You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اسلام اور عقیدۂ آخرت
محمد جاوید خان رہبؔر مصباؔحی
البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ
علی گڑھ یوپی۔
===============
اسلام اور تصور آخرت
آخرت : لغت میں لفظ آخرت کا معنی ہے بعد میں آنے والی چیز۔ شریعت کی اصطلاح میں آخرت سے مرادیہ ہے کہ یہ دنیا ایک دن فنا ہوجائے گی اور مرنے کے بعد ایک دن ہرجاندار کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ اور ان کے اعمال کے ماابق ان کا فیصلہ کیا جائے گا نیکوں کو اللہ اپنی رحمت سے جنت میں اور بدکاروں کو اپنے عدل سے جہنم میں داخل فرمائے گا اس بات پر کسی شک و شبہ کے بغیر یقین رکھنے کو عقیدہ آخرت کہتے ہیں۔
آخرت یا Next Worldاور دوبارہ زندہ ہونے Recreationکے عقیدےکے سلسلہ میں دنیا میں بہت سےاختلافات ہے، بعض لوگ اس کا سرے سے انکار کرتے ہیں جیسے دہریے ،مادّہ پرست اور بعض مشرکین اور دوسرے چند مذاہب بھی۔ اور بعض اس کے قائل ہیں ،مگر اس کے تعلق سے تفصیل میں پریشان ہے ۔ یہودیت اور عیسائیت چوں کہ اپنی اصل میں الہامی مذہب تھے اگرچہ بعد میں ان دونوں مذاہب میں مشرکین کے عقائد در آئے۔ اس لیے ان کے یہاں آخرت کا تصور ہے ۔مگر بعد میں اس مذہب کے ماننے والوں نے اپنے ایمان کے ارکان سے اس کو خارج کردیا۔ بعض مذہب جیسے ہندومت وغیرہ دوبارہ زندہ ہونے کے قائل ہیں مگر وہ آواگون یا تناسخ کے قائل ہیں۔فلسفی حضرات میں سے بعض آخرت کے قائل رہے ہیں مگر صرف حشر ِروحانی کے قائل ہیں اور لذت و الم کو جو آخرت میں طاری ہوں گے ،صرف روح پر وارد مانتے ہیں ۔ موجودہ دور میں بعض سائنس داں اس امکان کو خارج نہیں کرتے کہ یہ کائنات ختم ہو کر پھر سے نئی کائنات بن سکتی ہے۔
حق یہ کہ آخرت کے عقیدہ کی تفصیل جو قرآن کریم اور حدیث رسول ﷺ میں وارد ہے وہی صحیح اور حق ہے۔ اسی لیے ایمان بالآخرۃ اس وقت تک مکمل نہ ہوگا جب تک اسلامی عقیدہ کو اختیار نہ کیا جائے۔ مذکورہ بالا سطروں میں بیان کردہ مذاہب ایمان بالآخرۃ نہیں بن سکیں گے۔
اسلام میں روح اور جسم دونوں کے حشر پر، عذاب قبر پر،انعام قبر ، عرصۂ محشر میں حضوری، حساب پر ،میزان اعمال پر ،حوض کوثرپر ،لواءالحمد پر،مقام محمود پر،جنت اور دوزخ پر ، ان کے خلود اور شفاعت پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ ان میں اکثر کتاب اللہ سے ثابت اور بعض احادیث متواترہ سے اور بعض احادیث مشہورہ سے ثابت ہیں۔
کیاوقوعِ آخرت ممکن ہے؟آخرت توحید و رسالت کے بعد اسلام کا تیسرا بنیادی اور اہم عقیدہ ہےآخرت کے تعلق سے تمام انبیا ء کرام و مرسلین عظام کی تعلیمات ہمیشہ سے ایک ہی رہی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا ایک جائے آزمائش ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس میں آزمائش کے لیے بھیجا ہے کہ کون ایمان لاکر اچھے اعمال کرتا ہےاور کون کفر وشرک اختیار کر کے عذاب الٰہی کا مستحق ہوتا ہے ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں پیدا فرمایا اسی طرح وہ ہمیں مرنےکے بعد قیامت کے دن دوبارہ زندہ فرمائے گا اور ہم سب اس کی بارگاہ میں اپنے اعمال کے جواب دہ ہوں گے تو جس نے انبیاءکرام کی تعلیمات پر ایمان کو اپنایا ،ان کی اطاعت و فرمابرداری کی اور دینا کی زندگی میں نیک اعمال کیے وہ آخرت میں کامیاب ہوگا جس نے نا فرمانی کی وہ ناکام و نامراد ہوگا ،پس مطیع وفرماں بردار جنت اور کافر و نافرمان جہنم میں جائیں گے ۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے ۔
﴿قُلِ اللہُ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ اِلٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾(سورۃ جاثیۃ: آیت۲٦)
ترجمہ: تم فرماؤ اللہ تمہیں جِلاتا ہے پھر تم کو مارے گا پھر تم سب کو اکٹھا کرے گا قیامت کے دن جس میں کوئی شک نہیں لیکن بہت آدمی نہیں جانتے۔ (کنزالایمان)
در اصل یہ آیت ان لوگوں کے رد میں نازل کی گئی جو آخرت اور بعث بعد الموت کا انکار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہماری یہی دنیا کی زندگی ہے جس میں بعض مرتے اور بعض پیدا ہوتے ہیں ،ہمیں ہلاک نہیں کرتا ہے مگر زمانہ یعنی روز و شب کا دورہ اسی کو مؤثر اعتقاد کرتے تھے اور مَلَک الموت کا اور بحکمِ الٰہی روحیں قبض کیے جانے کا انکار کرتے تھے اور ہر ایک حادثہ کو دہر اور زمانہ کی طرف منسوب کرتے تھے۔جیسا کہ ایسر التفاسیر میں ہے۔
فقال تعالیٰ فی ردھذہ الشبھۃوبيان للحق فی المسألۃ قل اللہ يحييكم ثم يميتكم،ثميجمعكم إلی يوم القيامۃلاريب فیہ ولكن أكثرالناس لايعلمون أي قل يارسولنالھٰؤلاءالدھريين المنكرين للبعث اللہ يحييكم إذكنتم نطفاًميتۃفأحياكم،ثم يميتكم بدون اختياركم فالقادرعلی الإحياء والأماتۃ وفعلاھو يحیی ويميت لايحيل العقل أن يحیی من أحياھم ثم أماتھم وإنما لم يحیھم اليوم كماطلبتم لأنہ لافائدۃ من إحيائھم بعدأن أحياھم ثم أماتھم ھذاأولاً، وثانياًإحياؤھم لكم اليوم يتنافی مع الحكمۃالعالیۃ فی خلق ھذہ الحياۃ الدنيا والآخرۃ إذخلقواليعلموا،ثم يجازوابأعمالھم خيرھاوشرھا . ولھذاقال ثم يجمعكم أي أحياءفی يوم القيامۃللحساب والجزاءوقولہ لاريب فیہ أي لاشك فی وقوعہ ومجيئہ إذمجيئہ حتمی لقيام الحياۃ الدنياكلہاعلیہ. ولكن أكثرالناس لايعلمون ھذالأمرين۔
الأول أنھم لايفكرون ولايتعقلون، والثانی أنھم لتكذيبھم بالوحی الإلٰھی سدوافی وجوھھم طريق العلم الصحيح فھم لايعلمون، ولايعلمون حتی يؤمنوابالوحی ويسمعوہ ويتفھموہ.
