You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
دنیائے کفرسے ۱۲۵؍لڑائیاں لڑنے والے عظیم المرتبت مجاہد،جنگجو،بہادر اور نامورسپہ سالار کامختصرتعارف
سیدناحضرت خالد بن ولید:اسلامی تاریخ کے اولوالعزم شمشیرآزما اور عبقری جرنیل
===============
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
------------------------------
نام: ابوسلیمان خالدرضی اللہ عنہ
والد کا نام ونسب:ولید بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم بن تیفتہ بن مرۃ۔
’مرۃ ‘شاہکار دست قدرت مصطفی جان رحمتﷺ کے ساتویں داداہیں ۔اس وجہ سے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا شجرۂ نسب ساتویں پشت میں آپ ﷺ سے مل جاتاہے۔
والدہ کانام ونسب:آپ کی والدہ کانام لبابہ صغریٰ بنت الحارث ہے۔آپ حضرت ام المومنین بنت حارث رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ ہیں ۔اس طرح حضورﷺ حضرت خالد بن ولید کے حقیقی خالو ہیں۔
خاندان:حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے چھ بھائی اور دو بہنیں تھیں۔آپ کے بھائیوں میں ہشام اور ولید مسلمان ہوئے۔بہنوں میں سے ایک کی شادی حضرت صفوان بن امیہ کے ساتھ ہوئی تھی اور دوسری کی حارث بن ہشام کے ساتھ۔آپ کے والد ولید کا شمار مکہ کے رؤسا میں ہوتاتھا،مکہ مکرمہ سے لے کر طائف تک ان کے باغات تھے،قبیلۂ مخزوم سے تعلق تھاجوقریش کے قبیلہ بنوہاشم کے بعد مرتبہ میں دوسرے درجہ پر تھا ، ثروت کا عالم یہ تھاکہ ایک سال بنوہاشم مل کرغلاف کعبہ چڑھاتے اور ایک سال تنہاولید غلاف چڑھاتے تھے۔
ظہور اسلام کے وقت حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی عمر تقریباً سترہ سال تھی ۔ ایسے ماحول میں پرورش پائی جہاں شمشیرآرائی،نیزہ بازی،شہسواری،جنگی دائو پیچ اورجنگجویانہ سرگرمیوں کے علاوہ دوسرے اذکار بہت کم تھے۔حضرت خالد رضی اللہ عنہ بچپن ہی سے نہایت پھرتیلے،نڈراور صاحب تدبیر تھے۔جوان ہوکر آپ کی شجاعت کا رنگ اور نکھرااور آپ قریش کے منتخب جوانوں میں شمار ہونے لگے۔
حضرت خالد رضی اللہ عنہ بھی اپنے والد کی طرح قبول اسلام سے پہلے اسلام کے شدید مخالف تھے،اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہرکارروائی میں آپ آگے آگے ہوتے تھے۔جنگ بدرواُحدمیں آپ کی صلاحتیں اسلام کے خلاف صرف ہوئیں۔اُحد میں آخری مرحلے میں مسلمانوں کوجس تکلیف کاسامناکرناپڑااس کی بڑی وجہ خالد بن ولید تھے۔
فتح مکہ میں حضرت سیف اللّٰہ کی کارکردگی:
*******************************
وہ مقدس گھرجس کی تعمیرکاشرف امام الموحدین جدالانبیاء والمرسلین سیدناابراہیم علی نبیناوعلیہ السلام کومرحمت فرمایاگیااورجس کی تعمیر کامقصدسیدناخلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بصدعجزو نیاز بارگاہِ خداوندی میں بایں الفاظ عرض کیاتھا:
