You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
منصب امامت اور اس کی عظمت (پہلی قسط)
امام الاولین والآخرین :اللہ تبار ک وتعالیٰ نے پوری کا ئنا ت کی تخلیق فرما ئی،پھر اپنی حکمت کے مطا بق در جا ت ومقا صد قا ئم فرما ے ۔قر آن وسنت کے بیان اور اپنے مشاہدات کی رو شنی میں ایک مسلمان یہ بات اچھی طر ح جا نتا ہے کہ کا ئنا ت میں پا ے جانے وا لے اٹھا رہ ہزا ر عالم اپنے درجات اور مقا صد میں ایک دوسرےسے جدا اور الگ ہیں۔چنا ں چہ یہ جملہ ہر خا ص وعام کی زبان پر وقتِ ضرورت بغیر کسی ادنیٰ تا مل کے جا ری ہو تا ہےکہ’’انسان اشرف المخلو قا ت ہے‘‘
انسا نو ں میں انبیاء ورسل علیہم السلام کا مر تبہ سب سے بلندہے پھر حضرا ت انبیا ے کرام کے فضا ئل ومنا قب بھی یکساں نہیں ،قر آن پا ک نے اس طر ف رہنما ئی کرتے ہو ے ار شا د فرمایا :’’تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ‘‘(جماعت رسل میں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی) ہما رے نبی ﷺ کو خداے تعالیٰ نے اما م الاولین والآخرین منتخب فرمایا۔اللہ تبا رک وتعالیٰ نے اپنے محبو ب کے صد قے منصب اما مت دیگر حضرا ت کو بھی عطا فرما یا۔ حضرت ابر اہیم علیہ السلام سے ار شا د فرمایاگیا:’إِنّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَاماً‘‘(میں آپ کو پیشوا بنا رہا ہوں )اس پر حضرت ابر اہیم نے ذا ت ذو الجلال سے عر ض کیا :’’وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ‘‘(اور میری اولا د سے ؟) جواب ملا : ’’لَایَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ‘‘(ظا لم میرا عہدنہیں پا سکتے )اس آیت کے تحت مفسرین کرام نے بیان فرما یا ہے :کا فر یہ منصب حا صل نہیں کر سکتا ،اس کا معنیٰ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں سے اللہ تعالیٰ جسے چا ہے منصب امامت عطا فرما دیتا ہے ۔
امام کا معنیٰ:لغت میں امام اَمَّ فعل کا مصدر ہے ،اس کامعنیٰ ’’ما یؤتم بہ ‘‘ہے (امام وہ ہو تا ہے جس کی پیر وی کی جا ے )امامت کادا ئرہ اختیا ر واقتدا ر جدا جدا ہے ،زمان ومکان کے اعتبار سے اس کی اپنی وسعتیں ہیں ہما رے نبی ﷺ امام الائمہ ہیں ،امام خوا ہ اس کا تعلق کسی بھی زمان ومکان سے کیوں نہ ہو ہما رے نبی اس کے امام ہیں ،خلیفہ رعا یا کا امام ہو تا ہے ۔حا صل کلا م یہ کہ ہر وہ انسان جو کسی کی نگر انی اور اصلا ح کر تا ہےوہ اس کا امام کہلا تا ہے ۔
اصطلا ح میں اس انسان کو امام کہا جا تا ہے جس کی اقتدا میں نماز درست ہو تی ہے ۔امامت کبریٰ کے لیے بھی اس لفظ کا استعمال کیا جا تا ہے ،اس معنیٰ کےا عتبا رسے امام خلیفۃ المسلمین ہو تا ہے ۔دینی مقتدیٰ پر بھی اس لفظ کا اطلا ق کر تے ہو ے امام الفقہا ، امام المحدثین وغیرہ بو لاجا تا ہے ۔امام مسجد بھی لو گو ں کا پیشو ا اور رہنما ہو تا ہے ، لوگ اس کی ہدایت سے اپنے دینی معا ملا ت میں نصیحت پا تے ہیں لہٰذا اسے بھی اس مبا ر ک لقب سے پکا را جا تا ہے ۔
امام کی فضیلت اوراس کا منصب:در حقیقت امام لو گو ں کو نما ز پڑ ھا تا ہے ،تعلیم دیتا ہے ،وعظ ونصیحت کر تا ہے ،امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کو مشغلہ بنا تا ہے ۔ان امو ر کی عظمت وشان میں کس عا قل کو اختلا ف ہو سکتا ہے ؟،نماز پڑھا نے سے اللہ کا فریضہ بطو ر کما ل ادا ہو تا ہے ،تعلیم سے جہا لت کے پر دے چاک ہوتے ہیں،وعظ ونصیحت سے غفلت دو ر ہوتی ہے جب غفلت دو ر ہو جا تی ہے تو انسان شر یعت پر عمل کرنے سے کترا تا نہیں ہے بلکہ اس پرخو ش طبعی کے ساتھ عمل کر تا ہے ،امربا لمعروف اورنہی عن المنکر سے اللہ ورسول جل مجدہ وﷺ کی اطا عت وفرما ں بر دا ری کا غلغلہ ہو تا ہے ،نا فرما نی دم تو ڑ تی ہے ،عزت عام ہو تی ہے اور ذلت سمٹ کر رہ جا تی ہے ،بھلائیاںبڑھتی ہیںاوربرائیاںکم ہو تی ہیں ۔
اگر آپ مذکو رہ با لانظر یہ سے منصب امامت پر غو ر فرمائیں گے تو یہ با ت بخو بی وا ضح ہو جا ے گی کہ امامت صر ف رکوع سجد ے کر ادینے کانام نہیں ہے بلکہ وہ تو ایک عظیم ذمہ دار ی،اور بہت بڑے مشن کا نام ہے۔اللہ تعالیٰ کسی دا عی حق اور حا می دین ہی کو یہ تو فیق عطا فرما تا ہے کہ وہ اس ذمہ دا ری کو کماحقہ نبھا ے اور اپنی ذمہ دا ری سے سبک دو ش ہو ۔
جن خو ش نصیبوں کو یہ تو فیق میسر آتی ہے ان کےسا منے جاہل زانوے ادب طے کر تے ہیں ،غا فل خو اب غفلت سے بیدا ر ہو تے ہیں، طالب حق ان کی رہنما ئی میں آگے کی منزلیں طے کر تاہے،ان کی توجہات سے نہ جا نے کتنے نفو س کو تر قی درجات حا صل ہو تی ہے ،ان کی تعلیما ت سے دل ستھرے ہوتے ہیں ،اخلا ق سنور تے ہیں،امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا عمو می ما حول بنتا ہے جس کی بر کت سے سنت مصطفیٰ بر گ وبا ر لاتی ہے ،بد عت اور با طل رسوما ت منہ چھپا تی ہیں ،اور لو گ ان نائبین مصطفیٰ کے ذریعہ مصطفیٰ کریمﷺ کے فیض سے با لواسطہ فیض یا ب ہوتےہیں ،سعا دتیں پاتے ہیں جیسا کہ دنیا کسی وقت امام الانبیا ء کے فیض سےبلاو ا سطہ ما لاما ل ہو تی تھی ۔اس منصب کی عظمت کے پیش نظر اللہ کے حبیب ﷺ نے ائمہ حضرات کے لیے با ر گا ہ پر و ر دگا ر میں خصو صی دعا کی۔ حدیث کے الفا ظ ہیں :’’الامام ضا من والمؤذن مؤتمن اللہم ارشد الا ئمہ واغفر المو منین ‘‘ امام ضما نتی اور موذن امانت دا ر ہے ۔ اےاللہ ! تو امامو ں کو اپنی رشد و ہدایت نصیب فرما اور مو منین کی مغفرت فرما۔
