You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
تشدد اور منفی اندازِ فکر اسلام مخالف قوتوں کی پیداوار فرانس سانحہ ایک المیہ
غلام مصطفی رضوی
نوری مشن۔رضا لائبریری مالیگاؤں
خیر کے مقابل شر ہمیشہ سرگرم عمل رہا ہے۔ اسلام کی صداقت و حقانیت نے جب دلوں کی دنیا کو مسخر کر لیا تو وہ مذاہب جن کی بنیاد اوہام پر تھی اور وہ انسانی عقل کی اختراع تھے تلملا اٹھے۔ جن آسمانی مذاہب کی شکلیں ان کے ماننے والوں نے بگاڑ کر رکھ دی تھیں انھیں بھی اسلام کی سچائی اور صداقت سے بیر تھا اور وہ حسد و بغض کے جذبات سے مغلوب۔ اسلام کے مقابل ’’شر‘‘ کا یہ عمل سامنے آیا کہ نئے نئے افکار و نظریات وجود میں آئے۔ تمدنی و تہذیبی، ثقافتی و نظریاتی، سیاسی و اقتصادی ہرطرح کے حملے کیے گئے۔ لیکن یہ فطری بات ہے کہ حق و صداقت کو دوام و استقرار ہے اور باطل کو ہزیمت و زوال ۔
فطرت سے انحراف ہی انسانی مسائل کا سبب بنتا ہے۔ اسلام سے عداوت و بغض رکھنے والے افکار و نظریات کی بنیاد چوں کہ انسانوں کے ہاتھوں بنائے ہوئے اصولوں پر تھی اس لیے ان کی ہر فکر نے انتشار و فسادکی فضا استوار کی اور تخریب و تباہی کا سامان ہوا۔ ادیان باطلہ جور و ستم کی راہ پر گام زن تھے۔ انسانی سہاگ لٹ کر رہ گیا تھا، عصمتیں تار تار تھیں، دہشت گردی کا بازار گرم تھا ایسے ماحول میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ہوتی ہے، اور دین فطرت کی ضیا پھیلتی ہے، انسانیت کی زلف برہم سنورتی ہے، سچائی راہ پاتی ہے، ہدایت و صداقت کا آفتاب طلوع ہوتا ہے۔ امام محمد شرف الدین بوصیری (م۶۹۴ھ) فرماتے ہیں ؎
فَاِنَّہٗ شَمْسُ فَضْلٍ ھُمْ کَوَاکِبُھَا
یُظْھِرْنَ اَنْوَارَھَا لِلنَّاسِ فِي الظُّلَمٖ
ترجمہ: کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آفتاب فضل و کمال ہیں اور انبیاے کرام ستارے ہیں جو اسی آفتاب کی روشنی انسانوں کو تاریکیوں میں دکھاتے رہے ہیں۔
جس کے فیض سے انبیاے کرام ظلمتوں میں اجالا پھیلاتے اور انسانیت کو فطرت کی راہ ’’شاہراہِ حق‘‘ دکھا کر عزت و عظمت عطا کرتے رہے وہ ذات کیسی انسانیت نواز اور مرکز حق و صداقت ہوگی۔ اس کی عظمتوں کا اندازا ہم اپنی عقل خام سے کیسے لگا سکتے ہیں۔رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین فطرت کی طرف بلایا اور جبیں کا وقار پامال ہونے سے بچا کر انسان کا دامن ستھرا فرمادیا۔
منفی انداز فکر:جریدۂ عالم پر اسلام کے اثرات جیسے جیسے بڑھتے گئے ادیان باطلہ میں اضطراب بڑھتا گیا اور دین فطرت سے متعلق پروپے گنڈا کیا گیا کہ اسلام ایک عسکری دین ہے اور علم و فن سے اس کا کوئی رشتہ و تعلق نہیں، اس کی اشاعت بہ زور شمشیر و سناں کی گئی ہے۔ اس فکر غلط کے پرچار میں مغرب میں وجود پانے والے طبقۂ مستشرقین کا زیادہ حصہ رہا، گرچہ جنھوں نے سنجیدگی کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کیا اور سیرت کا تجزیہ کیا ان میں اکثر نے اعتراف کیا کہ اسلام ایک الہامی دین ہے اور یہ فطرت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ اس کے فیصلے اورضابطے نقص و عیب سے مبرا ہیں۔بہر کیف اسلام سے جدا راہوں کو کشادہ کرنے کی کوشش کی گئی اس کے لیے تشدد اور ظلم کا سہارا لیا گیا۔ اسلام چوں کہ امن و محبت اور اخوت کا درس دیتا ہے اس لیے اس کے مقابلے میں برائیوں کو پروان چڑھایا گیا جس سے انسانیت کا وقار داغ دار ہوا اور یہ منفی انداز فکر باعث زوال ثابت ہوا۔
