You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
خداوند قدوس کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہدین اور غازیوں کا مرتبہ کتنا بلند و بالا، اور کس قدر عظمت والا ہے اس کے بارے میں تو سینکڑوں آیتوں میں خداوند قدوس نے ان مردانِ حق کی مدح و ثناء کا خطبہ ارشاد فرمایا ہے مگر سورۃوالعٰدیٰتمیں رب العزت جل جلالہ نے مجاہدین اور غازیوں کے گھوڑوں، بلکہ ان گھوڑوں کی رفتار اور ان کی اداؤں کی قسم یاد فرما کر ان کی عزت و عظمت کا اظہار فرمایا ہے۔
چنانچہ ارشاد ِ ربانی ہے کہ:
ترجمہ کنزالایمان:۔قسم ان کی جو دوڑتے ہیں سینے سے آواز نکلتی ہوئی پھر پتھروں سے آگ نکالتے ہیں سم مار کر پھر صبح ہوتے تاراج کرتے ہیں پھر اس وقت غبار اُڑاتے ہیں پھر دشمن کے بیچ لشکر میں جاتے ہیں بے شک آدمی اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔ (پ30،العدیت:1۔6)
ان گھوڑوں سے مراد ،مفسرین کا اجماع ہے کہ مجاہدین اور غازیوں کے گھوڑے مراد ہیں جو خداوند قدوس کے دربار میں اس قدر محبوب و محترم ہیں کہ قرآن مجید میں حضرت حق جل مجدہ نے ان گھوڑوں بلکہ ان کی اداؤں کی قسم یاد فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ مجھے ان گھوڑوں کی قسم ہے جو جہاد میں دوڑتے ہوئے ہانپتے ہیں اور مجھے قسم ہے ان گھوڑوں کی جو پتھروں پر اپنے نعل والے کھُر مار کر رات کی تاریکی میں چنگاری نکال دیتے ہیں اور مجھے ان گھوڑوں کی قسم ہے جو صبح سویرے کفار پر حملہ کردیتے ہیں اور مجھے قسم ہے ان گھوڑوں کی جو میدانِ جنگ میں دوڑ کر غبار اُڑاتے ہیں اور مجھے قسم ہے ان گھوڑوں کی جو کفار کے بیچ لشکر میں گھس جاتے ہیں۔ اتنی قسموں کے بعد رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہانسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے
اللہ اکبر!خداوند قدوس جن چیزوں کی قسم یاد فرمائے، ان چیزوں کی عظمتِ شان کا کیا کہنا؟ قرآن مجید میں جن جن چیزوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ مجھے ان کی قسم ہے، ان تمام چیزوں کا مرتبہ اتنا بلند و بالا اور اس قدر عظمت والا ہو گیا کہ وہ تمام چیزیں ہم مسلمانوں کے لئے بلکہ ساری کائنات کے لئے معزز و محترم ہو گئیں۔ تو پھر مجاہدین کے گھوڑوں کی عزت و عظمت اور ان کے تقدس و احترام کا کیا عالم ہو گا؟ اللہ اکبر اللہ اکبر۔
-----------------
درسِ ہدایت:۔
اس سے ہدایت کا یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوبوں کی ہر ہر چیز سے محبت فرماتا ہے اور خدا کے محبوبوں کی ہر ہر چیز قابل عزت و لائق احترام ہے۔ مجاہدین اسلام اور غازیانِ کرام چونکہ خداوند قدوس کے محبوب اور پیارے بندے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان مجاہدین کے گھوڑوں سے بھی اس قدر پیار و محبت فرماتا ہے کہ ان گھوڑوں بلکہ ان گھوڑوں کی رفتار اور میدانِ جنگ میں ان گھوڑوں کے حملوں کی قسم یاد فرما کر ان گھوڑوں کی عزت و عظمت کا اعلان فرما رہا ہے۔ سبحان اللہ، سبحان اللہ۔
جب مجاہدین کرام کے گھوڑوں کے بلند درجات کا خطبہ قرآن عظیم نے پڑھا تو اس سے معلوم ہوا کہ مجاہدین کے آلاتِ جنگ اور ان کے ہتھیاروں اور ان کی کمانوں، ان کی تلواروں کا بھی مرتبہ بہت بلند ہے اسی لئے بعض خانقاہوں میں بعض غازیوں کی تلواروں کو لوگوں نے بڑے اہتمام کے ساتھ تبرک بنا کر برسہا برس سے محفوظ رکھا ہے جو بلاشبہ باعث ِ برکت و لائق ِ عزت و احترام ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.