You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
کائنات کے سب سے عظیم انقلاب ’’آمد سرکار صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کیلئے صدیوں کا سفر شوق
غلام مصطفی رضوی، نوری مشن مالیگاؤں
[email protected]
شاہ یمن ملک تبع حمیری نے ارض مقدس حجاز کی طرف لشکر کشی کی۔ حجاز کی شام گل فام ابھی آخری پیغمبر کے دیدارسے محروم تھی۔ شاہ یمن نے ملک گیری کی ہوس میں خانۂ کعبہ کا محاصرہ کیا۔ اسے فتح کی امید تھی لیکن شانِ قدرت کے وہ اپنے عزم میں نامراد رہا اور فتح کا منتظر، اہل دانش نے اسے سمجھایا کہ یہ خانۂ خدا ہے باز آ۔ آخر وہ تائب ہو کر سوئے طیبہ(قدیم نام یثرب) چل دیا۔ ساتھ اس کا لشکر جرار تھا۔ فصیلِ شہر کے قریب اس نے ڈیرہ ڈالا۔ آس و امید لگائے تاک میں رہا، لیکن تمام تدبیریں ناکام ہوئیں، وہ الجھنوں میں پریشاں تھا کہ مہینوں بیت گئے، نہ رسد کا انتظام نہ فتح کا پیغام۔ اس نے سوچاکہ کیا کیاجائے۔ حیرت و استعجاب میں غرق تھا کہ اس کی نگاہ کھجور کی گٹھلیوں کے ڈھیر پر پڑی، اس کے دریافت پر اہل لشکر نے کہا کہ روزانہ مدینہ کی فصیل سے کھجوروں کے تھیلے ہماری جانب اُچھال دیے جاتے ہیں، انھیں اہلِ لشکر کھا لیتے ہیں۔شاہ یمن متحیر ہوا۔ اسے اہلِ مدینہ کے اعلیٰ اخلاق نے متاثر کیا کہ یہ لوگ حالت جنگ میں بھی دشمنوں سے ایسی مروت کر رہے ہیں۔ اس نے اپنے مصاحبین کو اکابرِ طیبہ سے رابطے کا حکم دیا۔ جب یہ بات علما و احبارِ مدینہ تک پہنچی تو انھوں نے کہا:
’’ہم دور دراز سے یہاں آکر آباد ہوئے۔ کسی کا تعلق خیبر و شام سے ہے، کسی کا مصر سے، لیکن ہم یہودی ہیں۔ ہم نے تورات و زبور جیسی الہامی کتابوں میں یہ پڑھا کہ یہاں(مدینہ میں) نبی آخرالزماں (ﷺ) آنے والے ہیں اور ہم یہاں رہ کر انھیں کا انتظار کر رہے ہیں۔ہماری کتب سماوی کے مطابق پیغمبر شفیق و انیس، حلیم و کریم اور مہمان نواز ہوں گے اس لیے ہم بھی خود کو ان جیسی صفات سے متصف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
تبع حمیری ان باتوں سے متاثر ہوا کہ پیغمبر آخرالزماں ابھی تشریف نہیں لائے لیکن ان کے اوصاف پر ان لوگوں نے عمل شروع کر دیا۔ ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا، وہ رونے لگا، دل کی دنیا میں انقلاب آیا، عالم شوق میں کہنے لگا: ’’کاش وہ اس نبی کریم کے دور مسعود میں ہوتا، ان پر ایمان لاتا اور سرخ رُو ہوتا، اور جب وہ اپنی قوم کے مظالم سے تنگ آکر یہاں تشریف لاتے تو ان کا خدمت گزار ہوتا۔‘‘