’’اے میرے رب!میں نے اپنی کچھ اولادایک نالے میں بسائی جس میں کھیتی نہیں ہوتی تیرے حرمت والے گھر کے پاس۔اے ہمارے رب اس لئے کہ وہ نماز قائم رکھیں‘‘۔
(سورۂ ابراہیم،پ۱۳،۳۷،کنزالایمان)
صدحیف وہ گھرصدہاسالوں سے صنم کدہ بناہواتھا،وہاں اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کی بجائے پتھر سے گھڑے ہوئے سینکڑوں اندھے،بہرے،گونگے اور بے جان بتوں کی پوجاپاٹ بڑی دھوم دھام سے ہورہی تھی۔اس مقدس گھر کوکفروشرک کی آلودگیوں سے پاک کرنے کے لئے اللہ تعالی نے اپنے محبوب شاہکارِ دستِ قدرت مصطفی جانِ رحمتﷺکومبعوث فرمایا۔روزِ بعثت سے لے کر۸؍ہجری تک یہ اکیس سالہ عرصہ پیغمبر اسلام اور دین اسلام کے لئے بڑاصبرآزماتھا۔صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کرنے کے سبب پیغمبراسلامﷺ نے مکہ کی طرف کوچ فرمایا۔نبی کریم علیہ الصلوٰۃ ولتسلیم نے حکم دیاکہ منادی کرنے والے لشکراسلام کی اقامت گاہوں میں جاکریہ اعلان عام کریں کہ صبح سویرے ہر قبیلہ کے جوان اپنی سواریوں پرزینیں اور کجاویں کس لیں اور ہر قبیلہ اپنے قائد کے ساتھ اپنے جھنڈے کے پاس کھڑاہوجائے اور اپنے اسلحہ اور سامان جنگ کی پوری طرح نمائش کرے۔حضورﷺکے حکم کے مطابق لشکر اسلام کو یوں ترتیب دیا گیا،حضرت ابوعبیدہ بن جراح مقدمۃ الجیش کے قائد مقرر ہوئے،حضرت خالد بن ولید کومیمنہ پرمتعین کیاگیا،حضرت زبیر بن عوام میسرہ کے قائد بنائے گئے اور قلب لشکر میں خود حضوررحمت عالم ﷺ تشریف فرماہوئے۔حضرت خالد بن ولید،بنی سلیم کے سالار مقرر ہوئے تھے،بنی سلیم کی تعداد ایک ہزار تھی،ان کے پاس دوجھنڈے اورایک پرچم تھا،ایک جھنڈاعباس بن مرداوردوسراخفاف بن ندبہ کے پاس تھاجبکہ اس قبیلہ کاپرچم حجاج بن علاط نے تھاماہواتھا۔حضرت خالد بن ولیدکایہ چاق وچوبنددستہ ابوسفیان کے پاس سے گزراتوانہوں نے تین باربلندآواز سے نعرۂ تکبیرلگایااور آگے بڑھ گئے۔ابوسفیان نے حضرت عباس سے پوچھایہ کون لوگ ہیں؟آپ نے اسے بتایاکہ یہ خالد ہے۔ابوسفیان نے ازراہِ حیرت پوچھا:الغلام؟یعنی وہ نوجوان خالد۔فرمایاوہی نوجوان خالد۔پھر اس نے پوچھا،اس کے ساتھ کون لوگ ہیں؟بتایا،بنوسلیم۔
ہادیٔ برحقﷺنے جب اپنے سپہ سالاروں کومختلف اطراف سے مکہ میں داخل ہونے کاحکم دیاتوساتھ ہی یہ تاکید بھی فرمائی کہ وہ اپنی تلواروں کوبے نیام نہ کریں۔جب تک کفار اِن پرحملہ کرنے میں پہل نہ کریں یاکسی پرحملہ نہ کریں۔چنانچہ حضرت خالد بن ولید کے علاوہ جتنے سپہ سالارمکہ میں اسلامی مجاہدوں کے ساتھ داخل ہوئے کسی نے ان پرحملہ کرنے کی جسارت نہ کی۔