تشدد غیر اسلامی عمل: حالیہ دنوں میں فرانس کا سانحہ انسانیت کے ماتھے کا کلنک ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ در اصل جن افراد نے دھشت گردانہ اقدام انجام دیا دُنیا جانتی ہے کہ وہ کس فکر کے پروردہ ہیں، ان کے نزدیک انسانیت کی قدروقیمت نہیں۔ داعش کے جنونیوں نے صحابہ واولیائے اسلام کے مزارات تک کو نہیں چھوڑا۔ شام وعراق میں ان کی تباہیوں سے لاکھوں مسلمان پریشان ہیں۔یہ اسلام کے دشمن ہیں۔ یہ انسانی اقدار کے دشمن ہیں۔ یہ مسلمانوں کو مشرک وبدعتی سمجھتے ہیں۔ ان کا اصل اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ اگر خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ تو یہ فریب ہی ہے۔ ورنہ اسلامی تاریخ کا مطالعہ دعوتِ دین کے سلسلے میں شاہد ہے کہ صوفیائے کرام واولیائے کرام کے ذریعے صحابہ کے بعد کے زمانوں میں جو اشاعت حق کا مرحلۂ شوق طے کیا گیا وہ بے مثال بھی ہے اور باعثِ فخر بھی۔
محبتوں کا درس دیں: نفرتوں کے داعی ’’داعش‘‘ کی فکر امتِ مسلمہ کے لیے چیلنج ہے۔ ایسی فکر نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر ڈال دیا ہے۔ پڑوسی ملک پاکستان میں دھشت گرد عناصر جنھیں اسلام دشمن قوتیں پال رہی ہیں؛ داعش ہی کی ہم فکر کہی جاسکتی ہیں۔ جمعیۃالدعوۃ، لشکر طیبہ، سپاہِ صحابہ، لشکر جھنگوی، طالبان، حرکت الانصار، اور دیگر عسکری تنظیمیں ایک سازش ہیں۔ مسلمان ان کے خطرات اور افکار ونظریات سے بچیں۔ یہ اسلامی تعلیمات کے منافی راہوں کے مسافر ہیں۔یہ یہودی ذہنیت کی پیداوار ہیں۔ ان کے جرثومے مسلم معاشرے کے لیے تباہ کن ہیں۔ ان سے نفرت ضروری ہے تا کہ فکر و خیال کی وادیاں پراگندہ نہ ہوں۔
اسلامی روایات کی توھین: ہماری تاریخ فطری بھی ہے اور روشن بھی۔ ہماری تاریخ کے نقوش مختلف شکلوں میں موجود ہیں۔ داعش کی فکرِ تباہ کن نے اسلامی آثار کے نشانات مٹائے۔ شرک کے مراکز قرار دے کر کتنے ہی صحابہ واولیا کے آستانے بموں سے اڑا دیے۔ تہذیب وتمدن اور تاریخ اسلامی کے نقوش کو ان لوگوں نے برباد کر کے رکھ دیا۔ یہ اسلامی روایات کے دشمن ہیں۔ مسلمان رواداری، امن واخوت اور محبتوں کے داعی ہیں۔ نفرتوں کو ہر زمانے میں ہم نے مسترد کیا ہے۔ اسلام کی فطری تعلیمات سے انحراف کرنے والے اسلامی معاشرے کا حصہ نہیں قرار دیے جا سکتے اس لیے داعش کی تمام تر فتنہ سامانیوں کو اسلام مخالف نظریات کی اُپج کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔جس کا ازالہ صحیح صحیح اسلامی تعلیمات کی اشاعت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت والفت کی اشاعت میں ہے۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.