You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سیدناغوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کی حیات سے اخلاقِ حسنہ کے چند نادر نمونے
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
=================================
قطب الاقطاب، فرد الافراد، قطبِ ربانی، محبوبِ سبحانی، سرکارِ غوثِ پاک شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذاتِ گرامی فضائل و مناقب اور کمالات کی بنا پر جماعت اولیاء میں انفرادی حیثیت کی حامل ہے،سرکارِ غوثِ اعظم جملہ صحابۂ کرام اور بعض اکابرین تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علاوہ سیدنا امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ تک کے تمام اولیائِ کرام و مشائخ عظام سے افضل و اعلیٰ و اکمل ہیں۔ تمام اولیائے کرام خواہ آپ کے پہلے کے ہوں یا ہم عصر یا آپ کے عہدِ مبارک کے بعد ہوں گے سب آپ کے مداح اور آپ کی نظرِ کرم کے امید وار ہیں۔
آپ کا سال ولادت ۴۷۰ھ اور عیسوی ۱۰۷۵ ہے،
مہینہ یکم رمضان المبارک اوردن جمعۃ المبارکہ ہے۔
ذیل میں آپ کی سیرت سے اخلاق کے چند نادرونایاب نمونوں کوپیش کیاجارہاہیںتاکہ معلومات کے ساتھ کردار کے سُدھار کاباعث ہو۔
دریا دلی:
سیدناغوثِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے میں بڑے دریا دل تھے، اگر کسی ضرورت مند کو دیکھتے تو جو کچھ میسر آتا اسے عنایت کر دیتے۔
ایک مرتبہ سیدنا غوثِ اعظم کی نظر ایک پریشان حال، کبیدہ خاطر فقیر کے اوپر پڑی، ایک انسان کو اس عالم میں دیکھ کر آپ کا دل تڑپ اٹھا اور بلا تاخیر دریافت کیا تمہارا کیا حال ہے؟ اظہارِ مجبوری کے ساتھ فقیر نے جواب دیا مجھے دریا کے اس پار جانے کی حاجت ہے لیکن پیسہ نہ ہونے کے سبب بسیار عاجزی کے باوجود ملاح نے اپنی کشتی میں بٹھانے سے انکار کر دیا جس سے میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔
اگر میرے پاس ہوتا تو آج یہ محرومی مجھے کیوں کر ہوتی حسنِ اتفاق سے سیدناغوثِ پاک کے پاس بھی کچھ نہ تھا مگر اس کی پریشانی آپ کو برداشت نہ ہو سکی اور خدائے قادر کی بارگاہ میں دست بدعا ہوئے، معاً ایک شخص اشرفیوں کی ایک تھیلی آپ کی خدمت میں پیش کی، آپ بہت خوش ہوئے اور فوراً فقیر کو بلا کر فرمایا لو یہ تھیلی لے جائو، ملاح کو دے دو اور کہہ دینا کہ اب کبھی بھی کسی فقیر اور نادار کو کشتی میں بٹھانے سے انکار نہ کرنا۔
(بہجۃ الاسرار)
سیدناغوثِ پاک کے پاس جس وقت کوئی شخص سونا لاتا تو آپ اسے ہاتھ نہ لگاتے اور لانے والے سے فرماتے کہ اسے مصلے کے نیچے رکھ دو۔ جب خادم آتا اسے حکم دیتے کہ مصلے کے نیچے جو کچھ پڑا ہے اسے اٹھا لو اور طباخ و سبزی فروش کو دے دو۔
(بہجۃ الاسرار)
غریب پروری:
غریبوں، مسکینوں کے لئے آپ سراپا رحمت تھے، ان لوگوں سے آپ بے حد محبت فرماتے، انہیں اپنے ساتھ بٹھاتے، کھانا کھلاتے اور ان کی جو بھی خدمت بن آتی کرتے، فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مال و دولت کو پیار نہیں کرتا بلکہ اسے تقویٰ اور اعمالِ صالحہ محبوب ہیں۔
سیدنا غوثِ پاک ایک مرتبہ حج سے واپسی کے وقت مقام حلہؔ پہنچے تو آپ نے فرمایا اس جگہ کا سب سے غریب اور مسکین گھرانہ تلاش کرو، ایک ویران گھر دیکھا گیا جو بالوں کے خیمے پر مشتمل تھا، اس میں ایک ضعیف العمر شخص اور اس کی بوڑھی بیوی اور ایک لڑکی قیام پذیر تھے، آپ نے اسی گھر میں اترنے کی اجازت طلب کی، اس نے بخوشی اجازت دے دی، شہرِ حلہ کے مشائخ، رؤسا اور اکابرین آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اصرار کیا جگہ تبدیل کریں۔ آپ نے انکار فرمایا،