امام وجہ اتحا د:امامت کے کثیر فو ائد میں سے ایک عظیم فائدہ، قوم کا اتحا د واتفا ق اور اس کا ایک جھنڈے تلے جمع ہو نا ہے ،شر یعت مطہر ہ کا مطمح نظر یہ ہے کہ قوم اگر اپنے افر ا د کے اعتبا ر سے قلیل بھی ہو تب بھی اس کو کسی قا ئد اور امام کے ماتحت ہو نا چاہیے اس دعو ے پر کثیر دلائل قا ئم کیے جا سکتے ہیں لیکن ہم یہاں صرف ایک حد یث پیش کریں گے : حضور ﷺ نے مسلما نو ں کو اس با ت پر ابھا را ہے بلکہ انہیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ آپس میں ایک امام متعین کریں اگر چہ وہ تین ہی افرا د ہوں ۔
آپ ﷺ فرما تے ہیں :’’اذا کا نو ا ثلا ثۃ فلیؤ مھم احد ھم واحقھم با لاما مۃ اقر ئھم ‘‘ ترجمہ: جب مسلمان تین ہو ں تو ان میں سے ایک ان کی اما مت کر ے اوران میں زیا دہ پڑھا لکھا اما مت کے زیادہ لا ئق ہے ،جب تین مسلما نو ں سے مطا لبہ ہے کہ ان میں ایک اما م ہو۔لہذا جب مسلمان کثیر تعدا د میں ہو ں گے اس وقت اس مطالبہ میں کتنی شد ت ہوگی ۔اہل نظر اس کو اچھی طر ح جانتے ہیں ۔
حضور اکرم ﷺ کے اس فرمان( تین لو گو ں میں سےایک کوامام متعین کرنا ) سے عبا ر ۃ النص کے طو ر پر اسلام کا مز اج اور اس کے محا سن کو بخو بی سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلام کیسا مذہب مہذ ب ہے کہ وہ اپنے تین افرا د کو بھی متفر ق ،منتشر اور بکھرا ہو ا دیکھنا پسند نہیں کر تا بلکہ ا نہیں حکم دیتا ہے کہ وہ کسی امام کی اقتدا کر یں ۔
اور دلا لتہ النص کے طو ر پر حضور ﷺ کا یہ فرمان دنیا کے سا منے کتنا حسین منظر پیش کر تا ہے اور لو گو ں کے دلو ں میں اسلام اور مسلما نو ں کی کیسی عظمت بٹھا تا ہے کہ وہ منظر مسلما نو ں کے لیے کتنا دید نی اور باعث مسرت ہو تا ہے اور اعدا ے اسلام کے لیے کتنا مد ہش اور پر یشانی کا باعث ہو تا ہے کہ جب لاکھوں لاکھ کا مجمع فر د وا حد کے ذ ریعہ لگا ئی گئی اللہ اکبر کی ضر ب پر مسحو ر ہو کر رہ گیا ہے ۔امام اپنے ہا تھ بلند کر تا ہے اور دوسروں کو ہا تھ بلند کر نے کا ا شا ر ہ کر تا ہے تو پیچھے کھڑ ی ہو ئی قو م کی پو ری بھیڑ بغیر کسی اختلا ف کے اپنے ہا تھ بلند کر دیتی ہے ،پوری قوم اس کے اشارو ں پر ایسے عمل کر رہی ہے کہ جیسے کو ئی ٹر یننگ یا فتہ فو رس اپنے کمانڈر کے اشا رے پر چلتی نظر آتی ہے ۔ اور کیو ں نہ چلے آخرتو یہ عا لم کے قائد اعظم حضور اکر م ﷺ کی تربیت یا فتہ قوم ہی کے افرا د ہیں ۔
یہ حدیث چو ں کہ نما ز کی اما مت سے متعلق تھی اس لیے اس کی تشریح ہم نے اسی تنا ظر میں کر نے کی کو شش کی ہے لیکن کسی بھی عقل مند پر یہ با ت پو شید ہ نہیں ہو سکتی کہ جب نما ز کے اند ر ایک امام کا ا شا رہ اتنی بڑی اہمیت کا حا مل ہے تو نما ز کےبا ہر امام کی صدا یا امام کا اشار ہ بے معنیٰ اور بے جا ن کیسے ہوسکتا ہے ۔
امام قو م کی ضرو رت:معا شر ے میں پا ئی جا نے والے مہلک امرا ض ،خر ابیاں اور بدعنوا نیاں عمو ما جہا لت ، غفلت اور نفس پر ستی کی گو د میں پر وا ن چڑ ھتی ہیں اور اتنی زیا دہ پھو لتی پھلتی ہیں کہ یہ ایک فسا د بلا خیز بن کر پو ر ے معا شر ے کو اپنا لقمۂ تر بنا لیتی ہیں ،اس کا دا ئرئہ کا ر اتنا وسیع ہو تا ہے کہ کو ئی بھی خشک وتر اس کی گر فت سے باہر نہیں ہو تا ۔ ظاہر سی با ت ہے جب مر ض کسی صحت مند انسان کو اپنا شکا ر بنا تا ہے تو مریض اور مریض کے تیما ر دا ر کسی معا لج کا انتخا ب کر تے ہیں اور اس کے دا من طبابت میں پنا ہ حا صل کر تے ہیں پھر مر ض جتنا شد ید ہو تا ہے ،ڈا کٹر اور معا لج اتنا ہی عظیم در کا ر ہو تا ہے ۔جسما نی امر ا ض کو ایلو پیتھک ، ہومیوپیتھک وغیر ہ دواؤں کے ذر یعہ قابو میں کرنے کو شش کی جا تی ہے ۔
لیکن جب معا شر ے میں جہا لت ،غفلت ،نفس پر ستی ، مطلق العنا نیت ،بد عملی اور بد کر دا ری جیسے امر ا ض اپنا تسلط جماتےہیں ،تورو ح کے مسیحا کی حا جت پیش آتی ہے
ابن مریم ہو ا کر ے کو ئی
میر ے دکھ کی دو ا کر ے کو ئی
ایسے ما حو ل میں کو ئی دا عی ،مبلغ ،عا لم دین کمر ہمت با ند ھ کر کھڑا ہو تاہے اور جہا لت کو علم شریعت ،غفلت کو وعد وعید ،نفس پر ستی کو خدا پر ستی ، بدعملی اور بد کر دا ری کوبزر گوں کے ذریں نقو ش کے ذریعہ مٹا نے کی سعی پیہم کر تا ہے اور کر تا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی کو شش کا ثمرہ عطا فرما تا ہے اور کبھی کبھی پو را معا شرہ نو بہا ر شریعت سے معمو ر ہو جا تا ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ انسان کو ز ند گی گز ا ر نے کے لیے کھانے پینے کی ضرو رت پڑ تی ہے کھیتی کو ہرا بھرا رکھنے کے لیے دھو پ اور پا نی کی ضر ورت ہو تی ہے لیکن ایک انسان کو اس سے زیا دہ ضر ورت علم کی ہوتی ہے ۔
اسی لیے امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے ار شا د فرما یا :لو گ کھا نا اور پا نی کے مقا بلے میں علم کے زیا دہ محتا ج ہیں کیو ں کہ کھا نے پینے کی ضر ورت دن میںایک یا دو مر تبہ پڑ تی ہے جب کہ ہر سا نس پر انسان علم کا محتا ج ہو تا ہے ۔
خلا صہ یہ کہ قو م کو ہمیشہ ایک قا ئد کی ضر ورت ہے جو انہیں دین سکھاے ،خیر پر ابھا رے ،اللہ کی نعمتیں یا د دلا ے ،جنت کی ابد ی عیش و آرام کی امید بند ھا ے ،کبھی جہنم کے عذا ب کو بیان کر کے ان کے رو نگٹے کھڑ ے کر دے ،ان کی حیا ت کا وہ دھا را جو طغیا ن وعصیا ں کی طر ف رواں دو اں ہے اسے حکیما نہ اندا ز میں اللہ ورسول عز وجل وﷺ کی اطاعت وبند گی اور کا مل سپر دگی کی طر ف مو ڑ دے ،اور مسلمان اپنے لغوی واصطلا حی معنی کے اعتبا ر سے مسلما ن بن جا ے ،گر دن رکھنے والابن جاے،اللہ ورسول عزوجل وﷺ کی رضاپر سر تسلیم خم کر نے والا ہو جا ے ۔
