال اور فضا میں گونج کر خاموش ہو جانے والا نعرہ ہے؟
للہ اپنے حال پر رحم کرو۔۔۔ تعلیماتِ اسلامی کو لازم پکڑو۔۔۔ اغیار و خوارج کی رائج کردہ غیر اسلامی رسومات سے پرہیز و اجتناب کرو اسی میں کام یابی، بھلائی اور سعادت مندی ہے۔۔۔ اللہ ہمیں اہل بیت کرام کی سچی محبت عطا فرمائے، اور محبت کے نام پر رائج دشمنانِ اہل بیت کی غیر شرعی رسموں سے بچائے۔
آمین بجاہ النبی الامین و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.