البتہ حضرت خالد بن ولید جب مکہ کے جنوبی حصہ سے شہر میں داخل ہونے لگے تووہاں چندقریشیوں نے ان کاراستہ روکنے کی کوشش کی اور اپنی تلواریں بے نیام کرلیں۔ حضرت خالد بن ولید نے بلند آوازسے انہیں نصیحت کی کہ بلاوجہ اپنے خون مت بہائو۔تمہاری ان گیدڑ بھبکیوں سے لشکرِ اسلام کی پیش قدمی نہیں رکے گی۔ہمیں اللہ کے پیارے رسول نے حکم دیاہے کہ ہم آج مکہ کوفتح کرکے یہاں اسلام کاپرچم لہرادیں اوراللہ تعالیٰ کی مددسے ہم یقیناآج اس شہرکوفتح کریں گے۔ لیکن کفارقریش نے حضرت خالد بن ولید کی اس نصیحت پرعمل کرنے سے انکار کردیااورمسلمانوں پرحملہ کردیا۔ حضرت خالد بن ولید نے جوابی کارروائی کرنے کی اپنے مجاہدین کواجازت دی۔چشمِ زدن میں کفارکے پندرہ آدمیوںکی لاشیںخاک وخون میں لوٹنے لگیں۔اس جھڑپ میں مسلمانوں کے صرف دوآدمی شہید ہوئے۔
(ضیاء النبیﷺ،ج۴،ص،۴۳۹)
جنگ عقربائ(جنگ یمامہ)میں آپ کی دلیری وحاضردماغی
عہدصدیقی کاآغاز حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی فوجی زندگی کے عہدزریں کاآغازبھی ہے۔حضورﷺ کی وصال کی خبرپھیلتے ہی عرب میں بغاوتیں اور شورشیں شروع ہوگئیں،ان بغاوتوں کوفروکرنے میں سب سے نمایاں کردار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اداکیا۔سب سے شدیدبغاوت یمامہ کی تھی،جہاں مسیلمہ کذاب نے جھوٹی نبوت کادعوی کرکے لوگوں کی ایک کثیرتعداد اپنے گرد جمع کرلی تھی۔مسیلمہ ایک اسلا می دستے کوشکست بھی دے چکاتھا،اب امیرالمومنین حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کواس کی طرف روانہ کیا۔آپ یمامہ پہنچے تومسیلمہ چالیس ہزار فوج کے ساتھ عقرباء کے میدان میں صف آراہوگیا۔
شوال ۱۱؍ھ بمطابق دسمبر۶۳۲ء کوگھمسان کارن پڑااور جنگ لمحہ بہ لمحہ تیز ترہوتی گئی،آپ نے جب دیکھاکہ دشمن کازور کسی طرح کم نہیں ہورہاتوآپ نے فوج کی ترتیب بدل دی۔آپ نے فرمایا:
ہرقبیلہ علیٰحدہ علیٰحدہ ہوجائے اور علیٰحدہ ہوکر ہی دشمن سے مقابلہ کرے تاکہ یہ دیکھاجاسکے کہ کس قبیلے نے کیاکارہائے نمایاں انجام دیئے۔آپ کی اس تدبیر سے مسلمانوں کے حملے کازور بڑھ گیالیکن جب دشمن اس کے باوجود بھی میدان میں جمارہاتوآپ نے مسیلمہ کوگھیرنے کی کوشش کی اور اس کواس حدتک دبایاکہ وہ قریب کے باغ میں پناہ لینے پرمجبور ہوگیا بالآخر مسیلمہ ماراگیا۔اس کی موت اس کی فوج کے لیے شکست کاباعث بنی ۔عقرباء کی جنگ میں اکیس ہزار کافرومرتد مارے گئے اور ان میں ساٹھ ہزار تعاقب میں ہلاک ہوئے۔مسلمان شہداء کی تعدادمیں ایک بہت بڑی تعدادقرآن پاک کے حافظوں کی بھی تھی،اب تک کسی جنگ میں نہ اتنی تعداد میں کافر مارے گئے اور نہ ہی مسلمان شہیدہوئے۔ غالباًاس جنگ میں مسیلمہ کی فوج کے اکیس ہزار(۲۱۰۰۰)لوگ مارے گئے اور بارہ سو مسلمان شہید ہوئے۔
==================
(حضرت خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کی آپ بیتی،ص۲۰)