(جاری)
منصب امامت اور اس کی عظمت (دوسری قسط)
اس مضمون میں ابھی تک آپ یہ جان چکے ہیں کہ امام ایک معلم ہے جو دین سکھاتا ہے ، نصیحت کرنے والا ہے جو راہ ِ راست پر چلانے کی انتھک کوشش کرتا ہے،ایک مصلح ہے جو ہمہ وقت اصلاح میں لگا رہتا ہے، عقلوں پر دنیا داری کے لگے ہوئے گردوغبار کو صیقل کرکے دینی رنگ بھرتا ہے، اور نفوس کا تزکیہ کرکےانکو اتنا ہموار کرتا ہے کہ اب ان میں اخلاق ِحمیدہ اور اقدارِ عظیمہ کے پودے بآسانی نشوونما پا سکتےہیں لہٰذااسکا دائرہ کار صرف اور صرف فریضئہ صلوٰۃ کی ادائگی تک محدود نہ رہا(اگرچہ یہ اسکی اہم ذمہ داری ہے ) بلکہ یہ دائرہ اپنے اندر عظیم وسعت اور بڑا پھیلاؤرکھتا ہے۔یہاںیہ سوال ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے ،کیا ہر امام یہ ذمہ داری پوری کر رہا ہے اسکا جواب انشاءاللہ آپ کو مضمون مکمل ہونے سے پہلےضرور مل جائےگا۔
اسلام نے جہاں امام مسجد کو عظمتوںاور رفعتوں کا تاج پہنایا ہے وہیں اسکے لئےکچھ ضابطے بھی مقررفرما ئےہیں جن میں سے کچھ تو شرط کی حد تک لازم ہیں کہ اگر امام میںوہ نہ پائی جائیں تو وہ بحثیت امام اسلام کو گوارا ہی نہیں ہے ۔ جیسے امام کا مسلمان،عاقل،بالغ مرد ہونا وغیرہ جنکی تفصیل فقہ کی کتابوں میں درج ہے۔اگر ہم اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث پاک کو زیر مطالعہ لائیں تو ہمیں ان خوبیوں کا بھی پتہ چلےگاجو ایک امام کے لائق تر ہیں،بلکہ وہ شان امامت ہے ۔
حضور اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں
قوم کی امامت وہ شخص کرے جس کو سب سے زیادہ قرآن کا علم ہو اگر قرآن پاک کے علم میں سب برابر ہوں توپھر وہ امامت کرےجس کو حدیث کا سب سے زیادہ علم ہو اور اگر علم حدیث میں سب برابر ہوں تو جس شخص نے سب سے پہلے ھجرت کی ہو اور اگر ھجرت میں سب برابر ہوں تو جو سب سے پہلے اسلام لایا ۔ایک روایت میں اسلام کی جگہ یہ الفاظ ہیں جو عمر میں سب سے زیادہ بڑا ہو۔( صحیح المسلم کتاب المساجدباب من احق بالامامۃ)
یہ حدیث اگرچہ اس بارے میں وارد ہوئی ہے کہ امامت کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے لیکن حضور کے اس فرمان سے ہمیں یہ ضرور معلوم ہو رہا ہے کہ اسلام کیسے شخص کی امامت کو سب سے زیادہ بہتر جانتا ہے۔
مذکورہ حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث سے استخراج کرتے ہوئے فقہائے کرام نے مسئلہ بیان فرمایا: ’’لایقدم احد فی التزاحم الابمرجح‘‘ تزاحم کی صورت میں جو شرعی ترجیح رکھےگا وہی امامت کا زیادہ حقدار ہوگا ــ ـ۔
( الدر المختار ج ۱ ص ۶۰۱)
حدیث پاک اور اس فقہی ضابطے سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام نے ایک امامت کے شرائط کے ساتھ ساتھ دیگر شرعی ترجیحات کو بھی ملحوظ رکھا ہے ۔ اے کاش قوم مسلم بھی ان ترجیحات کو ملحوظ خاطر رکھتی تو شاید قوم کی حالت موجودہ بہترسے ہوتی۔
یقیناََ ہر مسلمان اس بات کا تو متمنی رہتا ہے کہ وہ تمام محاسن جن کا ابھی اوپر ذکر ہوا امام صاحب میں بدرجۂ اتم پائے جائیں۔ لیکن ضروری نہیں کہ آپکی ہر چاہت مکمل ہوجائے اتنا ضرور ہے کہ جب انسان کسی چیز کو طلب کرتا ہے اور اسکی طلب سچی ہوتی ہے تو سب سے پہلے وہ اس راستے کا پتہ لگاتا ہے جو راستہ اسے مطلوب تک پہنچاتا ہے، پھر وہ اس راستے پر اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ چلنا شروع کرتا ہے رب کا کرم اگر شامل حال ہوتا ہے تو وہ اپنے مطلوب کو پالیتا ہے ،لیکن جب ہم اما م طلب کرتے ہیں تو اس راستے کو منتخب کرنےیا پھر اس راہ کی مسافرت کا حق ادا کرنے میں ہم غفلت کا شکار ہوتے ہیں اور ہماری چاہت نامکمل رہتی ہیں۔ہم اس غفلت کو اس کے مقام پر تفصیل سے بیان کریںگے۔ سردست ہم ائمہ کرام کی منصبی ذمہ داریوں سے متعلق کچھ گزارشات پیش کریںگے۔
جنکے رتبے ہیں سوا انکو سوا مشکل ہے: بالکل سیدھی سی بات ہے کہ انسان کو اپنی شخصیت کی تعمیراپنی ذمہ داری کے اعتبار سے کرنی پڑتی ہے ، ایک مکان بنانے والے کاری گر کو و ہ سب کچھ سیکھنا پڑتا ہے جس کی مکان بنانے میں ضرورت پیش آتی ہے صرف سیکھنے بھر سے کام نہیں چل جاتا، بلکہ میدان عمل میں اسے اپنے سیکھے ہوئے فن کے جوہر بھی دکھانا پڑتے ہیں، بلا تشبیہ و تمثیل امام نماز پڑھانے کے ساتھ ساتھ قوم اور اسکے بہتر مستقبل کی تعمیر کرتا ہے اب اس عظیم ذمہ داری سے عہدہ براں ہونے کے لئےجن اوصاف اور خوبیوں کا ہونا لازم ہے ایک امام میں وہ تمام تر خوبیاں پائی جانا اسکے منصب کا لازمی تقاضا ہے اس اجمال کی قدرے تفصیل آتی ہے۔
