You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
صفات راوی کے اعتبار سے خبر مقبول کی درج ذیل چار اقسام ہیں:
(۱)۔۔۔۔۔۔صحیح لذاتہ
(۲)۔۔۔۔۔۔صحیح لغیرہ
(۳)۔۔۔۔۔۔حسن لذاتہ
(۴)۔۔۔۔۔۔حسن لغیرہ
(۱)۔۔۔۔۔۔صحیح لذاتہ:
وہ حدیث جس کی سند متصل ہو، تمام راوی عادل ضابط ہوں اور اس حدیث میں علتِ قادحہ و شذوذ(1) نہ ہو۔
---------------------
1۔۔۔۔۔۔علت قادحہ:یعنی اس حدیث میں علت خفیہ قادحہ نہ ہو مثلا ثور بن یزید کے تمام شاگردوں نے کاتب مغیرہ بن شعبہ سے اس حدیث کو مرسلا بیان کیا کہ نبی صلی للہ تعالی علیہ وسلم نے موزوں کے اوپراور نیچے دونوں حصوں پرمسح کیا اور ولید بن مسلم نے اسی کو ثوربن یزید سے متصلا بیان کیا حالانکہ یہ حدیث مرسل ہے نہ کہ متصل۔لہذا ولید بن مسلم کی اس حدیث میں علت خفیہ قادحہ موجود ہے۔
شذوذ:شذوذ یہ ہے کہ ثقہ راوی اپنے سے اوثق کی مخالفت کرے۔
---------------------
شرائط:
اس تعریف سے صحیح لذاتہ کی درج ذیل شرائط معلوم ہوئیں۔
(۱)سند متصل ہو
(۲)راوی عادل ہوں
(۳)راوی ضابط ہوں
(۴) حدیث شاذ نہ ہو
(۵)حدیث غیر معلل ہو۔
اگر ان شرائط میں سے کوئی شرط مفقود ہوتو حدیث صحیح لذاتہ نہیں کہلائے گی(۱)۔
---------------------
1۔۔۔۔۔۔ حدیث کے صحیح نہ ہونے اور موضوع ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اور حدیث کے صحیح نہ ہونے سے اس کا موضوع ہونا لازم نہیں آتا۔(فتاوی رضویہ ۵/۴۴۰۔۴۴۱)
---------------------
مثال:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ ابْنِ شِہِابٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَأَ فِي الْمَغْرِبِ بِالطُّوْرِ۔
(رواہ البخاری فی کتاب الاذان)
ترجمہ:ہمیں عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا: فرماتے ہیں کہ ہمیں خبر دی مالک نے وہ روایت کرتے ہیں ابن شہاب سے اور ابن شہاب روایت کرتے ہیں محمد بن جبیر بن مطعم سے اور وہ اپنے والد سے کہ ان کے والد نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو سنا کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے مغرب میں سورہ طور کی تلاوت فرمائی۔
----------------------------------------------
(۲)۔۔۔۔۔۔صحیح لغیرہ:
وہ حدیث جس کے راویوں میں صحیح لذاتہ کی تمام شرائط پائی جائیں لیکن ضبط روایت میں کچھ کمی ہو۔لیکن تعددِطرق سے یہ کمی پوری ہوجائے۔
مثال:
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ أَبِيْ سَلْمَۃَ عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰی أُمَّتِيْ لَاَمَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ۔
ترجمہ:
محمد بن عمرو سے روایت ہے وہ ابو سلمہ سے اور ابو سلمہ ابو ہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اگرمجھے اپنی امت پر مشقت کا خوف نہ ہوتاتومیں انہیں ہرنماز کیلئے مسواک کرنے کا حکم دیتا۔