اس کا شوقِ دیدار بڑھ گیا۔ اس نے اہلِ مدینہ سے شہر کے دیدار کی اجازت طلب کی، جو نبی آخرالزماں کی جاے ہجرت بننے والی تھی۔ اذن ملا، بادشاہ طیبہ کی گلیوں میں داخل ہوا، وہ اب فاتح نہیں مفتوح تھا، اس کے دل کی دنیا اَن دیکھے محبوب کی یاد سے بس چکی تھی۔ مؤرخین بتاتے ہیں کہ اس کے ساتھ اس کے لشکری بھی حضور اقدس ﷺ کی یادوں میں غرق تھے اور یہ جلوس دیوانہ وار طیبہ کی گلیوں میں بڑھتا جا رہا تھا۔یوں معلوم ہوتا تھا کہ تاریخ انسانی کا یہ پہلا جلوسِ میلاد تھا جورحمت عالم ﷺکی آمد آمد سے ایک ہزار سال پہلے منعقد ہوا تھا، دارالہجرت میں شاہ یمن دست بستہ سر جھکائے چل رہا تھا، عمائدین سلطنت بھی مؤدب تھے،
تبع حمیری نے پورے شہر کو صاف کرایا، عالی شان عمارتیں بنوائیں، اس کی تمناے دلی ہوئی کہ وہ بھی علماے یہود کے ساتھ آخری پیغمبر (ﷺ)کی آمد کا انتظار کرے، امورِ سلطنت نے اس کی یہ آس پوری نہ ہونے دی، بغاوتِ یمن کے سبب دل گرفتہ اسے لوٹ جانا پڑا۔ عالم حسرت میں اس نے ایک خط لکھ کر مہر کے ساتھ صندوق میں بند کیااور اس کی چابی شامول نامی یہودی عالم کے سپرد کی۔اسے تاکید کی : تمھیں آخری پیغمبر (ﷺ) کا زمانہ نصیب ہو تو انھیں یہ خط دے دینا، نہیں تو نسلاً بعد نسلٍ اسے منتقل کرتے رہنا تا آں کہ وہ مبارک وجود جلوہ گر ہو جائے۔
کتب سیر و تاریخ میں درج ہے کہ یہ خط شامول کی اکیسویں پست میں ’’حضرت ابوایوب انصاری‘‘ تک پہنچا۔ صبحِ امید نمودار ہوئی، خاک دانِ گیتی اس مبارک وجود سے منور ہوئی جو تمام مخلوق کے نبی ہیں، جنھیں پیکر بشریت میں نورانیت کے ساتھ جلوہ آرا کیا گیا، جنھیں علم و حکمت سے مشیت نے خود سنوارا، جنھیں غیب کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئیں، دستِ قدرت نے انھیں ایسا کامل بنایا کہ شرک کے ایوان میں زلزلہ آگیا، فضل و کمال کا وہ پیکر جب فاراں کی چوٹی سے طلوع ہوا۔ اور پھر اعلانِ نبوت فرمایا تو تیرہ دلوں نے انھیں اپنے جیسا بشر جان کر شرک کو گلے لگائے رکھااور آمادۂ ظلم ہوئے، اور ایک دن وہ آیا کہ وہ عظیم پیغمبر اپنے دارالہجرت (مدینہ منورہ) کی طرف روانہ ہوا۔
اللہ اللہ! صبحِ بہاراں نمودار ہو گئی، عالم وارفتگی میں عرب کے چاند کے طلوع کی خبریں طیبہ کے ہر کوچے میں پھیل گئیں، فضاے بسیط میں نغمگی پھیل گئی طلع البدر علینا من سنیۃالوداع ’’وداع کی گھاٹیوں سے چاند طلوع ہو گیا ہے‘‘…ع
دل و جاں وجد کناں جھک گئے بہرِ تعظیم
رحمت عالم ﷺکی اونٹنی حضرت ابوایوب انصاری کے گھر کے پاس بیٹھ گئی، اللہ اللہ! میزبانی کی سعادت کسے ملنے لگی، وہ جسے نسلاً بعد نسلٍ محبوب کا انتظار تھا، فراق کی آگ کب سے سلگ رہی تھی، اس مبارک عشق کی معراج ہونے والی تھی، عظیم مہمان نے حضرت ابوایوب انصاری کی میزبانی قبول کی،حضرت ابوایوب تبع حمیری کے خط کے امین تھے، اور وہ (اہلِ مدینہ)تو صدیوں سے نبی آخرالزماں کی آمد آمد کے منتظر تھے، یہ انصاری معمولی نہ تھے، یہ تو معین و مددگار بننے والے تھے، محبوب کے انتظار میں ان عشاق نے ہزار سال سے زاید کا عرصہ گزارا تھا،ان کے حوصلے پہاڑ سے زیادہ مضبوط تھے، جنھیں صدیاں کم زورنہ کرسکیں۔