امام کا علم و تقوٰی : ہم جس زمانے میں جی رہے ہیں وہ زمانہ جدید عصری علوم کی برتری اور سائنسی ترقی کا دور ہے اس زمانہ میں جینے والے لوگ خصوصاََ نئ نسل کے دماغ پہلے کے لوگوں سے جدا ہیں پہلے کسی عالم کا کسی عقیدے یا مسٔلہ سے متعلق بیان قوم کی تسلی کے لئے کافی ہوتا تھا ، آج حالات بدل گئے بیان ختم ہوتے ہی نئ نسل کا ایک گروہ دلائل کا مطالبہ شروع کر دیتا ہےاور اس وقت تک مطمئن نہیں ہوتا جب تک اسکے سامنے مسئلہ سے متعلق دلائل کی کتابوں کے نام ،جلد اور صفحات کو بیان نہ کر دیا جائے۔ بصورت دیگر ان نوجوانوں میں اس عقیدے یا مسئلے سے متعلق عدم اطمنان کی لہردوڑ جاتی ہے جسے انکی باتوں یا چہرہ کے جغرافیوں سے صاف محسوس کیا جا سکتا ہے بلکہ کبھی کبھی تو بےاطمنانی کی لہریں انہیں گمراہی کے دریا میں ہمیشہ کے لئے غرق کر دیتی ہیں ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوم کاتعلق بحثیت رہبر و رہنما ایک امام کے ساتھ جتنا مضبوط و مستحکم ہے وہ نہ کسی پیر کے ساتھ ہے نہ کسی اور معظم دینی کےساتھ ، اسی طریقے سے جتنے معاملات قوم کے امام سے متعلق ہیں وہ کسی اور سے نہیں ۔ ان احوال کے پیش نظر امام کے علم و دانش کا معیار کیا ہونا چاہئے یہ بہت ہی سنجیدگی سے غور کرنے کا معاملہ ہے۔
امام کے لئےعلم کی پختگی کے ساتھ ساتھ سیرت و کردارکی شگفتگی بھی نہایت ضروری ہے کیونکہ امام جو ایک داعی مبلغ اور قائدہے اسکے سیرت و کردار کی بھی وہی سطح ہو جو عام لوگوں کی ہے ،اسکی صلاحیت،تقویٰ اور طہارت کابھی وہی حال ہو جوعام لوگوں کا ہوتا ہے تو اسکو امام بننے یا کہلانے کا کیا حق پہونچتا ہے۔اگر طبیب میں بھی وہی جراثیم موجود ہوں جو عام مریضوں میں پائے جاتے ہیں تو طبیب کا علاج کبھی کار آمد نہیں ہو سکتا ۔
لہٰذا منصب امامت کا تقاضا یہی ہے کہ امام علم و عمل کا پیکر مجسم ہو ۔
عادت و اخلاق: اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کی ذات اور مشن کی مقبولیت کا راز اپنے کلام معجز نظام میں یوں بیان فرماتا ہے ــ ـ’’ فبمارحمۃمن اللہ لنت لہم ولو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوامن حولک‘‘ ترجمہ : اے محبوب آپ اللہ کی رحمت سے لوگوں کے لئے نرم ہو گئے اور اگر آپ تند مزاج سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے۔ ( آل عمران ۱۵۹ )
ٓٓٓآ یت پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت علامہ سید سعادت علی رقم طراز ہیں۔
پیارے! اللہ تعالیٰ کے بے شمار خصوصی انعامات میں سے آپ پر یہ بھی ایک انعام ہے کہ آپ نرم مزاج ہیں اگر آپ تند مزاج اور سخت دل ہوتے تو نہ موجودہ لوگ آپ پر جان نثاری کے لئے تیار ہوتے اور نہ ہی بعد میں آنے والےآپکے پیغام کو قبول کرتے اور آپ پر جانیں قربان کرتے ، کیونکہ انسان فطرۃ حسن پسند واقع ہو اہے اور زبا ن و دل کا حسن اس کی نرمی ہے ، جو بھی چاہتا ہےکہ لوگ اس سے متاثر ہوں وہ معاشرے میں عزت و وقار کی نظر سے دیکھا جائے اس کے لئے نا گزیر ہے کہ اسکی زبان سے انگارے نہیں بلکہ پھول جھڑیںیعنی اسکی گفتگو میں اس درجہ کی نرمی ہو کہ ہر شخص اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر آمادہ ہو جائے اور اسکا قلب اتنا نرم ہو کہ کسی کی معمولی تکلیف پر بھی تڑپنے لگے اور وہ لوگوں کی مدد کرنے پر مجبور ہو ، اے پیارے محبوب علیہ الصلوٰۃوالسلام آپ کے اندر یہ خوبی آپ کی دیگر خوبیوں کی طرح پورے کمال کے ساتھ موجود ہیں ۔ اس لئے آپ محروم انسانیت لوگوں کو انسان اور انسان گر بنانے میں کامیاب ہوئے ۔ اور آپکے گرد جمع ہونے والے جس طرح آپ پر شیدا و فریفتہ ہیں اس کی نظیر کسی قائد رھبرکی تاریخ میں نہیں پائ جاتی
( یاایھاالذین امنوا ، ج ۱ ، ص ۴۳۱ )
نائبین نبی سے زیادہ اس وراثت کا مستحق اور کون ہو سکتا ہے ایک امام کویہی خوبیاںمقبولیت کا جامہ پہناتی ہیں، اسکی شخصیت و دعو ت کو مستجاب بناتی ہیں اور اسکی تقریر و تحریر میں وہ اثر پیدا کرتی ہیں کہ امام لوگوں کا محبوب نظر بننے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی ایمانی اور عملی زندگی کو بہتربنانے میں کامیاب ہوتا ہے۔
منصب امامت اور اس کی عظمت (تیسری قسط)
امام کے اوصاف:قسط سابق میں آپ نے پڑھا تھا کہ اس زمانے میں نسل کا مزاج تبدیل ہوا ہے اوروہ بغیر دلیل و حوالہ کے کوئی بات ماننے کو تیار نہیں ہوتی اس چیلنج کے پیش نظرمسجد کے امام کو کئی قسم کے علوم سے آراستہ ہونا ضروری ہے ۔ مثلاً قرآن ، حدیث، تفسیر، فقہ اور تاریخ کا معتدبہ علم اس کے ساتھ عربی زبان کی معرفت اور حالات زمانہ سے واقفیت ہونا بھی نا گزیر ہے موجودہ ابھرتے ہوئے مسائل(کرنٹ اشوز) فرقہائے باطلہ کی جانب سے کئے جانے والے اعتراضات اور ان کے بچھائے ہوئے جالوں پر مطلع ہونا بھی ایک امام کے لئے نہایت ضروری ہے تاکہ وہ معترضین کو مطمئن کر سکےاور مطمئنین کو آگے کا راستہ بھی دکھا سکے ۔
یہ معلومات اس وقت امام کے لئےبڑی فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں جب وہ جمعہ کے دن تقریر کی صورت میں لوگوں کی اصلاح کرتا ہےانہیں دینی اور دنیوی حیات کی راہیں سجھاتا ہےلوگوں کے دلوں میں اسلام کی قدریں راسخ کرتا ہے ان کے عقیدہ وعمل کی درستگی میں کوشاں ہوتا ہے۔ اگر امام مذکورہ اقدارسے تہی دامن ہوتا ہے تووہ اپنے فرض کی ادائیگی ،ذمہ داری سے سبکدوشی میں کمزور ثابت ہوتا ہےجس کا نقصان اسلام اور مسلمانوں کو بھگتنا پڑتا ہے یہ وہ خصلتیں ہیںجنہیںامام کی صفات علمیہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے ’’ فاعلم انہ لاالہ الااللہ واستغفر لذنبک و للمؤمنین ‘‘کے مطابق عملی خوبیوں پر مقدم ہوتی ہیں کیوں کہ عمل علم کے بعد ہوتا ہے ان کے ساتھ امام میں کچھ اور خوبیاں بھی درکار ہیںجنہیں صفات اخلاقیہ و عملیہ سے تعبیر کیا جاتاہے۔