انسان کی تخلیق اور بعدِ موت اس کے احیا کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ہے ۔
﴿مِنْھَا خَلَقْنَا کُمْ وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَا رَۃً اُخْرَیٰ﴾ (سورۃ طہٰ: آیت ۵۵)
ترجمہ:ہم نے زمین ہی سے تمہیں بنایا اور اسی میں تمہیں پھر لے جائیں گے اور اسی سے تمہیں دوبارہ نکالیں گے۔ (کنزالایمان)
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ محمد بن جریر الطبری (متوفی ۳۱۰ھ )نے اپنی کتاب تفسیر طبری میں لاھآ ہے۔
قولہ تعالیٰ ذكرہ: من الأرض خلقناكم أیھاالناس فأنشأناكم أجساماناطقۃ(وَفِیْھَانُعِيْدُكُمْ)يقول: وفي الأرض نعيدكم بعدمماتكم، فنصيركم ترابا،كماكنتم قبل إنشائنالكم بشراسويا ( وَمِنْھَا نُخْرِجُكُمْ ) يقول: ومن الأرض نخرجكم كما كنتم قبل مماتكم أحياء، فننشئكم منھا،كماأنشأناكم أول مرۃ.وقولہ( تَارَۃًأُخْرَی) يقول: مرّۃأخری”
قرآن کریم کے اندر آخرت قائم ہونے کے تعلق سے اتنے دلائل بیان کیے گئے ہیں کہ کوئی بھی انسان جو عقل و ہوش رکھتا ہے اس کا انکار نہیں کر سکتا ،ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے ہدایت عطا کرے ،یہ اس کی مشیت پہ موقوف ہے۔
اب ذیل میں ہم ان دلائل کا تذکرہ کریں گے جو قرآن میں وقوع آخرت کے بارے میں وارد ہوئے ہیں
اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے
﴿کَمَا بَدَاَکُمْ تَعُوۡدُوۡنَ﴾(سورۃالأعراف: آیت ۲۹)
ترجمہ: جیسے اس نے تمہارا آغاز کیا ویسے ہی پلٹو گے۔ (کنزالایمان)
یعنی جیسے اس نے تمہیں نیست سے ہست کیا ایسے ہی موت کے بعد بھی زندہ فرمائے گا،جیسا کہ تفسیر بغوی میں ہے ۔
قال ابن عباس: إن اللہ تعالیٰ بدأخلق بني آدم مؤمناوكافرا، أكماقال: ھوالذي خلقكم فمنكم كافرومنكم مؤمن (التغابن،۲)،ثم يعيدھم يوم القيامۃكما خلقھم مؤمناوكافرا.
اسی مفہوم کو قرآن نے ایک دوسرے مقام پر یوں بیان کیا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔
﴿وَ یَقُوۡلُ الْاِنۡسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا طاَوَلَا یَذْکُرُ الْاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنۡ قَبْلُ وَلَمْ یَکُ شَیْـًٔا﴾ (سورۃمریم: آیت٦٦ )
ترجمہ: اور آدمی کہتا ہے کیا جب میں مرجاؤں گا تو ضرور عنقریب جِلا کر نکالا جاؤں گا ،اور کیا آدمی کو یاد نہیں کہ ہم نے اس سے پہلے اسے بنایا اور وہ کچھ نہ تھا ۔ (کنزالایمان)
یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب اس دنیامیں انسان کا کوئی وجود نہ تھا وہ کچھ بھی نہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے اسے وجود بخشا ، دنیا میں انسان کی موجودگی اس بات کا بین ثبوت ہے ۔پس اللہ نے جس طرح سے انسان کو پیدا کیا ہےاسی طرح دوبارہ پیدا فرمائے گا ۔اللہ تو خالق کائنات ہے اس کو کسی سے نسبت ہی کیا ؟ کیا کوئی آدمی کسی انسان کے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ جب اس نے کوئی کام ایک مرتبہ کرلیا ہے تو دوبارہ اسے انجام نہیں دے سکتا ؟ آج دنیا اتنی زیادہ ترقی کرچکی ہے کہ انسان بہت سارے کام ٹکنالوجی کے ذریعہ کر رہا ہے ، آج دنیا میں جو کمپیوٹر استعمال کیے جارہے ہیں اس کے بارے میں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کےبنانے والے اسے دوبارہ نہیں بنا سکتے؟،نہیں ،ہرگز نہیں ،اگرکوئی کہے تو یہ اس کی ناعقلی اور کج فہمی ہے۔اللہ نے جسے جس حال میں جہاں چاہا پیدا کیا ، اسے کوئی روکنے والا نہیں ،جب چاہتا ہے موت دیتا ہے اور جب چاہے گا دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے گا کوئی اسے روکنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
چنا ں چہ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے۔
﴿اَوَلَمْ یَرَ الْاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنۡ نُّطْفَۃٍ فَاِذَا ھُوَ خَصِیۡمٌ مُّبِیۡنٌط وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ ؕ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَ ھِیَ رَمِیۡمٌ ط قُلْ یُحْیِیۡھَا الَّذِیِٓ اَنۡشَاَھَاۤاَوَّلَ مَرَّۃٍ ؕ وَ ھُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیۡمٌ﴾(سورۃ یٰس:آیت، ۷۷،۷۸،۷۹ )
ترجمہ: اور کیا آدمی نے نہ دیکھا کہ ہم نے اسے پانی کی بوند سے بنایا جبھی وہ صریح جھگڑالو ہے۔ اور ہمارے لئے کہاوت کہتا ہے اور اپنی پیدائش بھول گیا ، بولا ایساکون ہے کہ ہڈیوں کو زندہ کرے جب وہ بالکل گَل گئیں ۔تم فرماؤ انھیں وہ زندہ کرے گا جس نے پہلی بار انہیں بنایا اور اسے ہر پیدائش کا علم ہے ۔(کنزالایمان)
یہ آیت اُبی بن خلف کے حق میں نازل ہوئی جو انکارِ بعث یعنی مرنے کے بعد اٹھنے کے انکار میں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بحث و تکرار کرنے آیا تھا ، اس کے ہاتھ میں ایک گلی ہوئی ہڈی تھی اس کو توڑتا جاتا تھا اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کہتا جاتا تھا کہ کیا آپ کا خیال ہے کہ اس ہڈی کو گل جانے اور ریزہ ریزہ ہو جانے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ زندہ کرے گا ؟ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا ہاں اور تجھے بھی مرنے کے بعد اٹھائے گا اور جہنّم میں داخل فرمائے گا اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور اس کے جہل کا اظہار فرمایا گیا کہ گلی ہوئی ہڈی کا بکھرنے کے بعد اللہ تعالٰی کی قدرت سے زندگی قبول کرنا اپنی نادانی سے ناممکن سمجھتا ہے ، کتنا احمق ہے اپنے آپ کو نہیں دیکھتا کہ ابتدا میں ایک گندہ نطفہ تھا گلی ہوئی ہڈی سے بھی حقیر تر ، اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ نے اس میں جان ڈالی ، انسان بنایا ،تو ایسا مغرور و متکبِّر انسان ہوا کہ اس کی قدرت ہی کا منکِر ہو کر جھگڑنے آ گیا ، اتنا نہیں دیکھتا کہ جو قادرِ برحق پانی کی بوند کو قوی اور توانا انسان بنا دیتا ہے اس کی قدرت سے گلی ہوئی ہڈی کو دوبارہ زندگی بخش دینا کیا بعید ہے اور اس کو ناممکن سمجھنا کتنی کھلی ہوئی جہالت ہے ۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ اسماعیل ابن کثیر دمشقی ( متوفی ۷۷۴ھ ) نے اپنی کتاب تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے۔
قال مجاھد، وعِكرمہ، وعروۃ بن الزبير، والسُّدِّي. وقتادہ :جاء أُبي بن خلف (لعنہ اللہ) إلی رسول اللہ ﷺ وفي يدہ عظم رميم وھو یفتتہ ويذریہ في الھواء، وھويقول: يا محمد، أتزعم أن اللہ يبعث ھذا؟ فقال : “نعم، يميتك اللہ تعالیٰ ثم يبعثك،ثم يحشرك إلی النار”.ورواہ ابن ماجہ عن أبي بكربن أبي شیبۃ،عن يزيد بن ھارون، عن جَريربن عثمان،بہ. ولذاقال: ﴿وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ ؕ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَ ھِیَ رَمِیۡمٌ﴾؟أي:استبعدإعادۃ إلی اللہ تعالیٰ ذي القدرۃالعظيمۃالتي خلقت السموات والأرض-للأجسادوالعظام الرميمۃ،ونسي نفسہ ،وأن اللہ خلقہ من العدم،فعلم من نفسہ ماھوأعظم ممااستبعدہ وأنكرہ وجحدہ؛ولھذاقال تعالیٰ:﴿ قُلْ یُحْیِیۡہَا الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَھَاۤاَوَّلَ مَرَّۃٍ ؕ وَ ہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیۡمٌ﴾أي: يعلم العظام في سائرأقطارالأرض وأرجائھا،أين ذھبت،وأين تفرقت وتمزقت.
