You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
تفسیرِ قرآن کے متعدد درجات ہیں ، مثلاً
(1)… تَفْسِیْرُ الْقُرْآنْ بِالْقُرْآنْ۔
اس کا معنی یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی تفسیر قرآنی آیات سے کی جائے کیونکہ قرآنِ مجید میں بعض جگہ ایک حکم بیان کیا جاتا ہے اور دوسری جگہ اس حکم کی مدت کے اختتام کا ذکر ہوتا ہے، اسی طرح ایک مقام پر کوئی بات مُبہم ذکر کی جاتی ہے اور دوسری جگہ اس اِبہام کو دور کر دیا جاتا ہے ،اس لئے تفسیرِ قرآن کا سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی تفسیر خود ا س کی آیات سے کی جائے۔
(2) تَفْسِیْرُ الْقُرْآن بِالْحَدِیث۔
اس کا معنی یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی تفسیر تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی احادیث سے کی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کوقرآن مجید کے معانی، احکام اور تمام اسرار و رموز سکھا دئیے ہیں، اس لئے جب قرآنِ مجید کی تفسیر قرآنی آیت سے نہ ملے تو حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی احادیث سے ان کی تفسیر بیان کی جائے۔
(3) تَفْسِیْرُ الْقُرْآنْ بِآثَارِ الصَّحَابَہ ۔
اس کا معنی یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی تفسیر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اقوال سے کی جائے کیونکہ یہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے براہِ راست حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے قرآنِ عظیم کی تعلیم حاصل کی اس لئے جب قرآنِ مجید کی تفسیر قرآنی آیات اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی احادیث سے نہ ملے تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اقوال کی روشنی میں آیاتِ قرآنی کی تفسیر بیان کی جائے۔
(4) تَفْسِیْرُ الْقُرْآنْ بِآثَارِ التَّابِعِینْ۔
اس کا معنی یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی تفسیر تابعین کے اقوال کی روشنی میں کی جائے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے قرآنِ مجید کی تفسیر سیکھی ا س لئے جب قرآنی آیات، احادیث اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اقوال سے تفسیر نہ ملے تو تابعین کے اقوال سے تفسیر بیان کی جائے البتہ اس میں یہ لحاظ رہے کہ تابعی اگر کسی صحابی سے تفسیر نقل کر رہے ہیں تو ا س کا حکم وہی ہے جو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی بیان کردہ تفسیر کا ہے اور اگر تابعین کا اجماعی قول ہے تو وہ حجت ہے ورنہ نہیں۔
(5) تَفْسِیْرُ الْقُرْآنْ بِاللُّغَّۃِ الْعَرَبِیَّہ۔
قرآنِ مجید کی بعض آیات ایسی ہیں جن کے مفہوم میں کوئی الجھن اور پیچیدگی نہیں بلکہ ان کا مفہوم بالکل واضح ہے ،ایسی آیات کی تفسیر کے لئے عربی لغت اور عربی قواعد ہی کافی ہیں البتہ وہ آیات جن کا مفہوم واضح نہیں یا جن سے فقہی احکام اخذ کئے جا رہے ہوں تو ان آیات کی تفسیر ما قبل مذکور چاروں ماخذ سے کی جائے گی اور ان کے بعد لغت عرب کو بھی سامنے رکھا جائے گا کیونکہ عربی زبان میں اس قدر وسعت ہے کہ اس میں ایک لفظ کے بسا اوقات کئی کئی معنی ہوتے ہیں۔
قرآن مجید کا اصلی ماخذ:
قرآن مجید کا اصلی ماخذ اور سرچشمہ اللہ تعالیٰ کاعلم اور اس کی وحی ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وَلَقَدْ جِئْنٰہُمۡ بِکِتٰبٍ فَصَّلْنٰہُ عَلٰی عِلْمٍ ہُدًی وَّ رَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوۡنَ ﴿۵۲﴾‘‘ (اعراف: ۵۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور بیشک ہم ان کے پاس ایک کتاب لائے جسے ہم نے ایک عظیم علم کی بنا پربڑی تفصیل سے بیان کیا، (وہ) ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَمَا یَنۡطِقُ عَنِ الْہَوٰی ؕ﴿۳﴾ اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۴﴾‘‘ (نجم: ۳،۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ اپنی خواہش سے نہیں کہتے۔وہ وحی ہی ہوتی ہے جو انہیں کی جاتی ہے ۔
اس لئے قرآنِ مجید کی وہ اصطلاحات جن کے معنی و مفہوم کو قرآن اور صاحب ِقرآن کی وضاحت کے بغیر سمجھنا ناممکن ہے جیسے ایمان ،اسلام ، نفاق،شرک، کفر، روح ، نفس، بَعث، صلوٰۃ، زکوٰۃ، حج، صوم،رِبا،صدقہ اور اِنفاق وغیرہ،
ان سب کا معنی نہ توعربی لغت سے متعین کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی سمجھا جا سکتا ہے بلکہ ان کے معنی و مفہوم کے تعین کے لئے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی طرف رجوع کرنا بہر صورت لازمی ہے اور ان کا جو معنی و مفہوم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے بیان فرمایا ہے اسے بلا تَرَدُّد تسلیم کرنا ضروری ہے اور جو لوگ قرآنِ مجید کی ان اصلاحات کے معاملے میں صراطِ مستقیم سے بہک گئے ان کے بہکنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے وحیِ ربانی کی بجائے لغت ِعرب کوقرآنِ عظیم کا اصلی ماخذ قرار دیا اور لغت میں ان اصطلاحات کا جو معنی مذکور تھا وہی ان کے لئے متعین کر دیا۔
===============
از:’’صِرَاطُ الْجِنَان فِیْ تَفْسِیْرِ الْقُرْآن‘‘
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.