You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سُوال:
آج کل پردہ کرنے والیوں کا مُلانی کہہ کر گھر میں مذاق اُڑایا جاتا ہے، کبھی عورَتوں کی کسی تقریب میں مَدَنی بُرقع اوڑھ کر چلی جائے تو کوئی کہتی ہے، ارے ! یہ کیا اَوڑھ رکھا ہے اُتارواِس کو! کوئی بولتی ہے ، بس ہمیں معلوم ہو گیا کہ تم بَہُت پردہ دار ہو اب چھوڑو بھی یہ پردہ وَردہ ! کوئی کہتی ہے، دنیابَہُت ترقّی کر چکی ہے اور تم نے کیا یہ دَقْیا نُوسی انداز اپنا رکھا ہے! وغیرہ ۔ اِسطرح کی دل دُکھانے والی باتوں سے شَرعی پردہ کرنے والی کا دل ٹوٹ پھوٹ کر چِکناچُور ہو جاتا ہے ۔ ان حالات میں اُسے کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
واقِعی نہایت ہی نازُک حالات ہیں ،شَرعی پردہ کرنے والی اسلامی بَہن سخت آزمائش میں مبتَلا رَہتی ہے مگر ہمّت نہیں ہارنی چاہیے۔ مذاق اُڑانے یا اِعتِراض کرنے والیوں سے زور دار بحث شُروع کر دینا یا غصّے میں آ کر لڑ پڑناسخت نقصان دِہ ہے کہ اس طرح مسئلہ ( مَسْ۔ءَ۔لہ)حل ہونے کے بجائے مزیداُلَجھ سکتا ہے۔ایسے مَوقَع پر یہ یاد کر کے اپنے دل کو تسلّی دینی چاہیے کہ جب تک تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عام اِعلانِ نُبُوَّت نہیں فرمایا تھا اُس وَقت تک کُفّارِ بد انجام آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اِحتِرام کی نظر سے دیکھتے تھے اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو امین اور صادِق کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جُوں ہی علَی الْاِعلان اسلام کا ڈنکا بجانا شروع کیا وُہی کُفّار ِ بداطوار طرح طرح سے ستانے، مذاق اُڑانے اور گالیاں سنانے لگے، صِرف یہی نہیں بلکہ جان کے در پے ہو گئے، مگر قربان جائیے ! سرکارِ نامدار ، اُمّت کے غم خوار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بِالکل ہمّت نہ ہاری ،ہمیشہ صَبْر ہی سے کام لیا ۔اب اسلامی بہن صَبْرکرتے ہوئے غور کرے کہ میں جب تک فیشن ایبل اور بے پردہ تھی میرا کوئی مذاق نہیں اُڑاتا تھا، جُوں ہی میں نے شَرعی پردہ اپنایا، ستائی جانے لگی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ہے کہ مجھ سے ظُلْم پرصَبْر کرنے کی سنّت ادا ہو رہی ہے ۔مَدَنی التجاء ہے کہ کیسا ہی صَدمہ پہنچے صَبْر کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑ ئیے نیز بِلا اجازتِ شَرعی ہرگز زَبان سے کچھ مت بولئے۔ حدیثِ قُدسی میں ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے: اے ابنِ آدم ! اگرتُو اوّل صَدمے کے وَقت صَبْر کرے اور ثواب کا طالِب ہو تو میں تیرے لئے جنَّت کے سِوا کسی ثواب پر راضی نہیں
(سُنَن ابن ماجہ ج۲ص۲۶۶حدیث۱۵۹۷)
===================
آسیہ کی دردناک آزمائش
سُوال:
جس اسلامی بہن کو شرعی پردہ اور سنّتوں پر عمل وغیرہ کی وجہ سے معاشَرہ میں معاذَاللہ حقیر سمجھتے ہوں اور خاندان میں بھی ستایا جاتا ہو اُس کی ڈھارس کیلئے کوئی درد انگیز حکایت بیان کیجئے۔
جواب:
جس اسلامی بہن کو شَرعی پردہ کرنے کے باعِث گھر اور خاندان میں ستایا جاتا ہو اُس کیلئے حضرتِ سیِّدَتُنا آسِیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے واقِعات میں کافی درسِ عبرت ہے ۔چُنانچِہ حضرتِ سیِّدَتُناآسیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فِرعون کی زَوجیت میں تھیں۔جادو گروں کی مَغلوبِیَّت اور ایمان آوَری پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پر ایمان لے آئیں۔ جب فرعون کو اس کا عِلْم ہوا تو اُس نے طرح طرح سے سزائیں دینی شروع کیں کہ کسی طرح بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایمان سے مُنحرِف ( مُنْ۔حَ۔رِفْ)ہو جائیں مگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ثابِت قدم رہیں۔ آخرِ کار فرعون نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو چِلچِلاتی دھوپ میں لکڑی کے تختے پر لِٹا کر چَومَیخا(چَوْ۔مے۔خا) کر دیا یعنی دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں میں مَیخیں (لوہے کی کیلیں) ٹھونک دیں ، ظلم بالائے ظلم یہ کہ مبارَک سینے پر چکّی کے پاٹ رکھوادئیے کہ ہِل بھی نہ سکیں۔ اِس شدید ترین اور ناقابلِ برداشت تکلیف میں بھی ان کے پائے ثَبات کو ذرّہ برابر لغزِش نہ ہوئی،بَیقرار ہو کر اپنے ربِّ غفّارجَلَّ جَلاَ لُہٗ کے دربارِ گوہر بار میں عرض گُزار ہوئیں:
ترجَمۂ کنزالایمان: اے میرے ربّ! میرے لئے اپنے پاس جنّت میں گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے کام سے نَجات دے اور مجھے ظالِم لوگوں سے نَجات بخش۔ ( پ ۲۸ التَّحرِیم ۱۱)
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں : اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان(یعنی سیِّدَتُناآسِیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) پر فِرِشتے مقرَّر فرما دئیے جنہوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر سایہ کر لیا اور ان کا جنّتی گھر انہیں دکھادیا جس سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان تمام مُصیبتوں کو بھول گئیں۔ بعض روایات میں ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مَع جسم آسمان پر اُٹھا لی گئیں۔ حضرت سیِّدَتُناآسیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنّت میں ہمارے حُضُور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نِکاح میں ہوں گی۔ (نورالعرفان ص ۸۹۶) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.