You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
مسلم قائدین کی سوچ حج کمیٹی، اردو اکیڈمی اور مسلم پرسنل لاء تک ہی کیوں محدود؟؟
**************
مذہب اسلام کو ’’دہشت گردی‘‘ کی گالی کب تک دی جائینگی؟
=====================================
جب کہ دیگر قوموں کو صرف اُگروادی اورنکسل وادی ہی کہاجاتاہے
----------------------------------------------------------------------
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
==================================
==================================
بھارت میں نکسلی تشدد کی شروعات 1967ء میں مغربی بنگال کے’’ نکسل باڑی‘‘ علاقے سے ہوئی جس سے اس تحریک کو’’نکسل وادی‘‘ کا نام ملا۔
اس سے منسلک لوگوں کو ماؤنواز بھی کہا جاتا ہے۔
اگرچہ اس بغاوت کو تو پولیس نے کچل دیاتھا مگر اس کے بعد کے عشروں میں مشرقی اور شمال مشرقی بھارت کے کئی حصوں میں نکسلی گروہوں کا اثر بڑھا ۔ ان میں جھارکھنڈ، مغربی بنگال، اڑیسہ، بہار، چھتیس گڑھ اور آندھرا پردیش جیسی ریاستیں شامل ہیں۔ان دہائیوں میں بھارتی سکیورٹی فورسیز اور ماؤ نواز باغیوں یا نکسلیوں کے درمیان کئی بار خوں ریز مقابلے ہوئے جن میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے۔مانا جاتا ہے کہ بھارت کے تقریبا 630 اضلاع میں سے 220میں نکسلی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔تجزیہ کار مانتے ہیں کہ نکسلیوں کی کامیابی کی وجہ ان کو مقامی سطح پر ملنے والی حمایت ہے۔
2007ء میں چھتیس گڑھ میں ہی پولیس کے ایک ناکے پر نکسلی حملے میں 55 پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔2009 میں ریاست مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتہ سے محض 250 کلومیٹر دور لال گڑھ ضلع پر نکسلیوں نے قبضہ کر لیا تھا جو کئی ماہ تک قائم رہا۔ ماؤنواز باغیوں نے لال گڑھ کو بھارت کا پہلا ’’آزاد علاقہ‘‘ قرار دیا لیکن آخر کار سکیورٹی فورسیز اس بغاوت کو دبانے میں کامیاب رہیں۔نکسلی تشدد کا ایک بڑا واقعہ سال 2010 ء میں سامنے آیا جب نکسلیوں نے چھتیس گڑھ کے گھنے جنگلات میں سکیورٹی فورسیز پر گھات لگا کر حملہ کیا جس میں 76 اہلکار مارے گئے۔ماؤنواز باغیوں کے سربراہ کشن جی کی نومبر 2011ء میں مغربی بنگال میں سیکورٹی فورسیز کے ساتھ تصادم میں موت کو ماؤ نواز باغیوں کے لیے ایک بڑا جھٹکے اور حفاظتی دستوں کے لیے ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا گیا۔وہیں مئی 2012ء میں ماؤنواز باغیوں نے چھتیس گڑھ کے’’ سکما‘‘ میں تعینات ضلع افسر ایلکس پال مینن کو اغوا کر لیا تھا۔ 13 دنوں تک چلے ڈرامائی واقعات کے بعد مینن کی مشروط رہائی ہوئی۔.سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دیگر سالوں کے مقابلے میں سال 2012ء میں نکسلی وارداتوں میں کمی آئی، چاہے وہ چھتیس گڑھ ہو، جھارکھنڈ، اڑیسہ، بہار، مہاراشٹر یا پھر آندھرا پردیش کیوں نہ ہو۔سال 2010ء میں جہاں نکسلی وارداتوں میں 1005؍افراد مارے گئے تھے،وہیں سال 2011ء میں 611؍ افراد لقمۂ اجل بنے اورسال 2012ء پر نظر ڈالیں تو ہلاک ہونے والوں کی تعداد 409؍تھی جن میں سیکورٹی فورسیز کے 113؍ جوان اور 296؍ عام شہری شامل ہیں۔
