You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
امام جلال الدین سیوطی شافعی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جس زمانے میں قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا ا س وقت عربی کی فصاحت و بلاغت کے ماہرین موجود تھے، وہ اس کے ظاہر اور اس کے احکام کو توجانتے تھے لیکن اس کی باطنی باریکیاں ان پر بھی غورو فکر کرنے اور نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے سوالات کرنے کے بعد ہی ظاہر ہوتی تھیں جیسے جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی
’’اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمْ یَلْبِسُوۡۤا اِیۡمٰنَہُمۡ بِظُلْمٍ‘‘
تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے رسولاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں عرض کی’’ہم میں سے ایسا کون ہے جو اپنی جان پر ظلم نہیں کرتا۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ا س کی تفسیر بیان کی کہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے اور اس پر اس آیت ’’اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیۡمٌ‘‘سے استدلال فرمایا ۔
اسی طرح جب حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے یہ ارشاد فرمایا ’’مَنْ نُوْقِشَ الْحِسَابَ عُذِّبَ‘‘یعنی جس سے اعمال کے حساب کے معاملے میں جرح کی گئی تو وہ عذاب میں گرفتار ہو جائے گا۔ توحضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے ان آیات’’فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیۡرًا ۙ﴿۸﴾ وَّ یَنۡقَلِبُ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ مَسْرُوۡرًا ؕ﴿۹﴾‘‘کے بارے میں حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’یہ تو صرف اعمال کا پیش ہونا ہے۔ (یعنی یہ وہ مناقشہ نہیں ہے جو حدیث میں فرمایا گیا ہے ) (جب میدانِ فصاحت و بلاغت کے شہسواروں کو قرآن کے معانی سمجھنے کے لئے الفاظ ِقرآنی کی تفسیر کی حاجت ہوئی ) تو ہم تو اُس چیز کے زیادہ محتاج ہیں جس کی انہیں ضرورت پڑی بلکہ ہم تو سب لوگوں سے زیادہ اس چیز کے محتاج ہیں کیونکہ ہمیں بغیر سیکھے لغت کے اسرار و رموز اور اس کے مراتب معلوم نہیں ہو سکتے۔ (الاتقان فی علوم القرآن، النوع السابع والسبعون، فصل وامّا وجہ الحاجۃ الیہ۔۔۔ الخ،۲ /۵۴۶-۵۴۷، ملخصاً)
قرآن فہمی بہت بڑی عبادت و سعادت ہے، لہٰذا تلاوت ِ قرآن کے ساتھ مستند تفاسیر کے ذریعے معانیِ قرآن بھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت اِیاس بن معاویہ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :جو لوگ قرآنِ مجید پڑھتے ہیں اور وہ ا س کی تفسیر نہیں جانتے ان کی مثال اُن لوگوں کی طرح ہے جن کے پاس رات کے وقت ان کے بادشاہ کا خط آیا اور ان کے پاس چراغ نہیں جس کی روشنی میں وہ اس خط کو پڑھ سکیں تو ان کے دل ڈر گئے اور انہیں معلوم نہیں کہ اس خط میں کیا لکھا ہے ؟ اور وہ شخص جو قرآن پڑھتا ہے اور ا س کی تفسیر جانتا ہے اس کی مثال اس قوم کی طرح ہے جن کے پاس قاصد چراغ لے کر آیا تو انہوں نے چراغ کی روشنی سے خط میں لکھا ہوا پڑھ لیا اور انہیں معلوم ہو گیا کہ خط میں کیا لکھا ہے۔
(تفسیر قرطبی، باب ما جاء فی فضل تفسیر القرآن واہلہ، ۱/۴۱، الجزء الاول، ملخصاً)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.