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔
﴿اَیَحْسَبُ الْاِنۡسَانُ اَنۡ یُّتْرَكَ سُدًیط اَلَمْ یَكُ نُطْفَۃً مِّنۡ مَّنِیٍّ یُّمْنٰیط ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوّٰیطفَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیۡنِ الذَّکَرَ وَالْاُنۡثٰی ط اَلَیۡسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰی اَنۡ یُّحْیِیَ الْمَوْتٰیط﴾
(سورۃ القیامۃ :آیت۳٦٬٣٧٬٣٨٬٣٩٬٤٠)
ترجمہ: یا آدمی اس گھمنڈ میں ہے کہ آزاد چھوڑ دیا جائے گا،کیا وہ ایک بوند نہ تھا اس منی کا کہ گرائی جائے۔پھر خون کی پھٹک ہوا تو اس نے پیدا فرمایا ،پھرٹھیک بنایا ،تو اس سے دو جوڑ بنائےمرد اور عورت ،کیا جس نے یہ کچھ کیا وہ مردے نہ جِلاسکے گا۔(کنزالایمان)
مذکورہ بالا آیات کے اندر انسان کو اس کی تخلیق یاد دلاکر یہ بتایا جارہا ہے کہ جس خالق کائنات نے تمہیں پانی کے ایک قطرے سےپیدا کیا اور زندگی عطا کی ،پھر کیسےتم اس پر مثالیں چسپا ں کرتے ہو؟ وہی ہے جو تمہاری ہڈیوں کو جب چاہے گا دوبارہ زندہ فرمائے گا اور میدان محشر میں جمع فرمائے گا ۔ انسان کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ آنے والی نسلوں کے جسموں کے ذرات کہاں ہیں؟ زمین ہی میں تو ہے، تو پھر کون سی ذات ہےجو ان ذرات کو جمع کرکے ہمہ وقت تخلیق کا کام انجام دے رہی ہے؟دنیا میں جتنی بھی مخلوق پائی جاتی ہے ان کی اولاد وں کو آن ِواحد میں پیدا کرنے والی ذات کون ہے؟ تو جو مخلوق دنیا سے گذر گئی ، کیا اللہ ان کے جسموں کے ذرات کو ایک ہی وقت میں جمع نہ کر سکے گا؟ وہ تو آج کے ترقی یافتہ انسان سے یہ فرما رہا ہے کہ جن finger prints کو آج کے دور جدید میں تم اپنی شناخت کے لیے استعمال کر رہے ہو ،میں ان کو بھی ویسا ہی بنا دوں گا اور ہر ایک کو اس کی پوری شناخت کے ساتھ اٹھاؤں گا ۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔
﴿اَیَحْسَبُ الْاِنۡسَانُ اَلَّنۡ نَّجْمَعَ عِظَامَہٗطبَلٰی قٰدِرِیۡنَ عَلٰی اَنۡ نُّسَوِّیَ بَنَانَہٗط﴾(سورۃ القیامۃ: آیت۳،۲)
ترجمہ: کیا آدمی ہ سمجھتا ہے کہ ہم ہر گز اس کی ہڈیا ں جمع نہ فرمائیں گے،کیوں نہیں ہم قادر ہیں کہ اس کے پور ٹھیک بنا دیں۔ (کنزالایمان)
یعنی اس کی انگلیاں جیسی تھیں بغیرفرق کے ویسی ہی کردیں اور ان کی ہڈیاں ان کے موقع پر پہنچا دیں ، جب چھوٹی چھوٹی ہڈیاں اس طرح ترتیب دے دی جائیں تو بڑی کا کیا کہنا ۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ ابو محمد الحسین البغوی ( متوفی ۵۱۶ھ) نے اپنی کتاب تفسیر بغوی میں لکھا ہے۔
يقول تعالیٰ ذكرہ : أيظنّ ابن آدم أن لن نقدرعلی جمع عظامہ بعدتفرّقھا،بلی قادرين علی أعظم من ذلك، أن نسوي بنانہ، وھی أصابع يدیہ ورجلیہ،فنجعلھاشيئاواحداكخفّ البعير،أوحافرالحمار،فكان لايأخذما يأكل إلا بفیہ كسائرالبھائم،ولكنہ فرقأصابع يدیہ يأخذبھا،ويتناول ويقبض إذاشاءويبسط،فحسن خلقہ.
وہ تو یہ فرماتا ہے کہ تمہاری طرح چند ارب انسانوں کو پیدا کرنا پھر موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنا اس کے لیے ایسے ہی ہے جیسے کسی ایک کو۔جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
﴿مَا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلَّا کَنَفْسٍ وَاحِدَۃٍط﴾(سورۃ لقمان: آیت،۲۸)
ترجمہ:تم سب کا پیدا کرنا اور قیامت میں اٹھانا ایسا ہی ہے جیسا ایک جان کا۔ (کنزالایمان)
اللہ پر کچھ دشوار نہیں اس کی قدرت یہ ہے کہ ایک کُن سے سب کو پیدا کر دے ۔ایسا ہی علامہ محمد بن جریر الطبری متوفی ۳۱۰ھ نے اپنی کتاب تفسیر طبری میں بھی لکھا ہے ۔
يقول تعالیٰ ذكرہ: ماخلقكم أیھاالناس ولابعثكم علی اللہ إلاكخلق نفس واحدۃ وبعثھا، وذلك أن اللہ لايتعذّرعلیہ شيءأرادہ ولايمتنع منہ شيءشاءہ ﴿اِنَّمَاۤاَمْرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـًٔا اَنْ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوۡنُ ﴾فسواءخلق واحد وبعثہ،وخلق الجميع وبعثھم.