سلطنتِ فارس(ایران) کی مہم
***********************
حضرت خالد رضی اللہ عنہ ابھی یمامہ ہی میں تھے کہ فرات کی وادی میں ایرانیوں اور عربوں کے مابین جنگ چھڑگئی۔خلیفۃ المسلمین سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ کے فرمان پرآپ کوعراق کارخ کرنا پڑا۔سلطنت ایران کے خلاف لشکرکشی سے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی فوجی زندگی کے ایک نئے باب کاآغازہوتاہے۔اب تک ان کامقابلہ اپنے ہم قوم عربوں سے تھاجواگرچہ اپنی صفات کے لحاظ سے جنگجواور دلیرتھے مگرجنگی سازوسامان اور جنگی تجربے کے لحاظ سے مسلمانوں پرکوئی خاص برتری نہیں رکھتے تھے۔لیکن اب آپ کاسابقہ سلطنت ایران سے تھا،جن کاشمار دنیاکی طاقتور حکومتوں میں ہوتاتھا،جس کے پاس ہرقسم کاجنگی سازوسامان وافر مقدار میں موجودتھا،ایرانی فوجی تربیت یافتہ سپاہی تھے اور ایرانی سپہ سالارترکوں اور رومیوں کے خلاف طویل جنگوں کاتجربہ رکھتے تھے لیکن سیف اللہ کے مقابلے میں ایران کی یہ کثیرتعدادفوجیں بھی عربوں ہی کی طرح بے بس ثابت ہوئیں۔اس عبقری سپہ سالار نے سواسال سے بھی کم مدت میں اُبلہ سے لے کرفراض تک سات سومیل کاطویل علاقہ،جودریائے فرات کے مغرب میں تھا ، فتح کرلیا۔آپ نے یہاں شہروں اور قصبوں کے کامیاب محاصرے کیے اور ایران نے جوبھی فوج بھیجی اسے شکست دی۔ان لڑائیوں میں آپ کے پاس کسی بھی جنگ میں دشمن سے زیادہ فوج کبھی نہیں رہی اور دشمن بارہاایک لاکھ اورکبھی اس سے زیادہ فوج میدان جنگ میں لایا۔آپ نے ایران کے خلاف تقریباًپندرہ جنگیں لڑیں اور ان میں کم سے کم پانچ جنگیں،جنگ ذات السلاسل،جنگ ندار،جنگ کسکر،جنگ الیبس اور جنگ فراضی ایسی ہیں جن کو ہم بڑی اور سخت لڑائیوں میں شمارکرسکتے ہیں۔
جنگ سلاسل
آپ نے ایرانیوں کے خلاف پہلی بڑی جنگ موجودہ کویت کے قریب کاظمہ کے مقام پرلڑی۔اس زمانے کے دستور کے مطابق آپ نے مغربی عراق کے حاکم ہرمزکوپہلے ایک خط لکھاجس میں اس کواسلام کی دعوت دی اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی لکھاکہ :
’’یادرکھوتم کوایسی قوم سے لڑناپڑے گاجوموت کی اتنی ہی آرزومند ہے جتنی تم زندگی کی تمنارکھتے ہو‘‘۔
=====================
(نورانی حکایات،ص؍۶۲،حضرت خالد رضی اللہ عنہ بن ولید، ص۶ ، از: محترم ثروت صولت)
ہرمز نے کسریٰ فارس کو اس کی اطلاع دی اور خود ایک بھاری بھرکم فوج لے کر آیا۔انفرادی زورآزمائی میں آپ نے ہرمز کوقتل کردیااور ہرمزکی فوج کوشکستِ فاش ہوئی۔سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ نے ہرمز کاقیمتی تاج آپ کویہ کہہ کرلوٹادیاکہ
’’یہ تمہارا حق ہے‘‘۔
