You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
بعض اوقات راوی کی طرف سے حدیث میں اضافہ یا تغیر وتبدل وقوع پذیر ہوتاہے اس اعتبار سے حدیث کی درج ذیل چھ اقسام ہیں:
(۱)۔۔۔۔۔۔مدرج السند
(۲)۔۔۔۔۔۔مدرج المتن
(۳)۔۔۔۔۔۔مقلوب
(۴)۔۔۔۔۔۔ مزید فی متصل الاسانید
(۵)۔۔۔۔۔۔مضطرب
(۶)۔۔۔۔۔۔مصحف ومحرف
(۱)۔۔۔۔۔۔مُدْرَجُ السَنَد:
جس حدیث کی سند میں تغیر کردیاجائے۔
مثال:
رَوَی ابْنُ مَاجَۃَ عَنْ اِسْمَاعِیْلَ الطْلَحِيْ عَنْ ثَابِتِ بْنِ مُوْسَی الْعَابِدِ الزَّاہِدِ عَنْ شَرِیْکٍ عَنِ الْاَعْمَشِ عَنْ أَبِيْ سُفْیَانَ عَنْ جَابِرٍ مَرْفُوْعاً: مَنْ کَثُرَتْ صَلَاتُہ، بِاللَّیْلِ حَسُنَ وَجْہُہ، بِالنَّہَارِ
ترجمہ:ابن ماجہ اسماعیل اطلحی سے وہ ثابت بن موسی سے (جوکہ عابدوزہد تھے)وہ شریک سے وہ اعمش سے وہ ابو سفیان سے وہ جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مرفوعا روایت کرتے ہیں کہ جو شب میں نوافل کی کثرت کرے دن کے وقت اس کا چہرہ حسین (نورانی )ہوگا۔
اس روایت کے بارے میں امام حاکم نے فرمایا کہ شریک یہ حدیث لکھوا رہے تھے کہ
حَدَّثَنَا الْاَعْمَشُ عَنْ أَبِيْ سُفْیَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جب اتنا کہہ کر خاموش ہوئے تاکہ لکھنے والے لکھ لیں اتنے میں ثابت تشریف لے آئے انہیں دیکھ کر شریک نے کہا مَنْ کَثُرَتْ صَلَاتُہ، بِاللَّیْلِ حَسُنَ وَجْہُہ، بِالنَّہَارِ یہ سن کر ثابت نے گمان کیا کہ یہ اس سند کا متن ہے چنانچہ وہ اسے آگے بیان کرتے تھے۔
(۲)۔۔۔۔۔۔مُدْرَجُ المَتَن:
جس حدیث کے متن میں ایسا کلام بلا فصل داخل کردیا جائے جو حدیث کا حصہ نہ ہو مدرج المتن کہلاتی ہے۔یہ اضافہ کبھی متن کی ابتداء میں ہوتاہے کبھی درمیان میں اور کبھی آخر میں لیکن اکثر آخر میں ہی ہوتاہے۔
مثال:
عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ وَیْلٌ لِلْاَعْقَابِ مِنَ النَّارِ
ترجمہ: شعبہ سے روایت ہے وہ محمد بن زیاد سے اور وہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: وضوء کامل کرو خشک ایڑھیوں کیلئے آگ کا عذاب ہے۔
اس حدیث میں أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ کے الفاظ حضر ت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہیں گویا کہ انہوں نے فرمایا کہ وضوء کامل کرواور اس پر دلیل کے طور پر سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا یہ فرمان لائے کہ وَیْلٌ لِلْاَعْقَابِ مِنَ النَّارِ لیکن اس سے حدیث کے الفاظ میں اشتباہ ہوگیا کیونکہ أَسْبِغُوا الْوُضُوء کے الفاظ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے ہونے پر ظاہرا کوئی قرینہ نہیں۔
ادراج کا حکم:
ادراج بالاجماع حرام ہے لیکن اگر مشکل لفظ کی تفسیر کیلئے ادراج کیا گیاہوتوغیر ممنوع ہے۔
(۳)۔۔۔۔۔۔مقلوب:
جس حدیث کے متن یا سند میں تبدیلی کردی جائے چاہے الفاظ کے بدلنے سے ہو یا ان کو مقدم ومؤخر کرنے سے۔
مثال:
عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ رَضِيَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ، :اَلسَّبْعَۃُ الَّذِیْنَ یُظِلّہُمُ اللہُ فِيْ ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ اِلاَّ ظِلُّہ، فَفِیْہِ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَأَخْفَاھَا حَتّٰی لاَ تَعْلَمَ یَمِیْنُہ، مَا تُنْفِقُ شِمَالُہٗ
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سات آدمی جنہیں اللہ تعالی اپنے سایہ رحمت میں اس دن جگہ دے گا کہ جس دن اللہ کے سایہ رحمت کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا ان میں سے ایک وہ شخص ہے کہ جس نے صدقہ کیا پھر اسے چھپایا یہاں تک کہ اس کے سیدھے ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ الٹے ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔
اس حدیث کے الفاظ میں قلب ہے کیونکہ اصل الفاظ یہ تھے حَتّٰی لاَ تَعْلَمَ شِمَالُہ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہ، یہاں تک کہ اس کے الٹے ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ سیدھے ہاتھ نے کیا خرچ کیاہے۔
حکم:
قلب جائز نہیں لیکن اگر بغرض امتحان کیا جائے تو جائز ہے تاکہ محدث کے حفظ کو جانچاجاسکے اور جھوٹے محدثین سے بچا جاسکے۔بشرطیکہ اسی مجلس میں درست حدیث بیان کردی جائے۔
(۴)۔۔۔۔۔۔مزید فی متّصل الاسانید:
جس حدیث کی سند بظاہر متصل ہوا سکے اثناء سند میں کسی راوی کا اضافہ کردیا جائے تو وہ حدیث مزید فی متصل الاسانید کہلاتی ہے۔
مثال:
عبد اللہ بن مبارک نے فرمایا کہ ہمیں حدیث بیان کی سفیان نے عبد الرحمن بن یزیدسے اور انہیں بسر بن عبید اللہ نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا کہ میں نے ابوادریس سے اور انہوں نے وائلہ سے اور انہوں نے ابو مرثد غنوی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :''تم قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ان کی طرف متوجہ ہوکر نماز نہ پڑھو۔''
اس حدیث کی سند میں دوجگہوں پر راویوں کا اضافہ کیا گیا ہے ایک سفیان کا اور دوسرے ابوادریس کا، یہ اضافہ راویوں کے وہم کے سبب ہواکیونکہ دیگر ثقہ راویوں کی ایک جماعت نے یہ حدیث اس اضافہ کے بغیر بیان کی ہے۔
(۵)۔۔۔۔۔۔مُضْطَرِب:
وہ حدیث جو ایسی مختلف اسانید سے مروی ہوجو قوت میں مساوی ہوں لیکن حدیث کے مفہوم میں ایسا تعارض ہوکہ تطبیق ممکن نہ ہو۔(۱)
------------------------
1۔۔۔۔۔۔حدیث مضطرب بلکہ منکر بلکہ مدرج بھی موضوع نہیں یہاں تک کہ فضائل میں مقبول ہے۔(فتاوی رضویہ۵/۴۵۰)
------------------------
مثال:
رَوَی التِّرْمِذِيُّ عَنْ شَرِیْکٍ عَنْ أَبِيْ حَمْزَۃَ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ قَیْسٍ قَالَتْ: سُئِلَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الزَّکَاۃِ فَقَالَ: اِنَّ فِی الْمَالِ لَحَقًّا سِوَی الزَّکاۃِ
مال میں زکوۃ کے علاوہ اور بھی حق ہے۔ اور ابن ماجہ نے قوت میں اسی کی مثل سند سے یہ حدیث روایت کی کہ :
لَیْسَ فِی الْمَالِ حَقٌّ سِوَی الـزَّکَاۃِ مال میں زکوۃ کے علاوہ کوئی حق نہیں۔ عراقی نے فرمایا کہ یہ ایسا اضطراب ہے کہ تاویل کی گنجائش نہیں رکھتا۔
حکم: حدیث مضطرب ضعیف ہے۔(۱)
------------------------
1۔۔۔۔۔۔حدیثِ ضعیف سے استحباب ثابت ہوتا ہے سنیت نہیں۔(فتاوی رضویہ۱/۱۹۶)
------------------------
(۶)۔۔۔۔۔۔مُصَحَّف ومُحَرَّف:
وہ حدیث جس کے کسی کلمے کو اپنی اصلی حالت سے دوسری حالت میں بدل دیا گیاہو۔
مثال:
حدیث شریف میں ہے : مَنْ صَامَ رَمَضَاَنَ وَأَ تْبَعَہ، سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ
ترجمہ:جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس سے متصل شوال کے چھ روزے رکھے۔ پڑھنے والے نے اسے یوں پڑھا:
مَنْ صَامَ رَمَضَاَنَ وَأَتْبَعَہ، شَیْأاً مِنْ شَوَّالٍ
ترجمہ: جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس سے متصل شوال کے کچھ روزے رکھے۔اس طرح اس حدیث میں تصحیف ہوگئی۔
نوٹ:
یہ تصحیف فی المتن کی مثال ہے اسی طرح تصحیف فی السند اور تصحیف فی المعنی بھی ہوتی ہے۔
---------------------------------------------------------------------------------
نصاب اصول حدیث
مع
افادات رضویۃ
پیشکش
مجلس المدینۃ العلمیۃ (دعوتِ اسلامی )
(شعبہ درسی کتب)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.