You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
مولانا فضل رسول بدایونی کا مکتوب:
بعد گزارش آداب تسلیمات عرض ہے کہ تقویت الایمان کے مشہور ہونے کے وقت سے لوگوں میں بڑی نزاع(لڑائی جھگڑا) ہے .(تقویت الایمان) کے مخالفین کہتے ہیں کہ وہ کتاب مخالف ہے سلف صالح اور سواد اعظم کے اور مخالف ہے مصنف کے خاندان کے۔ اور اس کتاب کی رو سے ان کے استادوں سے لے کر صحابہ کرام تک کوئی کفر و شرک سے نہیں بچتا۔ اور ان کے موافق لوگ کہتے ہیں کہ وہ کتاب(تقویت الایمان) موافق سلف صالح اور ان کے خاندان کے ہے۔ چوں کے اس بات کو جیسا آپ جانتے ہوں گے غالب کے دوسرا نہ جانتا ہو گا۔ اٙهْلٙ الْبٙیْتِ اٙدْرٰی مٙا فِی الْبٙیتِ ، اس خیال سے چند باتیں معروض ( عرض کرتا ہوں ) ہیں۔ امید ہے جواب باصواب مرحمت ہو۔
۱۔ پہلا سوال : تقویت الایمان آپ کے خاندان کے موافق ہے یا مخالف ؟
۲۔ دوسرا سوال : لوگ کہتے ہیں اس میں انبیاء اولیاء کے ساتھ بے ادبی کی ہے ، اس کا کیا حال ہے ؟
۳۔ تیسرا سوال : شرعاً اس(تقویت الایمان) کے مصنف(مولوی اسماعیل دہلوی) کا کیا حکم ہے ؟
۴۔ چوتھا سوال : لوگ کہتے ہیں : عرب میں وہابی پیدا ہوا تھا، اس نے نیا مذہب بنایا تھا ۔ علماء عرب نے اس کی تکفیر کی ، تقویت الایمان اس کے مطابق ہے ؟
۵۔ پانچواں سوال : وہ کتاب توحید (وہابی کی کتاب) جب ہندوستان آئی آپ کے حضرت عم بزرگوار (چچا) اور حضرت والد نے اسے دیکھ کرکیا فرمایا تھا؟
۶۔ چھٹا سوال : مشہور ہے کہ جب اس مذہب کی نئی شہرت ہوئی تو آپ جامع مسجد تشریف لے گئے۔ مولوی رشید الدین خان صاحب وغیرہ تمام اہل علم آپ کے ساتھ تھے اور مجمع خاص و عام میں مولوی اسماعیل اور مولوی عبدالحی صاحب کو ساکت اور عاجز کیا ۔ اس کا کیا حال ہے؟
۷۔ ساتواں سوال : اس وقت آپ کے خاندان کے شاگرد اور مرید ان کے طور پر تھے یا آپ کے موافق؟
امید ہے کہ جواب ان سب مراتب کا صاف صاف مرحمت ہو کہ سبب ہدایت ناواقفوں کا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مولانا مخصوص اللہ دہلوی کا جواب:
.........
