You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
شب معراج کی اہمیت اشاعتِ اسلام کے تناظر میں
از:علامہ محمدشاکرعلی نوری،ممبئی(امیرسنی دعوت اسلامی )
سیر وسیاحت انسانی طبیعت کو فرحت بخشتی ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر نظام میں ذہنی تسکین کے لیے انسان کو ہفتہ میں ایک اور سال میں چند دنوں کی تعطیل دی جاتی ہے تاکہ مسلسل مصروف کار رہنے کی وجہ سے ذہنی کوفت سے Relex ملے۔ انسان تسکین ذہن کے لیے اور Fresh ہونے کے لیے اپنی بساط کے مطابق سفر کرتا ہے کبھی Hill Stationتو کبھی دریا کے کنارے، کبھی مقدس مقامات پر جیسا جیسا ذوق ویسا ویسا مقام، سفر معراج کے پس منظر کو بھی اگر ہم دیکھیں تو محسوس ہوگا کہ دعوت دین کی جو عظیم ذمے داری اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا: یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ۔ خاتم پیغمبراں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی اس ذمے داری کو بحسن وخوبی نبھارہے تھے اور تکمیل مقصد جو فلاح انسانی اور خیر خواہی کے سوا کچھ نہ تھا کے لیے شب وروز فکر مند رہتے تھے۔ صبح سے لے کر شام تک اپنی اُمت کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچانے کے لیے اپنے آرام وسکون کو اس حد تک چھوڑ کر مصروف کار تھے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا:فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ۔
غافل اور حق نا آشنا انسان دعوت حق قبول کرنے کے بجائے پتھروں اور نازیبا جملوں سے قلب مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اذیت پہنچارہا تھا۔ لیکن اللہ رب العزت کے پیارے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم روزانہ صبح ہدایت کے پھول لے کر جاتے اور نفرتوں کے پتھروں سے چھلنی ہوکر لوٹتے، کبھی دعوت حق کوئی قبول کرلیتا تو بارگاہ صمدیت میں جبین نیاز جھکا کر ہدیہ تشکر پیش کرتے اور اس دن قلب میں سکون وفرحت محسوس کرتے۔ جہالت کی وادیوں میں بھٹکنے والے انسان ہدایت کے اس عظیم آفتاب کو کبھی کبھی چچا ابو طالب کی وجہ سے زیادہ سختیوں سے گریز کرتے اور چچا ابو طالب آقائے کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مشن میں کبھی رکاوٹ نہ بنے۔ اور اسی طرح ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے مشن سے گھر تشریف لاتے تو ایسے تسلی آمیز کلمات کہتیں کہ خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ خدیجہ کے جملے مجھے تسلی دیا کرتے تھے۔ دعوت دین کے کام کو کم وبیش ساڑھے گیارہ سال کا عرصہ گزر گیا اسی درمیان مذکورہ دونوں شخصیات داغ مفارقت دے گئیں، اب کفار قریش بے باک ہوگئے اور مشن مصطفوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کرنے لگے، آقائے کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم مکہ سے طائف کا رخ فرماتے ہیں تو وہاں پر بھی اوباش نوجوانوں کو پیچھے لگا دیا جاتا ہے اور آپ کو پتھروں سے لہولہان کردیا جاتا ہے۔ آقائے کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم ہر تکلیف کو سہتے ہوئے اپنے رب کی طرف لوگوں کو بلانے کا کام جاری رکھتے ہیں۔ ہزارہا رکاوٹوں اور تکلیفوں کے باوجود جذبۂ دعوت وتبلیغ سرد نہیں ہوتا۔ بس فکر تھی تو ایک ہی کہ آخر حق نا آشنا جاہل قوم اپنا بھلا اور برا سمجھ کیوں نہیں پاتی۔ قلب اطہر اس کی وجہ سے نہایت ہی مضطرب تھا، میرے مولیٰ کو اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اس فکر کو دور کرنا تھا اور بارگاہ رب العزت میں ان کا جو مقام تھا وہ دکھانا بھی تھا اور خاص طور پر اپنا دیدار کراکے اپنے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ایسے انعام سے نوازنا تھا آدم تا ایں دم کسی کو میسر نہ ہوا ہے نہ ہوسکتاہے، دنیا کا انسان اپنی بساط کے مطابق سفر کرتا ہے لیکن آقائے کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو اللہ تعالیٰ نے ان کی شان کے مطابق سفر کرایا، عرش پر مقام قاب وقوسین اور ادنیٰ میں اپنے دیدار سے نواز کر محبوب سے فرمادیا: محبوب میں نے سیر کرائی ہے آؤ میری طرف سلام ورحمت وبرکات قبول کرو اور اس بلند وبالا سفر سے تمہیں بشارت دی جاتی ہے کہ جب ہم نے تم کو بلایا اور بلند مقام کی سیر کرائی تو اب آنے والا دن تمہارے لیے پہلے سے بہتر ہوگا۔ آقائے کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سفر معراج کے بعد سے ماننے والوں کی تعداد میں وہ اضافہ ہوا کہ ۱۲۴۰۰۰؍ لوگ آغوش اسلام میں آئے اور پروردگار نے مقام مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے سامنے اجاگر بھی کیا اور دولت تسکین سے مالا مال بھی۔ یہاں سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ اگر کوئی داعی دین اخلاص وللہیت کے ساتھ دعوت کے کام میں سرگرم رہے اور اس راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو برداشت کرتارہے اور دل برداشتہ نہ ہوتو اللہ عزوجل ضرور بالضرور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے کامیابی عطا فرمائے گا اور عروج بھی۔ شرط ہے اخلاص وللہیت۔ اللہ عزوجل ہم سب کو رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقہ وطفیل اخلاص کے ساتھ خدمت دین کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبین الکریم علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.