حافظ ابن صلاح علوم الحدیث میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی محمد بن عمرو بن علقمہ صدق وعفت میں تومشہور ہیں لیکن یہ اہل ضبط واتقان میں سے نہیں ہیں یہاں تک کہ بعض محدثین نے ان کو ان کے سوءِ حفظ کی وجہ سے ضعیف قرار دیاہے اور بعض نے ان کے صدق اور جلالت کی وجہ سے ان کی توثیق کی ہے لہذا اس اعتبارسے ان کی حدیث حسن ہے۔لیکن اس حدیث کے ایک اور سند سے مروی ہونے کی وجہ سے وہ خدشہ دورہوگیا جو کہ راوی میں سوءِ حفظ کے سبب پیداہواتھا اور اس حدیث میں جو نقصان پہلے تھا اس کی تلافی دوسری حدیث سے ہوگئی تویہ حدیث صحیح لغیرہ کے مرتبہ پرپہنچ گئی۔
--------------------------------------------
(۳)۔۔۔۔۔۔حَسَن لِذاتِہٖ:
وہ حدیث جس کے راویوں میں صحیح لذاتہ کی تمام شرائط پائی جائیں لیکن ضبطِ روایت میں کچھ کمی ہواور یہ کمی کسی اور ذریعے سے پوری نہ ہو۔
مثال:
حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ الضَّبْعِي عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِي عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ اَئبِی مُوْسَی الْاَشْعَرِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِی بِحَضْرَۃِ الْعَدُوِّ یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ''اِنَّ أَبْوَابَ الْجَنَّۃِ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّیُوْفِ
ترجمہ: حضرت قتیبہ سندِ مذکور کے ساتھ حضرت ابو موسی اشعری سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے دشمن کی موجودگی میں اپنے باپ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا: بے شک جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہیں۔
یہ حدیث حسن لذاتہ ہے کیونکہ اس کی اسناد کے چاروں رجال ثقہ ہیں سوائے جعفر بن سلیمان الضبعی کے کیونکہ ان کے ضبط میں کچھ کمی ہے اور یہ کمی کسی اور ذریعے سے پوری نہ ہوسکی۔
----------------------------------------------
(۴)۔۔۔۔۔۔حسن لغیرہ:
وہ حدیث ضعیف جس کا ضعف تعددِ طرق سے ختم ہوجائے(۱)۔
---------------------
1۔۔۔۔۔۔تعدد ِطرق سے ضعیف حدیث قوت پاتی ہے بلکہ حسن ہوجاتی ہے۔
( فتاوی رضویہ۵/۴۷۲)
حصولِ قوت کو صرف دو سندوں سے آنا کافی ہے۔
( فتاوی رضویہ ۵/۴۷۵)
---------------------
مثال:
عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ امْراَئۃً مِنْ بَنِيْ فَزَارَۃَ تَزَوَّجَتْ عَلٰی نَعْلَیْنِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَضِیْتِ مِنْ نَفْسِکِ وَمَالِکِ بِنَعْلَیْنِ؟ قَالَتْ نَعَمْ۔ فَأَجَازَ۔
ترجمہ: عاصم بن عبید اللہ مذکورہ سند سے روایت کرتے ہیں کہ بنو فزارہ کی ایک عورت نے دو جوتوں کے عوض نکاح کرلیا تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے اس عورت سے دریافت فرمایا کہ تم اپنے نفس اور مال کے بدلے میں دوجوتوں کے معاوضہ پر راضی ہو؟اس نے عرض کی ہاں توآپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے نکاح کی اجازت دے دی۔
اس حدیث کا ایک راوی عاصم بن عبید اللہ سوء حفظ کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن چونکہ یہ حدیث متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے اس لیے حسن لغیرہ ہے۔
----------
ان کا حکم:
یاد رہے یہ چاروں اقسام قابل استدلال ہیں یعنی ان سے حجت پکڑی جاسکتی ہے(۱) کیونکہ یہ مقبول کی اقسام ہیں لیکن صحیح لذاتہ واجب العمل ہے۔