ان صفات میں اخلاص عمل سب سے بنیادی خوبی ہےکہ ہر کام رضائےالہی کے لئے ہو حصول شہرت ، طلب جاہ اور دنیوی برتری کی تمنا سے اس کا دور تک کوئی ناطہ نہ ہو، وہ حضور ﷺ کا متبع کامل آپ کے اقوال و افعال پر عمل کرنے کا حریص ہو۔ اصلاح باطن، عفت زبان، غیر ت نفس ، حیاے اسلامی ، خشیت الٰہی ، جودت اخلاقی، حسن تعامل، تواضع ذاتی اور صبر آزمائی میںاسلاف کرام کی زندہ تصویر ہو خلق سے بے نیاز ہوکر خالق پر کامل بھروسہ رکھتا ہو ہمیشہ اسی کی پناہ کامتلاشی ہوہمہ وقت اس کے دل میں مسلمان بھائیوں کے لئے رحمت و رافت ، الفت و شفقت کے سوتےپھوٹتے ہوں، ان پر نصیحت ارزانی کرتا ہو، اپنی دعاؤں میںمسلمانوںکو فراموش نہ کرتاہو، اس کے حسن عمل سے یہی ظاہر ہو ’’ان ارید الاالاصلاح ما استطعت وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب‘‘
امام ایک قائد بھی ہے اس لئے اس میں صفات قیادت کا موجود ہونا بھی لازم ہےلہٰذا امام شخصیت کے اعتبار سے قوی ،دل کے اعتبار سے جری، ارادے میں پختہ ، رائے میں صائب، دور اندیش، فکر گہری محفوظ اور مضبوط ،سستی سے دور ، افکار واقوال و اعمال کو ترتیب دینے میں ماہر اورمشاورت کاعادی ہوان خوبیوں کی جانب آیت کریمہ ’’ الَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰہِ وَ یَخْشَوْنَہٗ وَلَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰہَ ط وَکَفٰی بِا للّٰہِ حَسِیْبًا‘‘ میں اشارہ موجود ہے۔
ذمہ داری کا احساس: یوں تو ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ سپرد کی گئی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی سعی کرے اور کبھی بھی اس سے غافل نہ ہو خصوصاًاس وقت جبکہ اسے اس ذمہ داری کی ادائیگی پر معاوضہ بھی مل رہا ہو۔امام تو لوگوں کے لئے نمونۂ عمل ہوتا ہے اسے اپنی ذمہ داری سے غافل ہوناکیوںکر روا ہو سکتا ہے ۔اسے اس بات کا یقین جازم ہوناچاہئےکہ اگر اس نے اپنی ذمہ داری نبھانے میں کسی قسم کی کمی کی تو اسکی پرسش اللہ تعالیٰ کے دربار میں ضرور ہوگی اتنا ضرورہے کہ ذمہ داری کا تعلق قدرت و وسعت سے ہے’’ لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا‘‘ لہٰذا امام اور مسجد کے ارکان سب پر لازم ہے کہ تقرری کے وقت غور و فکرکرکے ذمہ داری وسعت و قدرت کے اعتبار سے طے کریںتاکہ ان کو ادا کیا جا سکےجب ذمہ داری طے ہو جائیں اور ان پر حاصل ہونے والا وظیفہ بھی متعین ہو جائے تو پھر طےشدہ کاموں میں سستی یا ان کی انجام دہی سے پہلو تہی ایک غیر اسلامی عمل قرار دیا جائےگا اور ایسا کرنے والا اس امانت کو ضائع کرنے والا کہلائےگا جو اس کے سپرد کی گئی ہے بلکہ یہ قوم کےلئے برا نمونہ ثابت ہوگااگر کسی نے اس کی اقتداءکرتے ہوئے یہی بری عادتیں اپنا لیں تو اس کا وبال بھی اس کے سر آئےگا۔
دلوں پر حکومت: جب امام خلوص و للہیت کے ساتھ اپنی منصبی ذمہ داری ادا کرتا ہے تو لوگوں کے دل اس کی طرف جھکتے ہیں وہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنے لگتا ہےامام لوگوں کے اس جھکاؤ اور قلبی میلان کو اپنے لئے نہیں بلکہ دین کے لئے استعمال کرتا ہے۔ جب یہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو دین کے بڑے بڑےکام بھی بڑی آسانی کے ساتھ انجام پانے لگتے ہیں۔ مثلاًکسی غریب کی مدد کرانا، محلہ یا شہر میں کسی دینی جلسہ کا انعقاد کرنا، کسی مسجد یا مدرسے کا تعاون کرانا وغیرہ۔ ہمارے بعض ائمہ حضرات کسی دینی ادارےکے تعاون کا اعلان کرنے سے نہ صرف یہ کہ گھبراتے ہیں بلکہ وہ اپنے طرز عمل سے یہ ظاہر کرتے ہیںکہ انہیں یہ فعل سخت نا پسند ہے اور اس وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ خود بھی کسی ایسےادارے کے پروردہ ہیں جسکا انتظام ایسے ہی چلتا تھا جس کی بدولت ہی آج انہیں یہ عزت و عظمت اور سطوت وشوکت حاصل ہےکہ اگر وہ اپنے لب کھول دیں تو کسی غریب کے لئے نان شبینہ کا انتظام ہوگاـ،اللہ کے گھر کا کام ہوگا،کسی دینی ادارے کا بھلا ہوگا۔میں فراڈیوں کی سفارش نہیں مستحقین کی بات کر رہا ہوں۔ہر انسان کی نظر میں کچھ لوگ کچھ تنظیمیں کچھ ادارے ضرور معتبر ہوتے ہیں اور پھر پورا جہان فراڈیوں،حرام خوروں سے تونہیں بھرا ہے۔
جب اہل محلہ کے دل امام کے طرف جھکنے لگتے ہیں تو یہ وقت دعوت وتبلیغ کے لئے بہت موزوںہوتا ہے اس وقت اسے چاہئےکہ اہل محبت کے اندر مسجد میں حاضر ہونےاور با جماعت نماز کی محافظت کا جذبہ پیدا کرے۔ ان کے سامنے قرآن و حدیث کے اقتباسات اور اسلاف کے ایسے واقعات پیش کرے جس سے قوم کا اعتقاد پختہ اور عمل صالح ہو اور ہمیشہ ان کی خیر خواہی امام کا وطیرہ ہو ۔
لا یعنی چیزوں سے پرہیز:مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو عبث سے سختی کے ساتھ روکا ہے چاہے عبث از قبیل افعال ہو یا اقوال ہر قسم کا عبث ممنوع اور سخت ممنوع ہے اور اللہ تعالیٰ نے عبث سے بچنے والے بندوں کی تحسین فرمائی ہے:’’ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ، الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَا تِھِمْ خَاشِعُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِمُعْرِضُوْنَ‘‘ لہٰذا امام کا قوم کے ساتھ عبثیات (لایعنی چیزوں)میں مشغول رہنا بڑا ہی لائق مذمت عمل ہے جسے کسی بھی زاویہ فکر سے صحیح نہیں کہا جا سکتا کبھی کبھی دیکھنے اور سننےمیں آتا ہے کہ بعض ائمہ اپنے مقتدیوں کے ساتھ کھیل کود میں مشغول ہو جاتےہیںاور بعض T.V.،پرکرکٹ میچ وغیرہ بڑے شوق سے دیکھتے ہیں یہ چیزیں اگرچہ ظاہر میں برداشت کرلی جائیں لیکن انکا انجام کسی حال میں بھی محمود نہیں، اس کا سب سے بڑا نقصان تو امام کو یہ جھیلنا پڑتا ہے کہ وہ مقتدیوں کے دلوں سے اپنادینی رعب اور عالمانہ وقار کھو دیتا ہے جو حقیقت میں اس کی بہت بڑی پونجی تھی ۔ نتیجۃً اس میں ایک خاص قسم کی کمزوری پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ حق بات بولنے سے جھجھک اور خوف محسوس کرتا ہے اور اس بچکانہ حرکت کا اخروی خسران بہر حال باقی ہے: ’’ الا من رحم ربی‘‘