اور ذیل کی آیتوں میں تو یہ بتایا جارہا ہے کہ تم اگر پتھر یا لوہا یا اس سے بھی سخت کوئی اور چیز بن جاؤ پھر بھی اللہ رب العزت اس پر قادر ہے کہ تمہیں اٹھائے ،چناں چہ ارشاد ربانی ہے۔
﴿وَ قَالُوۡۤاءَاِذَاکُنَّاعِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّالَمَبْعُوۡثُوۡنَ خَلْقًاجَدِیۡدًاطقُلۡ کُوۡنُوۡاحِجَارَۃً اَوْ حَدِیۡدًاط اَوْخَلْقًا مِّمَّا یَکْبُرُ فِیۡ صُدُوۡرِکُمْط فَسَیَقُوۡلُوۡنَ مَنۡ یُّعِیۡدُنَا ؕ قُلِ الَّذِیۡ فَطَرَکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ طفَسَیُنْغِضُوۡنَ اِلَیۡكَ رُءُوۡسَھُمْ وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ھُوَ قُلْ عَسٰی اَنۡ یَّکُوۡنَ قَرِیۡبًا طیَوْمَ یَدْعُوۡکُمْ فَتَسْتَجِیۡبُوۡنَ بِحَمْدِہٖ وَ تَظُنُّوۡنَ اِنۡ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیۡلًاط﴾(سورۃ بنی اسرائیل:آیت ٤۹،۵۰،۵۱،۵۲)
ترجمہ: اور بولے کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے کیا سچ مچ نئے بن کر اٹھیں گے ،تم فرماؤ کہ پتھر یا لوہا ہوجاؤ،یا اور کوئی مخلوق جو تمہارے خیال میں بڑی ہو تو اب کہیں گے ہمیں کون پھر پیدا کرے گا تم فرماؤ وہی جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تو اب تمہاری طرف مسخرگی سے سر ہِلا کر کہیں گے یہ کب ہے تم فرماؤ شاید نزدیک ہی ہو، جس دن وہ تمہیں بُلائے گا تو تم اس کی حمد کرتے چلے آؤ گے اور سمجھو گے کہ نہ رہے تھے مگر تھوڑا۔ (کنزالایمان)
آخرت کا انکار کر نے والوں نے بہت تعجب کے ساتھ یہ بات کہی تھی اور مر کر خاک میں مل جانے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کو بعید سمجھ لیا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیات میں ان کا رد فرمایا ۔اس تعلق سے ایک اور آیت کریمہ ذکر کی جارہی ہے جس میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ جس خدا کو تمہارا پہلی بار پیدا کرنا عاجز نہ کر سکا تو دوسری دفعہ کیوں کر پیدا نہ کر سکے گا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿اَفَعَیِیۡنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِؕ بَلْ ھُمْ فِیۡ لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِیۡدٍط﴾(سورۃ ق:آیت۱۵)
ترجمہ: تو کیا ہم پہلی بار بناکر تھک گئے بلکہ وہ نئے بننے سے شبہ میں ہیں ۔(کنزالایمان)
علامہ حافظ اسماعیل ابن کثیر دمشقی ( متوفی ۷۷۴ھ ) اپنی کتاب تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
وقولہ تعالیٰ :﴿اَفَعَیِیۡنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِ﴾أي: أفأعجزنا ابتداء الخلق حتی ھم في شك من الإعادۃ ،﴿بَلْ ھُمْ فِیۡ لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِیۡدٍ﴾والمعنی: أن ابتداءالخلق لم يعجزناوالإعادۃأسھل منہ،كماقال تعالیٰ: وَھُوَ الَّذِیۡ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ وَ ھُوَ اَھْوَنُ عَلَیۡہِ (الروم:۲۷)وقال اللہ تعالیٰ﴿ وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ ؕ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیۡمٌطقُلْ یُحْیِیۡھَا الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَھَاۤاَوَّلَ مَرَّۃٍ طوَھُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیۡمٌ ﴾( سورۃ یٰس:آیت ۸۹،۷۸)
قرآن کریم اس سلسلے میں انسان کی سمجھ کے لیے ایک اور دلیل یہ بیان کرتا ہے کہ دوسری د فعہ پیدا کرنا پہلی مرتبہ کر نے کے بنسبت زیادہ آسان ہےکیوں کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب کوئی کام پہلی بار کیا جائے تو مشکل ہوتا ہے لیکن جب ایک بار کوئی کام سیکھ لیا جائے یا اسے کر لیا جائے تو وہ کام دوسری بار یار تیسری بارکرنا زیادہ آسان ہے بنسبت پہلی بار کے۔اسی مفہوم کو قرآن کریم میں یوں بیان کیا گیا ہے ۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
﴿اَوَ لَمْ یَرَوْا کَیۡفَ یُبْدِئُ اللہُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَی اللہِ یَسِیۡرٌط﴾ (سورۃ العنکبوت :آیت۱۹)
ترجمہ: اور کیا انہوں نے نہ دیکھا اللہ کیونکر خَلق کی ابتدا فرماتا ہے پھر اسے دوبارہ بنائے گا بیشک یہ اللہ کو آسان ہے۔ (کنزالایمان)
اور یہ یعنی پہلی بار پیدا کرنا اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا اللہ کے لیے آسان ہے ۔
جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿وَ ھُوَ الَّذِیۡ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ وَ ھُوَ اَھْوَنُ عَلَیۡہِؕ﴾(سورۃ الروم :آیت ۲۷)
ترجمہ: اور وہی ہے کہ اوّل بناتا ہے پھر اسے دوبارہ بنائے گا اور یہ تمہاری سمجھ میں اس پرزیادہ آسان ہونا چاہئے۔ (کنزالایمان)
قرآن کریم اس تعلق سے ایک اور دلیل بیان کرتا ہے جس کے اندر ان لوگوں کو خطاب کیا گیا بطور عتاب جو بعث بعد الموت کے منکر تھے اور ان سے کہا گیا کہ تمہاری پیدائش زیادہ مشکل ہے یا زمین و آسمان اور ان تمام چیزوں کی جو اللہ نے پیدا کر رکھی ہے۔چناں چہ اللہ فرماتا ہے۔
﴿ءَاَنۡتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ بَنٰھَاطرَفَعَ سَمْکَھَا فَسَوّٰھَاط وَ اَغْطَشَ لَیۡلَھَا وَ اَخْرَجَ ضُحٰھَاط﴾(سورۃالنازعات:آیت ۲۷،۲۸،۲۹)
ترجمہ: کیا تمہاری سمجھ کےمطابق تمہارا بنانا مشکل یا آسمان کا ، اللہ نے اسے بنایا ، اس کی چھت اونچی کی پھر اسے ٹھیک کیا اور اس کی رات اندھیری کی اور اس کی روشنی چمکائی۔ (کنزالایمان)
یقیناًآسمان اور اس میں جو کچھ ہے ان سب کا بنانا ، زمین اور اس میں جو کچھ ہے ان سب کا بنانا زیادہ مشکل ہے بنسبت انسان کےمرنے کے بعد دوبارہ اسے بنانے کے، کیوں کہ اللہ نےآسمان کو بنایا پھر بغیر ستون کےاس کی چھت اونچی رکھی اس طرح کہ کہیں کوئی خلل نہیں ۔ ابن ابو بکر الجزائری ایسر التفاسیر میں اس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں۔
قولہ تعالیٰ﴿أأنتم أشد خلقا﴾ الآيات: سيقت ھذہ الآيات الكريمۃ لتقريرعقیدۃالبعث والجزاءبإيرادأكبردليل عقلي لايردہ العاقل ابدا وھو أن السماءفي خلقھا وماخلق اللہ فیھا، وأن الأرض في خلقھا وماخلق اللہ فیھا أشدخلقا وأقوى وأعظم من خلق الإِنسان بعدموتہ فالبشریۃ کلھا لايساوي حجمھا حجم كوكب واحدمن كواكب السماءولاسلسلۃ واحدۃمن سلاسل الجبال في الرض فضلاعن السماء والأرض . إذاًفالذي قدرعلی خلق السماء وما فیھا والأرض وما فیھا قادرقطعا و من باب أولی علی خلق الإِنسان مرۃ أخرى و قدخلقہ أولاً فإِعادۃ خلقہ بإِحيائہ بعدموتہ أيسروأسھل وأمكن من خلقہ أولاًعلی غيرمثال سبق۔
ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
﴿فَاسْتَفْتِھِمْ اَھُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمۡ مَّنْ خَلَقْنَا ؕ اِنَّا خَلَقْنٰھُمۡ مِّنۡ طِیۡنٍ لَّازِبٍ﴾ (سورۃ الصافات:آیت ۱۱)
ترجمہ: تو ان سے پوچھو کیا ان کی پیدائش زیادہ مضبوط ہے یا ہماری اور مخلوق آسمانوں اور فرشتوں وغیرہ کی بیشک ہم نے ان کو چپکتی مٹی سے بنایا (کنزالایمان)
تو جس قادرِ برحق کو آسمان و زمین جیسی عظیم مخلو ق کا پیدا کر نا کچھ بھی مشکل اور دشوار نہیں تو انسانوں کا پیدا کرنا اس پر کیا مشکل ہو سکتا ہے ۔یہ ان کے ضعف کی ایک اور شہادت ہے کہ ان کی پیدائش کا اصل مادّہ مٹی ہے جو کوئی شدّت و قوّت نہیں رکھتی اور اس میں ان پر ایک اور برہان قائم فرمائی گئی ہے کہ چپکتی مٹی ان کا مادّۂ پیدائش ہے تو اب پھر جسم کے گل جانے اور غایت یہ ہے کہ مٹی ہو جانے کہ بعد اس مٹی سے پھر دوبارہ پیدائش کو وہ کیوں ناممکن جانتے ہیں مادّہ موجود اور صانع موجود پھر دوبارہ پیدائش کیسے محال ہو سکتی ۔اس کے بعدخود قرآن کریم میں اس کا جواب دیا گیا کہ آسمان و زمین کی تخلیق انسان کی پیدائش سےکہیں زیادہ بڑا کام ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں ۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوۡنَ﴾(سورۃ المومن:آیت ۵۷ )
ترجمہ: بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش آدمیوں کی پیدائش سے بہت بڑی لیکن بہت لوگ نہیں جانتے (کنزالایمان)
یہ آیت منکِرینِ بعث کے رد میں نازل ہوئی ان پر حجّت قائم کی گئی کہ جب تم آسمان و زمین کی پیدائش پر باوجود ان کی اس عظمت اور بڑائی کے اللہ تعالیٰ کو قادر مانتے ہو تو پھر انسان کو دوبارہ پیدا کردینا اس کی قدرت سے کیوں بعید سمجھتے ہو ۔بہت لوگوں سے مراد یہاں کفّار ہیں اور ان کے انکارِبعث کا سبب ان کی بے علمی ہے کہ وہ آسمان و زمین کی پیدائش پر قادر ہونے سے بعث پر استدلال نہیں کرتے تو وہ مثل اندھے کے ہیں اور جو مخلوقات کے وجود سے خالق کی قدرت پر استدلال کرتے ہیں وہ مثل بینا کے ہیں ، ایسر التفاسیر میں ہے۔
وقولہ تعالیٰ : ﴿لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ﴾ھذا رد علی منكريالبعث والجزاء الآخر فلما قالوا أئذامتنا وكناترابا وعظاما أئنالمبعوثون.قال تعالیٰ: وعزتناوجلالنالخلق السموات والأرض ابتداءمن غيرمثال سابق ولا مادۃ قائمۃ موجودۃ أكبرمن خلق الناس مرۃ أخرى بعدخلقھم المرۃ الأولی ،ولكن أكثرالناس لايعلمون ھذہ الحقائق العلمیۃ لجھلھم وبعدھم عن العقليات لماعلیھم من طابع البداوۃ وإلافإعادۃ الشيءأھون من بدئہ عقلافليس الاختراع كالإصلاح للمخترع إذا فسد .