---------------------
1۔۔۔۔۔۔حدیث ِحسن احکامِ حلال وحرام میں حجت ہوتی ہے۔(فتاوی رضویہ ۵/۴۳۷)
---------------------
------------------------------
حسن لذاتہ و لغیرہ کے رتبہ میں فرق:
حسن لغیرہ حسن لذاتہ سے مرتبہ میں کم ہوتی ہے اگر کہیں ان دونوں میں تعارض آجائے توحسن لذاتہ کو ترجیح دی جائے گی۔
نوٹ:
چونکہ حسن لغیرہ کو سمجھنا خبر ضعیف کو سمجھنے پر موقوف ہے لہذا ضمنا خبر ضعیف کی تعریف درج کی جاتی ہے۔
خبر ضعیف:(۱)
وہ حدیث جس کے راویوں میں صحیح اور حسن کی تمام یا بعض شرائط مفقود ہوں اور یہ کمی پوری نہ ہو۔
---------------------
1۔۔۔۔۔۔یاد رہے کہ حدیث میں ضعف راوی کی وجہ سے ہوتاہے ورنہ کوئی بھی حدیث جو سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے ثابت ہوجائے وہ ضعیف نہیں۔تعدد طرق سے ضعیف حدیث قوت پاتی ہے بلکہ َحسن ہوجاتی ہے۔ ( فتاوی رضویہ۵/۴۷۲)
---------------------
رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :''اَلدِّیْکُ الْاَبْیَضُ صَدِیْقِيْ وَصَدِیْقُ صَدِیْقِيْ وَعَدُوُّ عَدُوِّ اللہِ''
ترجمہ: سفید مرغ میرا دوست اورمیرے دوست کا خیر خواہ اور اللہ کے دشمن کا دشمن ہے۔(کتاب الموضوعات لابن الجوزی)
حکم:
فضائل اعمال میں ضعیف حدیث مقبول ہے(۲) نیز مواعظ، ترغیب اور ترہیب کے سلسلے میں بھی ضعیف احادیث بیان کی جا سکتی ہے لیکن یہ یاد رہے کہ ضعیف حدیث کی نسبت بالجزم سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی طرف کرنا روانہیں ہاں یوں کہا جاسکتاہے کہ روي عن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم یا بلغنا عنہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کذا۔
---------------------
2۔۔۔۔۔۔ حلیہ میں فرمایا کہ جب حدیث ِضعیف بالاجماع فضائل میں مقبول ہے تو اباحت میں بدرجہ اَولی۔ (فتاوی رضویہ۱/۲۴۰)
---------------------
(۔۔۔۔۔۔تتمّہ۔۔۔۔۔۔)
ھَذَا حَدِیْث حَسَن صَحِیْح:
بعض اوقات امام ترمذی ایک ہی حدیث کو حسن صحیح کہہ دیتے ہیں حالانکہ حسن رتبہ کے اعتبار سے صحیح سے کم ہوتی ہے جیسا کہ تعریفات کے ضمن میں گذرچکا ،اس کے جواب میں امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(۱)۔۔۔۔۔۔جب کسی حدیث کی دویازائد اَسناد ہوں تو حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ کا معنی ہوتاہے کہ ایک سند کے اعتبار سے حسن ہے جبکہ دوسری کے اعتبار سے صحیح۔
(۲)۔۔۔۔۔۔اور اگر ایک ہی سند ہوتوایک قوم کے نزدیک اس کی شرائط کے مطابق وہ حدیث حسن جبکہ دوسری قوم کے نزدیک اس کی شرائط کے مطابق صحیح ہوتی ہے لیکن چونکہ امامِ مجتہد کو ناقل کی حالت میں تردد ہوتاہے اس لیے وہ حدیث کو ایک وصف سے متصف نہیں کرپاتااور کمالِ تقوی اور عدالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ دیتاہے کہ ھَذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ یعنی حَسَنٌ أَوْ صَحِیْحٌ۔
---------------------------------------------------------------
نصاب اصول حدیث
مع
افادات رضویۃ
پیشکش
مجلس المدینۃ العلمیۃ (دعوتِ اسلامی )
(شعبہ درسی کتب)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.