You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سایه عرش کے مکین کون ہوں گے؟
اللہ تعالٰی قیامت کےروز جن مومنوں کو عرش عظیم کے سایه میں بسائے گا ان خوش نصیبوں میں سے بعض کاذکر کروں گا تاکہ مسلمان کسی نه کسی طریقے سے اس سعادت سے بہره مند هوں
1"امام بیهقی کتاب الاسماء میں حضرت ابوہریره سے روایت بیان کرتے هیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا
سبعة يظلهم الله تحت ظل عرشه يوم لاظل الاظله رجل قلبه معلق بالمساجد ورجل دعته امرأة ذات منصب فقال انى اخاف الله ورجلان تحابا فى الله ورجل غض عينه عن محارم الله وعين حرست فى سبيل الله و عين بکت من خشية الله
(جامع الصغير ج2ص31)
الله تعالى سات لوگوں کو اپنے عرش کے سایہ میں بساۓ گا
1وه شخص جس کا دل مسجدوں میں لٹکا رہے
2وه شخص جس کو رتبہ والی عورت دعوت بدکاری دے اور وه کہہ دے که میں اللہ سے ڈرتا ہوں
،4.3وہ دو شخص جو اللہ کی خاطر ایکدوسرے سے محبت کریں
5وہ شخص جو اللہ کی حرام کردہ اشیاکو دیکهنے سے نظر پست کرے
6وہ آنکه جو اللہ کی راہ میں پہرہ دیتے ہوئے جاگتی رہے
7وہ آنکه جو اللہ کے خوف سے روئے
1"امام مسلم حضرت قتادہ سے روایت بیان کرتے هیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
من نفس عن غريمه او محاعنه كان فى ظل العرش يوم القيامة
جو شخص اپنے مقروض کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کردے تو قیامت کے روز سایہ عرش میں ہوگا
(جامع الصغیر ج2 ص 182)
1"امام مسلم حضرت قتادہ سے روایت بیان کرتے هیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
من اطعم الجائع حتی یشبع اظلہ اللہ تحت ظل العرشہ
جوشخص بهوکے کو کهاناکهلاۓ گایہاں تک کہ سیر ہو جائے تو اللہ تعالٰی اسے سایہ عرش میں بسائے گا
(بدورالسافرہ 53)
1"امام دیلمی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتے هیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
التاجر الصدوق تحت ظل العرش یوم القيامة
بہت سچاتاجرقیامت کے دن سایہ عرش میں ہو گا
(جامع الصغیرج1 ص 134)
دیلمی حضرت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حملہ القرآن فی ظل اللہ یوم لا ظل الا ظلہ مع الانبیاء اصفیاء ہ
قرآن کا علم رکھنے والے(علماء)انبیاء و اصفیاء کے ساتھ اس دن اللہ کے سائے میں ہوں گے جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا
(بدور السافرہ ص٥٥)
1"ابن ابی الدنیانے کتاب الاهوال میں مغیث بن سمی سے روایت بیان کرتے هیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
الصائمون فی ظل العرش
(قیامت کے دن)روزے دار سایہ عرش میں ہو ں گے
(بدور السافرہ55)
1"دیلمی حضرت انس سے روایت بیان کرتے هیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
که
ثلاثة تحت ظل عرش الله يوم لاظل الا ظله من فرج عن مكروب امتى ومن احي سنتي ومن اكثر الصلوة علي
تين شخص عرش الهي کے سائے میں اس دن هوں گے جس دن اس سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ هوگا
1میری امت کی مصیبت دور کرنے والا
2میری سنت کو زندہ کرنے والا
3مجه پر کثرت سے درود پڑهنے والا
(بدورالسافرہ ص55)
1"حاکم حضرت ابوذر سے روایت بیان کرتے هیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
که
صل علی الجنائزلعل اللہ یحزنک فان الحزین فی ظل الله
جنازوں پرنماز پڑها کرشائد یه تجهے غمگین بنائے
کیونکہ غمگین شخص اللہ کے ساۓ میں ہوتا ہے
(بدورالسافرہ ص54)
1"طبرانی حضرت جابرسے روایت بیان کرتے هیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
که
من تكفل يتيما اوارملة اظله الله فی ظلہ يوم القيامة
جوشخص يتیم یا کس عورت کواپنی کفالت میں لے لے
اللہ اسے قیامت کے روز اپنے سائے میں بسائے گا
(بدورالسافرہ ص54)
حمیدبن زنجویہ نے فضائل الاعمال میں قیس الجهنی سے روایت بیان کرتے هیں کہ انهوں نے فرمایا
حضرت موسی نےعرض کی میرے معبود اس شخص کی کیا جزا هے؟
جواپنی زبان اوردل کیساته ذکرالهی کرے فرمایا
یاموسى اظله يوم القيامة بظل عرشى
اے موسی میں قیامت کے روزاسے اپنےعرش کے سائے میں بساؤں گا
(بدورالسافرہ ص 55)
ابن ابی الدنیا نےکتاب العزاء میں عبدالعزیز سے روایت بیان کرتے هیں کہ
حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ
ثلاثة فى ظل العرش يوم القيامة عائد المرضى ومشيع الهلكى ومعزى الثكلى
تین شخص قیامت کے روز عرش کے سائے میں ہوں گے
1بیماروں کا حال پوچهنے والا
2مرنے والوں کے جنازے کے پیچهے چلنے والا
3جس عورت کا بچی بچہ فوت ہوجائےاس سے اظهار افسوس کرنے والا
(بدورالسافرہ ص 55)
طبرانی ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرما یا کہ
ثلاثہ فی ظل اللہ ّزوجل یوم لاظل الا ظلہ رجل حیث توجہ علم ان اللہ تعالی معہ ورجل دعتہ امراہ الی نفسھا فترکھا من خشیت اللہ و رجل احب لجلال اللہ
تین لوگ اس دن عرش کے سائے میں ہوں گے جس دن اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا
وہ شخص جو جس طرف بھی جائے یہ جانے کہ اللہ اس کے ساتھ ہے
وہ شخص جس کو کوئی عورت دعوت بدکاری دے تو وہ اللہ کے ڈر سے چھوڑ دے
وہ شخص جو اللہ کے جلال کی وجہ سے محبت کرے
(جامع الصغیر ج ١ ص ١٣٩)
بهیقی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتے هیں کہ
حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ
من سره ان يقيه من فورجهنم يوم القيامة ويظله بظله فلايكن على المومنين غليظا وليكن بهم رحيما
جس شخص كو یہ بات ااچھی لگے کہ اللہ اسے قیامت کی گرمی سے بچائے اوراسے اپنے سائے میں بسائے اسے مومنوں پہ سختی کرنے والا نهیں ہونا چاہیے اوراسے ان پر مہربان هونا چاهئے
(بدورالسافر.ص٥٤)
اللہ تمام مسلمانوں کی خیر فرمائے
آمین
اللہ پاکستان کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنائے پاکستان کو استحکام عطافرمائے آمین ثم آمین
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.