ایمان با لآخرۃ اور اس کے اجزاء
بعث بعد الموت : مرنے کے بعد انسان کو قبر میں دفن کیا جاتا ہے پھر وقت آنے پر تمام انسانوں کو ان کی قبروں سے نئی زندگی کے ساتھ اٹھایا جائے گا ،ان کی حواس ، فہم و فراست اور بصیرت سب کچھ ٹھیک ہوگی ان کا جسم پہلے کی طرح صحیح و سالم ہوگا، الغرض ایک بار پھر زندگی کے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا اوراس حالت میں ہر شخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوگا ۔
بعث بعد الموت اور قرآنی استدلال: ایمان بالآخرۃ کا پہلا جز بعث بعد الموت ہے بطور آخرت کے اسی اہم جز کا قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے۔
چناں چہ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے ۔
﴿یَوْمَ یَبْعَثُھُمُ اللہُ جَمِیۡعًاط فَیُنَبِّئُھُمۡ بِمَا عَمِلُوۡا﴾ (سورۃ المجادلۃ:آیت ٦)
ترجمہ: جس دن اللہ ان سب کو اٹھائے گا پھر انہیں ان کے کوتک جتادے گا۔ (کنزالایمان)
اس طرح ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا۔
﴿اِنۡ کُلُّ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّا اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا ط﴾ (سورۃ مریم:آیت ۹۳)
ترجمہ: آسمانوں اور زمین میں جتنے ہیں سب اس کے حضور بندے ہو کر حاضر ہوں گے۔(کنزالایمان)
شعور عینیت : قیامت کے دن اٹھنے کے بعد ہر شخص کو اس بات کا پورا شعور اور احساس ہوگا کہ وہ وہی شخص ہے جو دینا میں فلاں اچھا ئی یا نیکی کرتا تھا اس طرح سے اس کو اپنی گذشتہ اور موجودہ شخصیت کے ایک ہونے کا پوری طرح احساس ہوگا۔
شعور عینیت اور قرآنی استدلال:اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی اور اپنے نفس کی پوری پوری پہچان ہوگی ،چناں چہ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔
﴿ثُمَّ یُنَبِّئُھُمۡ بِمَا عَمِلُوۡا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط﴾ (سورۃ المجادلۃ: آیت۷)
ترجمہ: پھر انہیں قیامت کے دن بتادے گا جو کچھ انہوں نے کیا ۔ (کنزالایمان)
یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام اولین و آخرین کو ایک میدان میں جمع فرمائےگا پھر انہیں ان اعمال کے بارے میں بتادےگا جو دنیا میں انہوں نے کیا ، کیوں کہ صرف زندہ کرنا با لذات کوئی مقصد نہیں ،بلکہ انہیں بتایا جائےگا کہ انہوں نے دنیا میں رہ کر کیا عمل کیا اورکیا نفع و نقصان اٹھایا ؟ ا س طرح سے ہر شخص کو یہ بھی بتا دیا جائے گا کہ اس نے فلاں نیکی کی ہے تو اس کا یہ اچھا بدلہ ہے اور برائی کی ہے تو یہ اس کی سزا ہے۔(سزا وجزا افراد کی زندگی میں بے حد ضروری ہے کیوں کہ اگر یہ نہ ہو تو انسان دنیا کے اندر اپنے نفس کے تابع ہو کر بہت سارے اعمال ،احکام الٰہی کے خلاف کر نے لگے گا اور مقصد تخلیق کو فوت کردےگا ) ،انسان کے اندر اس کی سابقہ زندگی میں ہونے والےتمام اعمال کا احساس پیدا کردیا جائے گا اور یہ تمام چیزیں اس لیے ہوگی کہ ہر انسان اس وقت خود کو پہچان رہا ہوگا ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
﴿ھُنَالِكَ تَبْلُوۡا کُلُّ نَفْسٍ مَّااَسْلَفَتْ﴾ (سورۃ یونس:آیت ۳۰)
ترجمہ: یہاں ہر جان جانچ لے گی جو آ گے بھیجا۔ (کنزالایمان)
یعنی اس موقف میں سب کو معلوم ہوجائے گا کہ دنیا میں رہ کر جو اعمال کیے تھے وہ کیسے تھے اچھے یا برے مفید یا مضر، اس دن لوگوں کی عینیت کے شعور کا عالم یہ ہوگا کہ ان کے اعضا ان کے خلاف گواہی دیں گے ۔چناں چہ ارشاد خداوندی ہے ۔
﴿یَّوْمَ تَشْھَدُ عَلَیۡھِمْ اَلْسِنَتُھُمْ وَ اَیۡدِیۡھِمْ وَ اَرْجُلُھُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعْمَلُوۡنَ ﴾ (سورۃالنور:آیت ۲٤)
ترجمہ: جس دن ان پر گواہی دیں گی ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں جو کچھ کرتے تھے (کنزالایمان)
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب مشرکین یہ دیکھیں گے کہ صرف اہل صلاۃ جنت میں جارہے ہیں تو آپس میں کہیں گے کہ آؤ ہم ان باتو ں کا انکار کردیتے ہیں جو ہم نے دنیا میں کیے ، پس وہ انکار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے مونھ پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ ،پاؤں گواہی دیں گےوہ اللہ کے حضور کسی بات کو نہ چھپا سکیں گے۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے۔
حدثنا يونس بن عبد الأعلیٰ،حدثناابن وھب،أخبرني عمروبن الحارث،عن دَرَّاج،عن أبي الھيثم،عن أبي سعيد، عن رسول اللہ ﷺ قال:
إذا كان يوم القيامۃ،عُرف الكافربعملہ ،فيجحدويخاصم،فيقال لہ: ھؤلاءجيرانك يشھدون عليك. فيقول: كذبوا. فيقول: أھلك وعشيرتك. فيقول: كذبوا، فيقول: احلفوا. فيحلفون، ثم يُصمِتھم اللہ،فتشھدعلیھم أيدیھم وألسنتھم،ثم يدخلھم النار۔
جواب دہی ،جزا وسزا کا تصور اور قرآنی استدلال: جب انسان کے اندراپنی شخصیت اور عینیت کا مکمل طور سےاحساس پیدا ہوچکا ہوگا اور گذشتہ زندگی کے تمام کمالات سامنے موجود ہوں گے تو اس احساس و شعور کےساتھ اس کو بارگاہ خداوندی میں لایا جائے گا پھر اس کو گناہوں کی سزا اور نیکی کی جزا دی جائے گی یہ تصور قرآن کریم میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوۡرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط﴾(سورۃ آل عمران:آیت ۱۸۵)
ترجمہ: اور تمہارے بدلے تو قیامت ہی کو پورے ملیں گے۔ (کنزالایمان)
﴿ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوۡنَط﴾(سورۃ آل عمران:آیت ۱٦۱)
ترجمہ: پھر ہر جان کو اُن کی کمائی بھرپور دی جائے گی اور اُن پر ظلم نہ ہوگا ۔( کنزالایمان)
یعنی تمہارے وہ اعمال جو دنیا میں رہ کر کیے (عمل خیریا شر) ان سب کی جزاقیامت میں پورا پورا دیا جائے گا اس میں کچھ کمی نہیں کی جائے گی۔
اس بات کی مزید وضاحت اس طرح بیان کی گئی کہ قیامت کے دن عدل کا ترازو رکھا جائے گا اور کسی جان پر کچھ بھی ظلم نہ ہوگا اگر اس کے اعمال میں سے کوئی چیز رائی کےدانہ کے برابر بھی ہوگی تو اسے پیش کیا جائےگا ،جیسا کہ قرآن کریم میں مذکور ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔
﴿وَنَضَعُ الْمَوٰزِیۡنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْـًٔا وَّ اِنۡ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیۡنَابِھَاوَکَفٰی بِنَا حَاسِبِیۡنَط﴾ (سورۃالأنبیاء :آیت ٤۷)
ترجمہ: اور ہم عدل کی ترازو رکھیں گے قیامت کے دن تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا اور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب کو ۔ (کنزالایمان)
آخر میں جزا و سزا کی صورت یوں دکھائی جائے گی کہ جو لوگ متقی اور پرہیز گار ہوں گے ان کے لیے جنت اور جو لوگ گمراہ ہوں گے ان کے لیے دوزخ قریب کر دی جائے گی تاکہ وہ دیکھیں۔قرآن کریم نے اسے اس طرح بیان کیا ہے۔
﴿وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیۡنَطوَ بُرِّزَتِ الْجَحِیۡمُ لِلْغَاوِیۡنَ ط﴾ (سورۃ الشعراء:آیت ۹۰،۹۱ )
ترجمہ: اور قریب لائی جائے گی جنّت پرہیزگاروں کے لئے اور ظاہر کی جائے گی دوزخ گمراہوں کے لئے۔(کنزالایمان)
قیامت کے دن صور کا پھونکا جانا : قیامت کے دن ہونے والی ہولناکی اور بڑی بڑی نشانیایوں میں سے جو آخری مرحلے کی سب سے بڑی نشانی ہے وقوع آخرت کی ،اس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
﴿وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَصَعِقَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللہُ ؕ﴾ (سورۃ الزمر:آیت ٦۸)
ترجمہ: اور صور پھونکا جائے گا تو بے ہوش ہوجائیں گے جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں مگر جسے اللہ چاہے ۔ ( کنزالایمان)
یہ پہلے نفخہ کا بیان ہے اس نفخہ سے جو بے ہوشی طاری ہوگی اس کا یہ اثر ہوگا کہ ملائکہ اور زمین والوں میں سے اس وقت جو لوگ زندہ ہوں گے جن پر موت نہ آئی ہوگی وہ اس سے مرجائیں گے ۔ اور جن پر موت وارد ہوچکی پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں حیات عنایت کی وہ اپنی قبروں میں زندہ ہیں جیسے کہ انبیاء و شہداء ان پر اس نفخہ سے بے ہوشی کی سی کیفیّت طاری ہوگی اور جو لوگ قبروں میں مرے پڑے ہیں انہیں اس نفخہ کا شعور بھی نہ ہوگا ۔ (جمل وغیرہ) لیکن آیۃ کریمہ میں استثنا ء بھی ہے تو اس استثناء میں کون کون داخل ہے اس سلسلے میں مفسّرین کے بہت اقوال ہیں ۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے فرمایا کہ نفخۂِ صعق سے تمام آسمان اور زمین والے مرجائیں گے سوائے جبرئیل و میکائیل و اسرافیل و مَلَک الموت کے پھر اللہ تعالیٰ دونوں نفخوں کے درمیان جو چالیس برس کی مدّت ہے اس میں ان فرشتوں کو بھی موت دے گا ۔
دوسرا قول یہ ہے کہ مستثنیٰ شہداء ہیں جن کے لئے قرانِ مجید میں “ بَلْ اَحْیَاء” آیا ہے ۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ وہ شہداء ہیں جو تلواریں حمائل کئے گردِ عرش حاضر ہوں گے ۔
تیسرا قول حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مستثنیٰ حضرت موسٰی علیہ السلام ہیں چونکہ آپ طور پر بے ہوش ہوچکے ہیں اس لئے اس نفخہ سے آپ بے ہوش نہ ہوں گے بلکہ آپ متیقظ و ہوشیار رہیں گے ۔
چوتھا قول یہ ہے کہ مستثنیٰ جنّت کی حوریں اور عرش و کرسی کے رہنے والے ہیں ۔ ضحاک کا قول ہے کہ مستثنیٰ رضوان اور حوریں اور وہ فرشتے جو جہنّم پر مامور ہیں وہ اور جہنّم کے سانپ بچھو ہیں ۔ (تفسیر کبیر وجمل) (خزائن العرفان: زمر،۶۸/۳۹) آیت مذکورہ کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ حافظ اسماعیل ابن کثیر دمشقی(متوفی ۷۷۴ھ) لکھتے ہیں ۔
يقول تعالیٰ مخبراعن ھول يوم القيامۃ،ومايكون فیہ من الآيات العظيمۃ والزلازل الھائلۃ، فقولہ:﴿وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَصَعِقَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللہُ ؕ﴾،ھذہ النفخۃ ھی الثانیۃ، وھی نفخۃالصعق، وھی التي يموت بہا الأحياء من أھل السموات والأرض إلامن شاءاللہ كماھومصرح بہ مفسرافي حديث الصورالممشھور. ثم يقبض أرواح الباقين حتی يكون آخر من يموت ملك الموت، وينفرد الحي القيوم الذي كان أولا وھوالباقي آخرابالديمومۃ،والبقاء ويقول:﴿ لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَ ﴾(غافر:۱٦) ثلاث مرات. ثم يجيب نفسہ بنفسہ فيقول: ﴿لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّار﴾أي: الذي ھو واحد وقد قدر كل شيء وحكم بالفناءعلی كل شيء ثم يحيي أو لمن يحيي إسرافيل۔
پھر اللہ تعالیٰ حضرت جبرئیل کو صور پھونکنے حکم فرمائے گا اوریہ دوسری بار صور پھونکنا ہوگا اس سے مردے زندے کیے جائیں گے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔
﴿ثُمَّ نُفِخَ فِیۡہِ اُخْرٰی فَاِذَا ہُمۡ قِیَامٌ یَّنۡظُرُوۡنَ ط﴾ (سورۃ الزمر: آیت٦۸)
ترجمہ: پھر وہ دوبارہ پھونکا جائے گا جبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہوجائیں گے ۔ (کنزالایمان)
اس صور کے بعد لو گ زندہ ہوکر اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے اورحیرت میں آکر مبہوت کی طرح ہر طرف نگاہیں اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے کہ اب انہیں کیا معاملہ پیش آئے گا ۔ اور مومنین کی قبروں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے سواریاں حاضر کی جائیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے﴿یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا﴾(خزائن العرفان: زمر،۳۹)
اس سلسلے میں ایک حدیث رسول ﷺ وارد ہے۔
عن أبي سعيد نالخدري قال :
قال رسول اللہ ﷺ : كيف أنعم وصاحب الصورقدالتقم ھو أصغی سمعہ وحنی جبھتہ ينتظرمتی يؤمر بالنفخ۔ رواہ الترمذی۔(مشکاۃ المصابیح:کتاب أحوال القیامۃ،باب نفخ الصور،۷)
حضرت ابو سعید خذری سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” میں کیسے سکون پاؤں جب کہ صاحب صور یعنی حضرت جبرئیل نے صور کو اپنے منھ میں پکڑ رکھا ہے اور پیشانی کو جھکائے ہوئےہیں اور کان حکم الٰہی پر متوجہ کر رکھا ہے کہ کب انھیں صور پھونکنے کا حکم ملے اور وہ صور پھونکیں۔