گفتگو کا انتخا ب :جب کو ئی انسان دو سرے سےبا ت کرےتو اسے اپنی حیثیت اور رشتہ ملحوظ خا طر رکھ کر ہی گفتگو کر نی چا ہیے مثلا ایک شاگر د اپنےاستا ذ سے با ت کر ے تو اس رشتے کا پو را پا س رکھے جو اسے اپنے استا ذ کے سا تھ حا صل ہے ۔اب اما م کو غو ر کرنا چاہیے کہ اس کا اپنے مقتد یو ں سے کیا رشتہ ہے ۔ہم پہلے بتا آے ہیں کہ امام نمازیوں کہ لئےمصلح مربی اور قائد ہے اور نماز کو کامل طور پرادا کرانے کا ذمہ دارہے وغیرہ تو اس کواسی تناظر میں اپنی گفتگو کا مر کز ومحور متعین کر نا چا ہیے ،امام مقتدی کانہ تو چا رٹیٹ اکا ؤنٹینٹ ہے کہ ان کے سا تھ بیٹھ کر اکا ؤنٹ کی باتیں کر یں ،نہ کسی مقدمے کا ایڈو کیٹ ہے کہ آئین ہند کی با تیں کرے نہ ان کے گا ؤں کا پر دھا ن نہ علا قہ کا ایم، ایل ،اے یا ایم پی ،کہ اس لیول کی سیا سی باتیں کر ے وغیر ہ وغیر ہ ۔
آپ بیتی :ایک مر تبہ راقم اپنے ایک مقتدی کے گھر کسی خا ص غر ض کے تحت حا ضر ہوا میر ے سا تھ میر ےایک دو ست بھی تھے صاحب خانہ نے ہمارا خیر مقد م کیا علیک سلیک کے بعد خیر یت کا تبا دلہ ہو ا ۔چاے نوشی کا دو ر جاری تھا کہ میں نے ایک غیر ضرو ری بلکہ غیر مناسب سوال صاحب خا نہ سے کر لیا اس سوال کو میںاس وقت غیر مناسب نہیں سمجھتا تھا سوال سن کر میرے رفیق نےآنکھوں ہی آنکھوں میں مجھ پر یہ واضح کر دیا کہ وہ میر ی اس حر کت سے راضی نہیں ہیں صاحب خا نہ نے بطیب خاطر میرے سوال کا جوا ب دیا میں نے صرف سما عت پر اکتفا کیا دو ست کی ناپسند یدگی کی وجہ سے میں صا حب خا نہ کو مزید پر یشان کر نےسے با زرہا محفل ختم ہو ئی اور ہم سلام ودا ع کر کے اپنے کمرے کی طر ف چلے اور ہم دو نو ں میں مبا حثہ شر وع ہو نے میں اتناوقت با قی تھا جتنا وقت را ستہ طے کر نے میں لگ رہا تھا خیر جلد را ستہ طے ہو ااور مبا حثہ شروع ۔ میں اپنا سوال بھی قارئین کو بتا تا چلوں میرا سوال تھا کہ ڈا کٹر صا حب آپ نے اپنے کلینک کے لیے فلاں آپر یشن کی مشین کتنے رو پیے میں خرید ی میں نے اپنے دو ست سے پو چھا بھا ئی میر ے سوال سے آپ اتنا خفا کیوں ہوے انہوں نے کہا کہ آپ نے غیر منا سب سوال ڈاکٹرصا حب سےکیا تھا آپ کو ہر گز یہ زیب نہیں دیتا کہ اس قسم کا سوال آپ کسی سےکریں ۔میں نے اپنی حما یت میں دلیل دیتے ہو ے کہا میرا سوال با لکل غیر مناسب نہیں تھا کیوں کہ میرے ڈاکٹر صا حب سے تعلقا ت اس نو عیت کے ہیں اور میری ان سےایسی بے تکلفی ہےجیسا کہ آپ نے ان کے جواب سے محسوس کر لیا ہوگا۔ انہوں نے کہا بے شک آپ صحیح کہہ رہے ہیں آپ کے تعلقا ت کی نو عیت بہت خوب ہے لیکن میرے عزیز !آپ اس بات پر غور کریں کہ وہ آپ سے محبت کس لیے کر تے ہیں ،اسی لیے نا کہ آپ ان کے امام اور ان کے دینی پیشوا ہیں تو پھر آپ کو اپنی حیثیت نہیں بھو لنا چاہیے۔
انہوںنے مزید کہا: آپ جب بھی کسی سے ملیں تو سلام کے بعد اس کی خیریت معلو م کریں اور اگر سب کچھ بہتر چل رہا ہو تو انہیں شکر کی وصیت کریں کچھ پریشانی سا منے آے تو اسے اس کا دینی حل بتا ئیں اور اہل خانہ کے لیے دعاکرتے ہوے واپس آجا ئیں اس کی آمد کیا ہے، خرچ کیا ہے اس سے آپ کو کیا سرو کا ر ۔ان کی یہ سنجید ہ گفتگو اتنی مو ثر باوقا ر اور با وزن تھی کہ میں نے اپنا مو قف تبد یل کر لیا اس دن سے آج تک اسےگا نٹھ با ندھ کر اپنے دل میں محفو ظ کر لیا ہے ۔ہو سکتا ہے کہ بعض حضرا ت کو اس با ت پر اصرا ر ہو کہ نہیں میرا پہلا مو قف ہی درست اور صحیح تھا تو مجھے ان سے کو ئی بحث بھی نہیں کر نا ہے ہر ایک کو ایسے معاملات میں اپنا خا ص طر زعمل اختیارکر نے کی پو ری آزدی حاصل ہوتی ہے ۔
خواہش نفس کی مخالفت :امام آخر ایک انسا ن ہے اور اس کے سینے میں بھی جذ با ت سے معمو ر دھڑکتاہو ادل ہے لہٰذا اس کا دل بھی ان تما م چیز و ں کو پسند کر تا ہے جس میں عا م لو گو ں کو لطف محسو س ہو تا ہے ۔مثلا ہو ٹلو ں میں بیٹھ کر کھا نا پینا وغیر ہ۔
مگر چو ں کہ امام قوم کا قا ئد ورہنما او ر نمو نہ ہے اسے وہ تما م تر باتیں بھی چھو ڑ نا پڑیں گی جو اگر چہ فی نفسہ جا ئز ہو ں مگر مر وت کے خلاف ہو ں یا ان چیزو ں کا انجام کسی غلط فہمی کا پیش خیمہ ہو۔اس کی طر ف اشا ر ہ کر تے ہو ےبزرگوں نےار شا د فرمایا : ’’ اتقوا مواضع التھم‘‘ تہمت کی جگہوں سے بچو۔(یہ قول بطور حدیث بیان کیا جاتا ہےلیکن تحقیق یہ ہے کہ حدیث نہیںالبتہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ایک قول میں یہ مفہوم ضرور موجود ہے) لہٰذا امام اپنے کھا نے پینے کے انداز کھانے پینے کے مقا ما ت کا پو را خیا ل رکھے اسی طر یقے سے اس کے اٹھنے بیٹھنے کا انداز اور اٹھنے بیٹھنے کے مقا ما ت بھی بدگما نی کی سطح سے اعلیٰ ہو نا چاہیے بلکہ حضور ﷺ کے فرمان’’ ویسعک بیتک ‘‘ (تمہا را گھر تمہیں کا فی ہو ) کے تحت اس کی قیام گا ہ ہی اس کے لیے بہترٹھکا نہ ہے ہاں دینی ودنیوی ضرورتوں سے اسے فرا ر نہیں لہٰذا اسے ضرورت بھر ہی اپنے آپ کو لوگوں کے سا تھ مشغو ل رکھنا چاہیے ۔ 1