ایک روایت کے مطابق بعثت نبوی کے بعد حضرت ابوایوب انصاری نے شاہ یمن تبع حمیری کا وہ خط ایک معتبر شخص کے ذریعہ آقاے دوجہاں ﷺکی خدمت اقدس میں روانہ کر دیا تھا، شاہ یمن نے جو خط آقاے کونین ﷺ کے نام لکھا اس کا متن کچھ یوں تھا:
’’یہ خط تبع بن وردع کی طرف سے حضرت محمد مصطفی (ﷺ) کی جانب ہے، جو حضرت عبداللہ کے بیٹے خاتم النبیین اور رسول رب العالمین ہیں، امابعد!اے محمد (ﷺ) میں آپ پر اور آپ کی کتاب پر ایمان لایا جو اللہ نے آپ پر نازل کی، آپ کے دین پر اور آپ کی سنت پر بھی ایمان لایا، آپ کے رب پر ایمان لایا جو تمام جہانوں اور تمام چیزوں کا رب اور مالک ہے۔ میں ایمان لایا آپ کے رب کی طرف سے ایمان اور اسلام کی جو فضیلتیں نازل ہوئیں، میں نے انھیں قبول کیا، اگر میں نے آپ کو پایا تو میں نے نعمت حاصل کر لی، اور اگر نہ پا سکا تو آپ میرے لیے قیامت کے دن شفاعت فرما دیجیے گا، اس لیے کہ میں آپ کی ’’اولین امت‘‘ میں سے ہوں۔ للہ اس دن مجھے فراموش نہ کیجیے گا، میں نے آپ کی اتباع آپ کی تشریف آوری اور آپ کی بعثت سے پہلے کی ہے۔ میں آپ کی ملت اور آپ کے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت پر قائم ہوں۔‘‘
یہ تاریخی خط ملاحظہ کے بعد آقاے دوجہاں ﷺ نے زبان مبارک سے فرمایا: مرحبا یا اخی الصالح ’’اے صالح بھائی!مرحبا‘‘… تبع حمیری مراد کو پہنچا۔ صالح کے مبارک الفاظ زبانِ فیض ترجمان سے کیا ادا ہوئے کہ شاہ یمن تبع حمیری کی عقبیٰ سنور گئی۔ کیسے عظیم تھے وہ جنھوں نے دس صدیوں تک اپنے محبوب کا انتظار کیا۔ سعادتوں کا سفر بھی کیسا بار آور ثابت ہوا۔ یثرب کی زمیں اس وجود مسعود سے ’’طیبہ‘‘ بنی اور نوری وجود سے ’’مدینہ منورہ‘‘ کہلائی۔ عظمتوں کی داستانِ شوق آج بھی تازہ ہے، صدیاں گزرگئیں لیکن محبتوں کی بزم آج بھی ایسے ایمان افروز عشاق کی سعادتوں کے پاکیزہ انفاس سے مشک بارہے۔ مدینہ امینہ سے نسبت و تعلق نے فراق کے لمحات گزارنے والوں کو نبی آخرالزماں کے مبارک قدموں سے فیض یاب ہونے کا لمحۂ وصل بھی عطاکیا، ان انصار کی عظمتوں کو سلام جنھوں نے محبوب رب العالمین کی آمد کا چرچا کیا، اور دنیا میں آمد کے لیے وہ دس صدی پہلے سے ہی منتظر تھے۔ صبح و مسا وہ سہانی گھڑی کے منتظر تھے کہ کب ماہِ عرب کعبے میں چمکے گا اور شرک کے غبار چھٹیں گے، ایمان کی صبح درخشاں نمودار ہوگی۔ سچ کہا امام شرف الدین بوصیری (م۶۹۴ھ)نے:
حَتّٰی اِذَا طَلَعَتْ فِیْ الْاُفْقِ عَمَّ ھُدَا
ھَاالْعَالَمِیْنَ وَاَحْیَتْ سَائِرَ الْاُمَمٖ
یہاں تک کہ جن افق کائنات پر وہ آفتاب طلوع ہوا تو اس کی ہدایت سارے جہانوں میں پھیل گئی اور اس نے بہت ساری قوموں کو ہدایت عطا کردی۔
اور شاہ احمد رضا محدث بریلوی(م۱۹۲۱ئ) نے بہت خوب کہا:
ترے دینِ پاک کی وہ ضیا کہ چمک اٹھی رہِ اصطفا
جو نہ مانے آپ سقر گیا کہیں نور ہے کہیں نار ہے
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.