اس تعلق سے ایک اور حدیث میں ہے۔
عن أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ: عن النبیﷺقال:
الشمس والقمرمكوران يوم القيامۃ۔ رواہ البخاری(مشکاۃ المصابیح:کتاب أحوال القیامۃ،باب نفخ الصور )
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قیامت کے دن چاند و سورج لپیٹ دئیے جائیں گے ۔
رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
جب سے حضرت جبرئیل پیدا کیے گیے ہیں اس وقت سے صور ان کے منھ میں ہے اور وہ ایک قدم آگے ،ایک قدم پیچھے حکم الٰہی کے منتظر ہیں ، تو تم ہوشیار ہوجاؤ اور صور پھونکے جانے کے وقت سے ڈرو ،اس وقت لوگو کی ذلت و رسوائی کا تصور کرو جب کہ دوسری مرتبہ صور پھونک کر انہیں کھڑا کیا جائے گا اور وہ اپنے متعلق فیصلہ سننے کے منتظر ہوں گے“ اے انسان ! تو بھی ان ذلت و پریشانی میں برابر کا شریک ہوگا اگر تو دنیا میں آسودہ حال اور دولت مند ہے تو جان لے کہ اس دن دنیا کے تمام بادشاہ و سلاطین مخلوق سے زیادہ ذلیل و حقیر ہوں گے،اس وقت جنگلوں اور پہاڑوں کے درندے قیامت کی ہولناکی سے اپنے سر جھکائے اور ڈرے ہوں گے یہ سارے درندے اپنی درندگی اور وحشت کو بھول جائیں گے اور انسانوں کے ساتھ گھل مل جائیں گے لیکن یہ درندے اپنے کسی گناہ کی وجہ سے نہیں ڈریں گے بلکہ صور کی خوفناک آواز کی شدت سے سے زندہ ہو جائیں گے ، انہیں لوگو سے کوئی خوف و وحشت بھی محسوس نہیں ہوگی ۔
چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿وَ اِذَا الْوُحُوۡشُ حُشِرَتْ ط ﴾ (سورۃالتکویر:آیت۵)
ترجمہ: اور جب وحشی جانور جمع کئے جائیں ۔ (کنزالایمان)
تمام جانورقیامت کے دن بعد ِ بعث جمع کیے جائیں گے تاکہ ایک دوسرے سے بدلہ لیں ،پھر خاک کر دیے جائیں ،اس کے بعد شیطان اور سخت نافرمان انسان اپنی نافرمانی کی وجہ سے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے لیے انتہائی ذلت و رسوائی کے ساتھ اللہ کے اس فرمان کی تائید میں حاضر ہوں گے
﴿فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّھُمْ وَالشَّیٰطِیۡنَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّھُمْ حَوْلَ جَھَنَّمَ جِثِیًّا ﴾ (سورۃ مریم:آیت٦۸)
ترجمہ: تو تمہارے رب کی قسم ہم انہیں اور شیطانوں سب کو گھیر لائیں گے اور انہیں دوزخ کے آس پاس حاضر کریں گے گھٹنوں کے بل گرے۔ (کنزالایمان)
یعنی کفار و مشرکین کو ( جوبعث بعد الموت کا انکار کرتے ہیں) ان کے گمراہ کرنے والے شیاطین کے ساتھ گھیر لائیں گے اس طرح کہ ہر کافِر شیطان کے ساتھ ایک زنجیر میں جکڑا ہو گا ۔( خزائن العرفان)
قیامت کی ہولناکی اور اس کا منظر : رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔
قیامت کے دن تمام لوگایک چٹیل میدان میں جمع کیے جائیں گے۔
حدیث پاک میں ہے۔
عن سھل بن سعدقال، قال رسول اللہﷺ:
يحشرالناس يوم القيامۃ علی أرض بيضاءعفراءكقرصۃالنقي ليس فیھاعلم لأحد. متفق علیہ (مشکاۃ المصابیح:کتاب أحوال القیامۃ،باب الحشر)
سہل بن سعد سےروایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
قیامت کے دن لوگ ایک صاف وشفاف ٹکیہ کے مانند چٹیل میدان میں جمع کیے جائیں گے جس میں کسی طرح کا کوئی نشان تک نہ ہوگا۔
یہ میدان ہر قسم کے درختوں ،اونچے اونچے ٹیلوں اور عمارتوں سےپاک ہوگا اور یہ زمین دنیا کی زمین کی طرح نہیں بلکہ یہ صرف برائے نام زمین ہوگی۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔
﴿یَوْمَ تُبَدَّلُ الاَرْضُ غَیۡرَ الاَرْض وَالسَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوۡا لِلہِ الْوَاحِدِالْقَھَّارِط﴾ (سورۃإبراھیم:آیت ٤۸)
ترجمہ: جس دن بدل دی جائے گی زمین اس زمین کے سوا اور آسمان اور لوگ سب نکل کھڑے ہوں گے ایک اللہ کے سامنے جو سب پر غالب ہے ۔( کنزالایمان)
زمین و آسمان کی تبدیلی میں مفسِّرین کرام کے دو قول ہیں
ایک یہ کہ ان کے اوصاف بدل دیئے جائیں گے مثلاً زمین ایک سطح ہو جائے گی نہ اس پر پہاڑ باقی رہیں گے ، نہ بلند ٹیلے ، نہ گہرے غار ، نہ درخت ، نہ عمارت ، نہ کسی بستی اور اقلیم کا نشان اور آسمان پر کوئی ستارہ نہ رہے گا اور آفتاب ماہتاب کی روشنیاں معدوم ہوں گی ، یہ تبدیلی اوصاف کی ہے ذات کی نہیں ۔
دوسرا قول یہ ہے کہ آسمان و زمین کی ذات ہی بدل دی جائے گی ، اس زمین کی جگہ ایک دوسری چاندی کی زمین ہو گی ، سفید و صاف جس پر نہ کبھی خون بہایا گیا ہو نہ گناہ کیا گیا ہو اور آسمان سونے کا ہوگا ۔
یہ دو قول اگرچہ بظاہر باہم مخالف معلوم ہوتے ہیں مگر ان میں سے ہر ایک صحیح ہے اور وجہ جمع یہ ہے کہ اوّل تبدیلِ صفات ہوگی اور دوسری مرتبہ بعدِ حساب تبدیلِ ثانی ہوگی ، اس میں زمین و آسمان کی ذاتیں ہی بدل جائیں گی ۔ (خزائن العرفان) اور قیامت کی ہولناکی تو اتنی زیادہ سخت ہوگی کہ انسان اس کی تاب نہ لا سکے گا۔
ارشاد خداوندی ہے۔
﴿ یٰاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمْ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیۡءٌ عَظِیۡمط یَوْمَ تَرَوْنَھَا تَذْھَھَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّا اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَھَا وَ تَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَمَا ھُمۡ بِسُکٰرٰی وَلٰکِنَّ عَذَابَ اللہِ شَدِیۡدٌ﴾(الحج :آیت ۱،۲)
ترجمہ: اے لوگو اپنے رب سے ڈرو بیشک قیامت کا زلزلہ بڑی سخت چیز ہے ،جس دن تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے کو بھول جائے گی اور ہر گابھنی اپنا گابھ ڈال دے گی اور تو لوگوں کو دیکھے گا جیسے نشہ میں ہیں اور وہ نشہ میں نہ ہوں گے مگر ہے یہ کہ اللہ کی مار کڑی ہے۔(کنزالایمان)