۱۔ پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ
تقویت الایمان کہ میں نے اس کا نام تفویت الایمان رکھا ہے "ف" کے ساتھ ۔ اس کے رد میں جو رسالہ میں نے لکھا ہے اس کا نام معید الایمان رکھا ہے۔اسماعیل کا رسالہ (تقویت الایمان) موافق ہمارے خاندان کے کیا کہ تمام انبیاء اور رسولوں کی توحید کے خلاف ہے۔ کیونکہ پیغمبر سب توحید کے سکھلانے کو ، اپنے راہ پر چلانے کو بیجھے گئے تھے۔ اس کے رسالے (تقویت الایمان) میں اس توحید کا اور پیغمبروں کی سنت کا پتا بھی نہیں ہے ۔اس میں شرک اور بدعت کے افراد گن کر جو لوگوں کو سکھلاتا ہے کسی رسول نے اور ان کے خلیفہ نے کسی کا نام لے کر شرک و بدعت لکھا ہو ، آگر کہیں ہو تو اس کے پیروں سے کہو کہ ہم کو بھی دکھاؤ ۔
۲۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ
شرک کے معنی ایسے کہتے ہیں کہ اس کے رو سے فرشتے اور رسول خدا کے شریک بنتے ہیں اور خدا شرک کا حکم دینے والا ٹھہرتا ہے اور وہ شریک کہ شرک سے راضی ہو وہ مبغوض خدا کا ہوتا ہے محبوب کو مبغوض بنانا اور کہوانا ، ادب ہے یا بے ادبی ہے ، اور بدعت کے معنی وہ بتائے اور پھیلائے ہیں کہ اصفیا اولیاء بدعتی ٹھہرتے ہیں اور یہ ادب ہے یا بے ادبی ہے۔
۳۔ تیسرے مطلب (سوال) کا جواب یہ ہے کہ
پہلے دونوں جوابوں سے دیندار اور سمجھنے والے کو ابھی کھل جائے گا جس رسالے (تقویت الایمان) سے اور اس کے بنانے والے (لکھنے والے یعنی مولوی اسماعیل دہلوی) سے لوگوں میں برائی اور بگاڑ پھیلے اور خلاف سب انبیاء اولیاء کے ہو اور وہ گمراہ کرنے والا ہو گا یا ہدایت کرنے والا ہو گا۔ میرے نزدیک اس کا رسالہ عملنامہ برائی اور بگاڑ کا ہے اور بنانے والا (لکھنے والا) فتنہ گر اور مفسد اور راوی اور مغوی ہے
۔ حق اور سچ یہ ہے کہ ہمارے خاندان سے دو شخص ایسے پیدا ہوے کہ دونوں کو امتیاز اور فرق نیتوں اور حیثیتوں اور اعتقادوں اور اقراروں کا اور نسبتوں اور اضافتوں کا نہ رہا تھا اللہ تعالیٰ کی بے پروائی سے سب چھن گیا تھا ۔ مانند مشہور قول کے "چوں حفظ مراتب نہ کنی زندیقی" ایسے ہی ہو گئے۔
۴۔ چوتھی بات (سوال) کا جواب یہ ہے کہ
وہابی کا رسالہ متن تھا یہ شخص (مولوی اسماعیل دہلوی) گویا اسی کی شرح کرنے والا ہو گیا۔
۵۔ پانچویں بات(سوال) کا جواب یہ ہے کہ بڑے عم بزرگوار ( چچا یعنی شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی) کہ وہ بینائی سے معذور ہو گئے تھے، اس (تقویت الایمان ) کو سنا، یہ فرمایا: اگر بیماریوں سے معذور نہ ہوتا تو تحفہ اثنا عشریہ کا سا جواب اس کا رد بھی لکھتا۔ اس کی بخشش وہاب بے منت نے اس بے اعتبار کوکی ، شرح کا رد لکھا ، متن کا مقصد نابود ہو گیا۔ ہمارے والد ماجد نے اس کو دیکھا نہ تھا ، بڑے حضرت (شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی) کے فرمانے سے کھل گیا کہ جب اس کو گمراہ جان لیا تب اس کا رد لکھنا فرمایا۔
۶۔ چھٹی تحقیق (سوال) کا جواب یہ ہے کہ
یہ بات تحقیق اور سچ ہے کہ میں نے مشورت کی راہ سے کہا تھا کہ تم( مولوی اسماعیل دہلوی) نے سب سے جدا ہو کر تحقیق دین میں کی ہے، وہ لکھو کچھ ظاہر نہ کیا۔ ہماری طرف سے جو سوال ہوے تھے اس کے جواب میں ہاں جی ہاں جی کر کے مسجد سے چلے گئے۔
۷۔ ساتویں بات(سوال) کا جواب یہ ہے کہ
اس مجلس تک سب ہمارے طور کے تھے پھر ان(مولوی اسماعیل دہلوی) کا جھوٹ سن کر کچے کچے آدمی آہستہ آہستہ پھرنے لگے اور ہمارے والد کے شاگردوں اور مریدوں میں سے بہت بچے رہے، شاید کوئی نادر پھرا ہو تو مجھے اس کی خبر نہیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ماخوذ از: مولوی اسماعیل اور تقویت الایمان
مؤلف: حضرت زید ابوالحسن فاروقی مجددی صاحب
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.