آپ نے ایک لاکھ درہم میں اسے فروخت کیا۔اس جنگ میں ایک عجیب واقعہ رونماہواتھاامیرالمومنین نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی مدد کے لئے ایک آدمی پرمشتمل کمک’’ قعقاع بن عمرو ‘‘کوروانہ کیاتھا۔ہرمز کے سپاہی زنجیریں باندھے کھڑے تھے اس لیے اسے جنگِ سلاسل کہاجاتاہے جوکہ محرم۱۲؍ھ مطابق اپریل۶۳۳ء میں ہوئی۔
(مرجع سابق،ص۲۴)
سلطنتِ روم سے مدبھیڑ
اس زمانے میں دنیاکی سب سے بڑی دوحکومتیں تھیں روم اور فارس۔پہلے روم کی حکومت تمام یورپ،مصراورایشیائے کوچک تک پھیلی ہوئی تھی اور اس کامرکزاٹلی کاشہرروم تھا۔بعد میں اس حکومت کے دوٹکڑے ہوگئے۔مغربی حصے کادارالحکومت توروم ہی رہالیکن مشرقی حصے کادارالحکومت قسطنطنیہ ہوگیا۔مشرقی روم کاشہنشاہ بھی قیصرروم کہلاتاتھااور اس کانام ہرقل تھا۔ہرقل کی حکومت میں مصر، حبشہ، فلسطین ، شام ، ایشیائے کوچک اور بلقان کے ممالک تھے۔ہرقل کی حکومت مذہباًعیسائی تھی۔سلطنت روم میں شام ایک خوبصورت علاقہ ہے۔اس کی سرحد جنوب میں عرب کے ساتھ ملتی تھیں۔حلب،حمص اور دمشق شام کے ممتاز اوربڑے شہرتھے۔شام کے مغرب میں انطاکیہ،بیروت،صور،عکّہ،جافہ،بحیرہ اور روم کے ساحل پر بندرگاہیں تھیں۔خلیفۃ المسلمین سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ نے شام میں جہاد کرنے کے لیے سات سات ہزار کے چارلشکربنائے ۔حضرت عمر وبن عاص کوفلسطین،حضرت یزید بن ابوسفیان کودمشق،حضرت شرجیل بن حسنہ کواردن اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کوحمص کے محاذ پرمقررفرمایاگویاکہ چار سالاراور چاروں کے محاذمختلف۔خودہرقل قسطنطنیہ سے مسلمانوں سے آٹھ گنازیادہ لشکرلے کرشام آیاتو امیرالمومنین نے فرمایا:
’’واللہ!میں خالد بن ولیدکے ذریعے رومیوں اور شیطان کے ساتھیوں کونیست و نابودکروں گا‘‘۔
==============
(طبری،بحوالہ:حضرت خالدرضی اللہ عنہ بن ولید کی آپ بیتی،ص۲۶)
چنانچہ امیرالمومنین نے آپ کوخط لکھ کرمطلع فرمایاکہ شام پہنچ کراسلامی فوج کے سپہ سالار کی حیثیت سے خدمات انجام دو ۔
چنانچہ آپ انتہائی دشوار گزارراستوں سے انتہائی قلیل مدت میں ملک شام پہنچے۔آپ کی قیادت میں اسلامی لشکر نے بصریٰ،اجنادین،دمشق اور دیگرعلاقوں کوفتح کیا۔یہ تمام فتوحات ۱۳؍ھ بمطابق ۶۳۴ء میں واقع ہوئیں۔
==============
(مرجع سابق،ص؍۲۶)
عین التمر کی پُر خطر مہم
عراقی مہم میں حضرت خالد رضی اللہ عنہ کوامیرالمومنین سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ کاخط ملتاہے جس میں حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی امدادکے لئے فوراًروانہ ہونے کافرمان تھا۔وہ شام کی طرف کوچ کرنے کاقصد فرماتے ہیں اور عین التمرکی راہ سے جوسب سے قریب راستہ ہے،حدودشام میں داخل ہونے کی تجویز پیش کیں۔