ہندوستان میں نکسل ازم کاوسیع ہوتا دائرہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستانی سیاست دانوں اور حکمرانوں میں کسی مسئلے کے حل کیلئے عزم کا فقدان ہے۔ حکمراں اور سیاست دانوں نے ہمیشہ مسئلے کوسلجھانے کے بجائے الجھانے میں زیادہ دلچسپی دکھائی ہے۔ ان کی ہر سوچ ذاتی مفادات سے عبارت ، پارٹی کے حق میں فائدہ مند اور ووٹ بینک پر قبضہ کی پالیسی پر مبنی رہی ہے۔ ان کی پالیسی غریب کو مزید غریب ، جاہل اور ان پڑھ رکھنے میں رہی۔ کیوں کہ انھیں ہمیشہ یہی خوف ستاتا رہا کہ اگر یہ لوگ لکھ پڑھ گئے تو اپنے حقوق جان جائیں گے اور پھر ان کے حق میں نعرہ لگانے والا کوئی نہیں رہے گا۔ یہی صورت حال مسلمانوں کے ساتھ بھی ہے۔مسلم سیاست داں اورمذہبی قائدین نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی کوئی اسکیم نہیں بنائی اور نہ ہی حکومت سے اس ضمن میں کوئی بات کی۔ پروجیکٹ تو دور کی بات منصوبہ تک حکومت کے سامنے پیش کرنے میں ناکام ہے۔ ان کی سوچ، حج کمیٹی، اردو اکیڈمی اور مسلم پرسنل لاء بورڈتک ہی محدود رہی۔نکسل ازم کے قلعہ کو قمع کرنے کے لئے وسیع پیمانے پرپالیسی بنانے کی ضرورت تھی جس کا فقدان نظر آتا ہے۔مگر حکومت کی ساری توجہ صرف مسلمانوں کو سزا دینے پر مرکوز ہے اس لئے نکسلیوں کے بڑے سے بڑے مجرم کو دو چار دن کے بحث مباحثہ کے بعد طاق نسیاں بنادیا جاتا ہے۔
نکسلیوں کے جو بھی دعوے اور مطالبات ہیں اس ضمن میں ہمیں لب کشائی نہیں کرنی ہے۔ہمیں تو یہ بتانا مقصود ہے کہ آج براہِ راست مذہب اسلام کو ’’دہشت گردی‘‘ کی گالی دی جارہی ہے۔کہیں کسی نام نہاد مسلمان سے کوئی غلطی ہوجائے تو فوراًاسے ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کا عنوان دے کر مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہے۔پھر وجہ کیا ہے کہ مائووادی،نکسلی اور ایل ٹی ٹی کی سرگرمیوں کو ان کے مذہب سے نہیں جوڑاجاتا ؟بڑے بڑے سادھو سنت کے آشرم میں غیر قانونی اشیاء کا انکشاف ہورہاہے پھر کیوں انھیں دھرم کی دہشت گردی نہیں کہاجارہاہے؟ایک زمانے میں سکھ قوم اس کے لیے کافی مشہور تھی مگر اسے بھی مذہب سے نہ جوڑتے ہوئے صرف ’’اُگروادی ‘‘کاٹائٹل دیاگیا۔ہندوستان کے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی بدی یا غیرقانونی کارناموں کو کبھی ان کے مذہب کی طرف منسوب نہیں کیاگیا۔یہی اصول اسلام کے ساتھ بھی اختیار کیاجانا چاہئے تھا۔اگر کوئی نام نہاد مسلم کسی سرگرمی میں ملوث بھی ہوتاتو اس لغزش کو اس ایک فرد یا کچھ افراد کی طرف منسوب کیاجاتا،یا کم از کم دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے ’’مسلم دہشت گردی‘‘کہہ لیاجاتاتاکہ اس گالی کا نشانہ صرف مسلمان بنتے ،مذہب کا تقدس پامال نہیں ہوتا۔کیا اس فرق کو ہمارے سربراہان مملکت اور ان کے وزرا اور دوسرے ارباب علم ودانش نہیں سمجھتے؟اپنے اور پرائے،مسلم اور غیر مسلم کے امتیاز کو آخر کب تک برتاجائے گا؟
کہاں تک ہم سے لوگے انتقام صبر ایوبی دکھائو گے ہمیں جنگ صلیبی کا نشاں کب تک
آخرکب تک اربابِ علم مصلحت اور حکمت کا بہانہ بناکر اپنادامن بچاتے رہینگے؟ووٹ بینک کی حفاظت کی خاطر کب تک سیاسی لیڈران مسلمانوں کی عزت،ناموس اور اقدار کے تحفظ کے متعلق آواز بلند کرنے سے پرہیز کرتے رہینگے؟اور آخر کب مسلمانوں کو سمجھ آئینگی کہ ہر اس عمل سے بچاجائے جس کے سبب ہم نہیں بلکہ اللہ ورسولﷺکا مقدس مذہب بدنام ہورہاہے؟
عطا ء الرحمن نوری( جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.