منصب امامت اور اس کی عظمت (چوتھی قسط)
لالچ سے دوری: Whatsapp پر ایک پوسٹ پڑھی ، بڑی معنیٰ خیز ہے ہر صاحب دل کے لئے اپنے اندر پرزومہمیز کی قوت رکھتی ہے مناسب لگتاہے کہ ذکر کروں۔
ایک روز خلیفہ ہارون رشید نے لوگوں سے کہا اگر تم نیک بننا چاہتے ہو تو بچوں جیسی عادت اپنالو، لوگوں نے کہا وہ کیسے؟ خلیفہ نے جواب دیا: بچوں میں سات عادتیں ہوتی ہیں اگر یہ عادتیں بڑوں میں پیدا ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ولی بن جائیںگے۔
(۱) رزق کا غم نہیں کرتے۔
(۲) اکٹھے ملکر کھاتے ہیں۔
(۳) لڑتے جھگڑتے ہیں تو دلوں میں کینہ، حسداور جلن نہیں رکھتے
(۴) لڑنے کے بعد جلد صلح کر لیتے ہیں۔
(۵) اپنے بڑوں سے ڈرتے ہیں۔
(۶) ذرا سی دھمکی سے رونے لگتے ہیں۔
(۷) دشمنی کا جامہ مستقل نہیں پہنتے۔
اس پوسٹ کی نقل اور تصحیح نقل سے پرے ہٹ کر اگر صرف اس کے الفاظ و معنیٰ پر غور کیا جائےتو کسی بھی سنجیدہ مزاج انسان کو یہ کہنے میں دیر نہیں لگے گی کہ واقعی اس پوسٹ کا ہر ہر جملہ حکمت،موعظت اور عبرت سے بھر پور ہے۔ اس میں دین داری ، کردار سازی، اخلاقی برتری، سماجی ہم آہنگی اور قربت الٰہی کے بیش بہا خزینے موجود ہیں اور یہی اقرار میرے دعوے (پوسٹ ہر صاحب دل کے لئے پر زور مہمیز کی قوت رکھتی ) کی سچی تصدیق ہے، پھر بقول خلیفہ ہارون رشید انہیں اپنا کر بڑی عمر والے لوگ اگر ولی بن سکتے ہیںتوخلیفہ ہارون رشید سےدو قدم آگے بڑھ کر بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نسخے پر عمل پیرا ہونے والے امام کے منصب ولایت اور اس کی رفعت کا کیا کہنا۔ یقیناً وہ ان اولیاء کا ولایت میں بھی امام ہوگا۔
اس وقت ہم قول نمبر ایک پر کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ زندگی ہے تو ضروریات زندگی اور لوازمات زندگی سے فرار ممکن نہیں۔ پیٹ ہے تو اسے بھرنا ہی پڑےگا،بچے ہیں توان کی پرورش کرنا ہی پڑےگی۔ اپنے بچوں کو غیروں کے گھر چھوڑا نہیں جا سکتا، مگر ان سب کے باوجود بھی قول نمبر ایک کی اہمیت اپنی جگہ باقی اور اہل نظر کے نزدیک مسلم ہے جن اولیائے کرام اور صوفیان عظام نے توکل، استغناء،بے غرضی، خلق سے دوری، لالچ سے بےتعلقی وغیرہ امور کی خصوصی تعلیم دی ہے وہ بھی اپنا پیٹ بھر تےبچوں کی پرورش کرتے تھے ، ایسا بھی نہیں کہ وہ اپنی کرامات کے ذریعہ ہی لوازمات زندگی بہم پہنچاتے تھےبایں ہمہ ان کی ذوات توکل،ایثار،اخلاص اور استغناءکے اعلیٰ معیار پر قائم تھیں۔ لالچ کا ان کی زندگی کے کسی گوشہ میں گزر نہ تھا اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انتظام معاش اور حرص دو الگ الگ چیزیں ہیں بغیر لالچ رکھے ہوئے بھی اپنی غذا کا انتظام اور پرورش عیال کا فریضہ انجام دیا جا سکتاہے جیسا کہ ہمارے نبی ﷺ کی زندگی اس کی بہترین مثال ہے آپنے نہ لالچ کو اپنے قریب آنے دیا نہ اپنی امت کے لئے اس کوجائز رکھا اور نہ ہی کسی فرد بشر کو ترک تعلقات اور رھبانیت (اہل و عیال و فکر معاش سے بے پرواہ ہوکراپنے آپ کو گوشۂ تنہائی میں گم کردینا )کی اجازت بخشی بلکہ اس کی اجازت طلب کرنے والوں سے فرمایا: میں سب لوگوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتاہوں لیکن اس کے باوجود روزے بھی رکھتا ہوں، افطار بھی کرتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں، سوتا بھی ہوں اور نکاح بھی کرتاہوںجس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ میرے طریقے پر نہیں۔(بخاری شریف، حدیث:۵۰۶۳)
حرص (لالچ) کیا ہے؟: حرص کسی چیز کی شدت طلب کا نام ہے۔ ظاہر ہے شئی محمود کی شدت طلب مذموم نہیں ہو سکتی۔ پھر اسلام میں حرص اور حریص کی مذمت کیوں بیان کی گئی اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام میں اس حریص کی مذمت کی ہے جو یا تو شئی مذموم کا طالب ہے یا پھر اس کا طریقۂ طلب نہ درست ہے جو طریقہ اسلام میں روا نہیں ہے ورنہ علم کی طلب میں لالچ نیکیاں کرنے میں حرص مذموم نہیں محمود ہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ لالچ صرف مال ہی میں نہیں ہوتا بلکہ جاہ و منصب کی طلب بے جابھی حرص کی بدترین قسم ہے۔
ترمذی شریف میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا: اگر دو بھوکے بھیڑئے بکریوں کے گلے پر چھوڑ دئے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا نقصان دین کو مال و جاہ کے حریص سے ہوتا ہے۔
حضور اکرم ﷺ کے فرمان کی روشنی میں اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو انسان جاہ و مال کا حریص ہو وہ دین کے لئے کس حد تک خطرناک ثابت ہو سکتاہے۔
دور حاضر میں اس خطرے کو سر کی آنکھوں سے دیکھا جا سکتاہے ۔
اگردقت نظر سے غور کیا جائے تو یہ کہا جا سکتاہے کہ لالچ خلوص کا مقابل ہے اور خلوص کا تعلق دل سے ہے۔ رہا دل تو نہ اسے پھاڑ کر دیکھا جا سکتا ہے اور نہ دکھایا جا سکتاہے اب کونسا کام انسان لالچ کے ساتھ کر رہا ہے اور کس کام کو خلوص دل کے ساتھ یہ بڑی حد تک پوشیدہ ہے مگر پوشیدہ صرف انسانوں سے ہو سکتا ہے خالق عالم سے نہیں اور نہ ان عظمت والی ہستیوں سے پوشیدہ ہو سکتاہے جن کو اللہ تعالیٰ نے دانائے غیوب و خفاء بنایا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک لا انکار حقیقت ہے کہ بعض چیزیں دوسری بعض چیزوں کے لئے علامت، نشان اور دلیل ہوا کرتی ہیں ان علامات کے پائے جانے کے وقت حکم لگایا جاتا ہیں: ایمان تصدیق قلبی کا نام ہے لیکن ماتھے پر ٹیکہ لگانے والے کلمہ گو پر فقہائے کرام کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں اور وہ اس کلمہ گو کے ٹیکے کو دلیل انکار بناتے ہیںکلمہ گو کا یہ کہنا کہ ایمان تصدیق قلبی کا نام ہے ۔اسے فقہائے کرام کے فتوئے کفر سے نہیں بچا سکتا۔