اس دشوار گزارصحراکی مشکلات سے واقفیت رکھنے والے حضرت رافع رضی اللہ عنہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کومشورہ دیتے ہیں کہ عین التمرکی راہ سے تشریف لے جانے کاقصد ترک کردیجئے کیونکہ اس خوفناک صحرامیں قدم رکھناجان بوجھ کر موت کودعوت دیناہے۔یہ ایساراستہ ہے کہ پانچ دن کی منزل میں پانی کاایک قطرہ بھی کہیں سے دستیاب نہ ہوگا۔سواری اور باربرداری کے جانوروں کاہلاک ہوجانایقینی ہے۔کوئی اور ہوتاتو حضرت رافع رضی اللہ عنہ کے اس مشورے کوقبول کرکے قریبی راہ سے جانے کاارادہ ترک کردیتا۔لیکن حضرت خالد رضی اللہ عنہ کسی مشکل سے گھبرانے کی جگہ اس پرقابوپانے کے تجاویز سوچتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں کہ چالیس اونٹوں کواچھی طرح پانی پلاکران کے منہ باندھ دیئے جائیں اور ہرمسلمان اپنی ضرورت کے مطابق پانی ساتھ لے لے۔آپ ہرمنزل پر دس اونٹ ذبح کراتے ہیں اور ان کے پیٹ سے نکلاہواپانی ٹھنڈاکرکے جانوروں کوپلاتے ہوئے موت کی اس وادی کونہایت کامیابی کے ساتھ عبور کرلیتے ہیں۔یہ عزم اور تدبیرکاکتنابڑامظاہرہ ہے اس کااندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے عرب کے وسیع ریگستانوں میں پیاس کے سبب ہلاک ہونے والے قافلوں کی ہڈیاں بکھری ہوئی دیکھی ہیں جواس حقیقت سے آشنا ہیں کہ بڑے سے بڑے بہادر بھی کسی ایسے راستے پرقدم بڑھانے کی جرات نہیں کرسکتا جس میں پانچ دن تک پانی ملنے کاامکان نہ ہو۔
==============
(سیدناخالد بن ولیدرضی اللہ عنہ،ص؍۲۲)
ان تمام باتوں کے علاوہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی زندگی میں سب سے زیادہ قابل لحاظ امر یہ ہے کہ ان کے ہمراہی صحرائے عرب کے غیر تربیت یافتہ مٹھی بھر افراد تھے۔خود انہوں نے بھی کسی فوجی کالج میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کی تھی۔پھرمقابلہ کس کے ساتھ تھا،قیصرروم اور شہنشاہِ ایران کے آہن پوش منظم لشکروں کے ساتھ۔جن کے وسائل اورسامان حرب کاکوئی اندازہ بھی قائم کرنامشکل تھا۔وسیع اور دولت مند سلطنتیں ان کی پشت پر تھیں اور اپنے سالاروں کوبرابرکمک بھیجتی رہتی تھیں۔ادھرمسلمانوں کایہ عالم تھا کہ اگرکسی کے پاس تلوار ہے تونیام ندارد،نیزہ ہے توڈھال نہیں اورگھوڑاہے توزین سے محروم۔ اپنے وطن سے منزلیں دور،پرائے ملک میں آکرایسے بے سروسامان لشکر کارومیوں اور ایرانیوں کے عظیم الشان لشکروں کوشکست دیناکسی معجزے سے کم نہیں۔حضرت خالد رضی اللہ عنہ عراق اور شام میں جتنی لڑائیاں لڑیں ان تمام میں کوئی ایک جنگ بھی ایسی نہیں جس میں مسلمانوں کی تعداددشمن کی فوج کے نصف کے برابرہو۔لیکن ہر معرکے میں مظفرومنصور رہے،ہرلڑائی میں دشمن کوشکست فاش دی۔
عطا ء الرحمن نوری( جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.