لوگوں نے گائے، بکریاں، مختلف کھانے، سونے، چاندی کے انبار آپ کے سامنے لگادئے اور جب وہاں سے عزمِ سفر کیا تو فرمانے لگے جو مال و اسباب یہاں موجود ہیں اس میں سے اپنا حصہ میں نے اس گھرانے کے لئے وقف کر دیا، رفقاء نے عرض کیا ہم نے بھی اپنے حصے راہِ خدا میں ان لوگوں (گھرانے) کو دے دئے، چنانچہ تمام مال و اسباب آپ نے اس ضعیف العمر اور اس کی بچی کے حوالے کر دیا،
راوی کا بیان ہے کہ کئی برس بعد حلہؔ سے گزر ہوا تو وہی ضعیف العمر شخص بستی میں سب سے زیادہ مالدار تھا، پوچھنے پر اس نے بتایا کہ یہ سب کچھ شیخ کی عطا کردہ مال و دولت کی برکت ہے۔
مخلوقِ خدا کی بھلائی:
آپ نے ہمیشہ مخلوقِ خدا کی بھلائی کی، اپنے پاس آنے والوں کی راہِ ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائی، بے شمار مخلوقِ خدا کو دعائوں کے ذریعہ نجات کے راستے پر گامزن کیا، اگر کوئی پریشان حال آیا تو اس کی بات سُن کر ہر ممکن مدد کی، مخلوقِ خدا آپ کو غمخوار جانتے ہوئے جوق در جوق آتی تھی اور آپ کی صحبت سے سکون حاصل کر کے جاتی۔
ایک دفعہ آپ نے فرمایامیری تمنا ہے کہ ابتدائے حال کی طرح جنگلوں اور ویرانوں میں رہوں جہاں نہ میں کسی کو دیکھوں اور نہ ہی مجھے کوئی دیکھے، پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ مخلوق کی منفعت کا ارادہ فرمایا، چنانچہ یہود و نصاریٰ میں سے ۵۰۰۰ سے زیادہ آدمی میرے ہاتھ پر مسلمان ہوئے اور ایک لاکھ سے زائد ڈاکو اور ٹھگ میرے ہاتھ پر تائب ہوئے اور ایک عظیم فائدہ ہے۔
حضور غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے اپنے تمام اعمال کی چھان بین کی اور جستجوکی تو مجھے معلوم ہوا کہ سب سے بہتر عمل کھانا کھلانا اور حسنِ اخلاق سے پیش آنا ہے اگر میرے ہاتھ میں پوری دنیا کی دولت بھی دے دی جائے تو میں اسے بھوکوں کو کھانا کھلانے میں صرف کر دوں کیوں کہ میرے ہاتھ میں سوراخ ہے جن میں کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی، اگر میرے پاس ہزاروں دینار آجائیں تو میں رات گزرنے سے قبل ہی خرچ کر ڈالوں۔
ہمدردی اور شفقت:
سیدناغوثِ پاک کا رویہ بڑا ہمدردانہ اور مشفقانہ تھا، مجلس میں آنے والوں کے لئے ہر وقت ہمدردی کا اظہار فرماتے، اگر کوئی ملنے والا چند روز نہ آئے تو دوسرے سے اس کی خیر و عافیت دریافت فرماتے اور بعض اوقات یوں بھی کرتے کہ خادم سے کہتے کہ جا کر معلوم کرو کہ فلاں شخص کہیں کوئی پریشانی میں تو مبتلا نہیں ہو گیا؟ طبیعت تو نہیں خراب ہو گئی ہے؟ جب تک اس کی خیریت نہ معلوم کر لیتے مطمئن نہ ہوتے، اگر وہ شخص بیمار ہوتا اور اس کی علالت کی خبر آپ کو ملتی تو اس کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے اور اس کے بہت قریب جا کر بیٹھتے دیر تک اطمینان و تسلی بخش باتیں کرتے اور ہمدردی کا اظہار فرماتے تھے، احباب میں سے ایک شخص بغداد مقدس سے کافی فاصلے پر ایک گائوں میں رہتے تھے، ایک مرتبہ بیمار پڑ گئے، آپ کو ان کی علالت کی خبر ملی تو آپ سفر کی تمام دشواریاں برداشت کر کے اس گائوں میں ان کی عیادت فرمانے تشریف لے گئے۔
(بہجۃ الاسرار)
الغرض! حضور غوث الثقلین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مقدس زندگی خلقِ خدا کی مدد، پریشان و مجبور لوگوں کے تعاون اور ان کی فریاد رسی کے سلسلے میں ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سچی عقیدت و محبت کا دم بھرنے والے آپ کے فرمودات پر عمل کریں، ان کی تعلیمات کو عام کرنے کے جو بھی طریقے ممکن ہوں اس پر عمل پیرا ہوں اور محض زبانی دعووں سے فلاحِ دارین کا خواب نہ دیکھیں۔ رب قدیر ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ آمین
عطا ء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی( جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.