کسی بھی مومن سے متعلق سوئے ظن رکھنا ایمانی شان کے خلاف توہے مومنوں کے امام اور منصب امامت کے پاسوان سے متعلق اتنی بڑی جسارت کون کر سکتا ہے لیکن کبھی کبھی حالات ایسے موڑ پر لاکر کھڑا کر دیتے ہیں کہ جہاں حسن ظن پر قائم رہ پانا بڑا دشوار مرحلہ بن جاتا ہے کیوںکہ حقائق کا انکار بھی تواہل حق کا شیبہ نہیں ہم چند مثالیں نظر قارئین کر رہے ہیں۔
بعض جگہوں پر جب منصب امامت کمیٹی کی طرف سے حضرت امام صاحب کو تفویض کیا جاتا ہے تو کچھ شرائط امام صاحب کے سامنے رکھے جاتے ہیں جیسے:(۱) آپ کو نماز جنازہ پڑھانا پڑےگی چاہے مرنے والا سنی ہو یا وہابی۔
(۲) محلہ میں جو بھی نکاح ہوگا وہ آپ کو پڑھانا پڑےگا عام ازیں کہ عاقدین سنی ہوں یا وہابی۔
(۳) آپ کو ہر فاتحہ میں ایصال ثواب کرنا پڑےگا چاہے صورت یہیں کیوں نہ ٹھہرےکہ وہابی مرد ےکی عاقبت نا اندیش سنی رشتے دار اس کے لئے ایصال ثواب کراکے امام صاحب سے اسےجبراً جنتی بنوانے کی کوشش کریں۔
(۴) آپ مسجد میں اختلافی تقریر نہیں کریںگے، وہابیوں کی برائی نہیں کریںگےوغیرہ، ایسی صورتیں گو کم ہی ہیں مگر ہیں۔ ان کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور اگر کوئی صاحب اسی پر بضد ہوں کہ یہ مثالیں مفقودو ناپید ہیں تو (بر سبیل تنزل) یہ بتایا جائےکہ ان ائمہ کے بارے میں کیا کہا جائےگا جنہوںنے گرچہ ایسے شرائط نامے پر دستخط تو نہیں کئے ہیں مگر ان کی عملی زندگی ایسے فرد کی زندگی سے جدا بھی نہیں ہے جو کسی ایسی قراردار کے تحت زندگی گزارتا ہے جس پر وہ اپنی رضامندی کے دستخط ثبت کر چکا ہے۔
نکاح پڑھانا یقیناً سنت محبوب خدا ﷺ کو انجام دینا ہے، عمل خیر ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جو بھی آپ کو نکاح کے نام پر دعوت دے آپ دوڑیں چلے جائیں خصوصاً اس دور میں جب وہابیت کا رجحان لوگوں میں بڑھ رہا ہے سنی بھی وہابیوں، دیوبندیوں سے مناکحت انجام دے رہیں ہیں اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ہمارے بعض ائمہ اس فعل بد کے مرتکب ہیں وہ نکاح خوانی کے نذرانوں کوشیر مادر کی طرح تلاش کرتے پھرتے ہیں، وہ ناکح اور ناکح کے سرپرستوں سے متعلق کوئی معلومات حاصل کرنا اپنا فرض منصبی تصور نہیں کرتے ، بلکہ انہیں ان سے متعلق جو یقینی معلومات حاصل ہیں وہ بھی انکی دنیا داری اور مخصوص طریقۂ کار کی وجہ سے انہیں شریعت کو بازیچہ ٔ اطفال بتانے سے نہیں روکتیں، ان کے لئے منزلیں سمٹ جاتی ہیں، محلہ سے دوسرے محلوں کا سفر بھی ان کی خاطر پر گراں نہیں ہوتا وہ یہ پتہ لگانے کی کوشش بھی نہیں کرتے وہ جس محلہ میں نکاح پڑھانے جا رہے ہیںآخر وہاں کا سنی امام اس نکاح کو کیوں نہیں پڑھا رہا ہے اور اگر کوئی خدا ترس بھولا سنی ان سے سوال کرتاہے تو اپنے علمی رعب کے ذریعہ پھسپھسی تاویلیں کرکے اس کی زبان پر تالا لگا دیتے ہیں مگر یاد رہے یہ زبان کب تک بند کروائی جا سکتی ہے۔ لوگوں کو سوال کرنے سے روکا جا سکتاہے فرشتوں کو نہیں۔
وہ دنیا تھی جہاں تم روک دیتے تھے زباں میری
یہ محشر ہے یہاں سننا پڑےگی داستاں میری
یہی حال رد وہابیت کا بھی ہے ہمارے بعض کرم فرما نعرہ تو مسلک اعلیٰ حضرت زندہ باد کا لگاتے ہیں مگر جو اعلیٰ حضرت کاطرہ امتیاز ہے (رد وہابیت) اسے ہاتھ تک نہیں لگاتے۔ میں اس سے بھی انکارنہیں کرتا کہ دعوت و تبلیغ کا اپنا انداز ہوتاہے اس کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں بہت سے مقامات کی اپنی نزاکتیں ہوتی ہیں کچھ حالات کے مطالبات ہوتے ہیں جن سے جوجھنے والا ہی انہیں اچھے طریقے سے جانتا پہچانتا ہے ۔ لیکن میں ہرگز یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوں کہ آپکی حکمتیں پوری عمر آپ پر حاوی رہیں اور کبھی بھی آپ کلمۂ حق بلند کرنے کی جسارت نہ کر سکے اور چلئے آپ کی نظر میں حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ آپ بر سر منبراعلاء کلمۃ الحق نہ کر سکے تو آپکی نجی اور ذاتی محفلوں میں بھی کوئی تلوار لئے آپ کے سر پر کھڑا تھا ذاتی محفلوں میں انفرادی طور پر اپنے مداحوں کو بزم میں تو حق کو بہ بانگ دھل بیان کرتے یا کم سےکم حق کا نعرہ بلند کرنے والوں کی تائید و توثیق کر دیتے ۔ لیکن ایسے حضرات اپنےمداحوں کے درمیان یا تو رد وہابیہ کرنے والوں پرطنز کستے ہیں یاطنز کسنے والوں کو بہ رضا و رغبت خاموش زبان سے سن لیتے ہیں۔
نائبین نبیﷺ کو یہ باتیں زیب نہیں دیتی، ان کی شان لالچ سے دور رہ کر مصلحت و حکمت کا استعمال کرتے ہوئے حق کا اعلان کرنا ہے خواہ اس کے لئے انہیں کوئی قربانی پیش کرنا پڑے ۔ رزاق حقیقی اللہ تبارک و تعالیٰ ہے وہ ضرور کوئی بہتر سبیل پیدا فرمائےگا اس کا اعلان ہے۔
وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّاعَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا وَیَعْلَمُ
مُسْتَقَرَّھَا وَمُسْتَوْدَعَھَا کُلّ’‘ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ ۔
جاری۔۔۔۔۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.