اس آیت کریمہ میں لوگوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنے رب کے عذاب کا خوف کرو اور اس کی طاعت میں مشغول ہو،قیامت کا زلزلہ جو علاماتِ قیامت میں سے ہے اور قریبِ قیامت آفتاب کے مغرب سے طلوع ہونے کے نزدیک واقع ہو گااور عورتوں کا تو یہ حال ہوگا کہ جو حمل سے ہو گی اس کا حمل اس کی ہولناکی سے ساقط ہوجائے گا اور عذاب الٰہی کے خوف سے لوگوں کے ہوش اڑجائیں گے اور اس کا منظر اس طرح ہوگا کہ لوگ اپنا سب کچھ بھول جائیں گےکوئی کسی کا حال پوچھنے والا نہ ہوگا دن اس قدر تابناک ہوگا کہ آنکھیں چوندھیا جائے گی جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہے ۔
﴿فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُطوَ خَسَفَ الْقَمَرُط وَ جُمِعَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُطیَقُوۡلُ الْاِنۡسَانُ یَوْمَئِذٍ اَیۡنَ الْمَفَرُّ﴾ (سورۃالقیامۃ:آیت ٧٬٨٬٩٬١٠)
ترجمہ: پھر جس دن آنکھ چوندھیائے گی،اور چاند گہے گا،اور سورج اور چاند ملادیئے جائیں گے،اس دن آدمی کہے گا کدھر بھاگ کر جاؤں۔(کنزالایمان)
یعنی جب لوگ سورج کی طرف دیکھیں گے تو ان کی آنکھیں مارے حیرت کےچوندھیا جائے گی ،چاند تاریک ہوجائے گا اور روشنی زائل ہوجائے گی اس کے بعد چاند و سورج دونوں ملا دیے جائیں گےاور یہ ملا دینا یا تو طلوع میں ہوگا کہ دونوں مغرب سے طلوع کریں گے یا بے نور ہونے میں،ان حالتوں میں انسان یہ کہے گا کہ کدھر بھاگ کر جاؤں کہ اس ہولناکی اوردہشت سے چھٹکارہ ملے لیکن وہاں کوئی جائے فر ارنہیں ۔قیامت کی ہولناکی اور اس کا منظر اس طرح خوف پیدا کرنے دینے والا ہو گا کہ کوئی کسی کی جانب نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا ہر کوئی اپنی ہی دھن میں ہوگا اپنے بارے میں فکر مند ہوگا ،چناں چہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لوگ قیامت کے دن میدان محشر میں جمع ہوں گے سب ننگے بدن اور ننگے پیر ہوں گے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے ۔
عن عائشۃقالت :سمعت رسول اللہ ﷺ يقول:
يحشر الناس يوم القیامۃ حفاۃ عراۃغرلا. قلت: يا رسول اللہ !الرجال والنساءجميعاينظربعضھم إلی بعض؟فقال : ياعائشۃ ! الأمرأشدمن أن ينظربعضھم إلی بعض۔ متفق علیہ(مشکاۃ المصابیح: کتاب أحوال القیامۃ، باب الحشر)
حضرت عائشہ صدیقہ سےروایت ہے فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
قیامت کے دن لوگ ننگے بدن ،ننگے پیر اور غیر مختون جمع کیے جائیں گے ۔میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! تب تو مر د اور عورت ایک دوسرے کو دیکھیں گے ؟
آپ نے فرمایا : اے عائشہ! معاملہ اتنا سخت ہوگا کہ لوگ ایک دوسرے کو دیکھیں گے ہی نہیں ۔
میدان محشر کی کیفیت :میدان محشر میں زمین و آسمان کی تمام مخلوق فرشتے، جن، انسان، شیطان، جانور،درندے سب جمع ہوں گےپھر سورج طلوع ہوگا اس کی گرمی پہلے سے کہیں زیادہ تیز ہوگی یہ لوگوں کے سروں پر ایک کمان کے فاصلہ کے برابر آجائے گا اس وقت عرش الٰہی کے سایہ کے سوا کہیں کوئی سایہ نہ ہوگا اور اس سایہ میں صر ف نیک لوگ ہوں گے۔
حدیث پاک میں ہے۔
عن أبی ھریرۃرضي اللہ عنہ عن النبیﷺ قال:
سبعۃ یظلھم اللہ فی ظلہ یوم لا ظل إلا ظلہ الإمام العادل وشاب نشأ فی عبادۃ ربہ ورجل قلبہ معلق فی المساجد و رجلان تحابافی اللہ اجتمعا علیہ و تفرقا علیہ ورجل طلبتہ إمرأۃذات منصب وجمال فقال إنی أخاف اللہ و رجل تصدق أخفی حتی لا تعلم شمالہ ما تنفق یمینہ و رجل ذکر اللہ خالیا ففاضت عیناہ (مسلم:باب فضل إخفاء الصدقۃ)
حضرت ابو ہریرہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسوللہ ﷺ نے فرمایا :
اللہ تعالیٰ سات لوگوں کو اس دن اپنے سایۂ میں رکھے گا جس دن اس سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، عادل امام، وہ شخص جس نے جوانی کو اپنے رب کی عبادت میں گذارا،وہ آدمی جس کا دل ہمیشہ مسجد میں لگا رہا، ایسے دو لوگ جنہوں نےاللہ کے لیے ایک دوسرے سےمحبت کی اور اللہ کے لیے جمع ہوئے اور اسی کے لیے جدا ہوئے،ایسا آدمی جس کو خوبصورت اور جاہ و مرتبت والی عورت نے بلایا تو اس نے کہا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں،وہ شخص جس نے چھپا کر صدقہ کیا حتی کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوجو دایاں ہاتھ خرچ کرےاور وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد تو اس کی آنکھیں بھر آئیں۔
اس دن سورج کی تمازت سے ہر جاندار سخت مصیبت و پریشانی میں ہوگا لوگ ایک دوسرے کو ہٹائیں گےتاکہ بھیڑ کم ہو ، تمام انسان بارگاہ خداوندی میں حاضری کے خیال سے انتہائی شرمندگی اور ذلت ورسوائی کا سامنا کریں گے اس وقت دھوپ اور سانسوں کی گرمی،دلوں میں پشیمانگی کی آگ اور زبردست خوف ہراس ان پر طاری ہوگا،ہر بال سے پسینہ بہنا شروع ہوگا حتی کہ میدان قیامت پانی کی طرح بھر جائے گا اور ان کے جسم بقدر گناہ پسینے میں ڈوبےہوں گے ،بعض گھٹنوں تک ،بعض کمر تک اور بعض سراپا پسینے میں غرق ہوں گے۔
حدیث شریف میں وارد ہے
عن أبی ھریرۃ قال: قال رسول اللہ ﷺ :
یعرق الناس یوم القیامۃ حتی یذھب عرقھم فی الأرض سبعین ذراعا و یلجمھم حتی یبلغ آذانھم۔ متفق علیہ (مشکاۃ المصابیح: کتاب أحوال القیامۃ،باب نفخ الحشر۸)
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
قیامت میں لوگوں کا پسینہ ستر ہاتھ اونچا ہو جائے گا اور ان کے کانوں تک پہنچ جائے گا۔
عن المقداد قال: سمعت رسول ﷺ یقول :
تدنی الشمس یوم القیامۃ من الخلق حتی تکون منھم کمقدار میل فیکون الناس علی قدر أعمالھم فی العرقۃ فمنھم من یکون إلی کعبیہ و منھم من یکون إلی رکبتیہ ومنھم من یکون إلی حقویہ و منھم یلمجھم العرق إلجاما و أشار رسول اللہ ﷺ بیدہ إلی فیہ۔رواہ مسلم
(مشکاۃ المصابیح: کتاب أحوال القیامۃ، باب الحشر)
حضرت مقداد سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
قیامت کے دن سورج لوگوں کے انتہائی قریب ہوگا اور شدید پسینہ آنے کی وجہ سے لوگوں کے جسم بقدر گناہ پسینے میں ڈوبے ہوں گے،بعض ٹخنوں تک ،بعض آدھی پنڈلیوں تک ،بعض گھٹنوں تک ، بعض رانوں تک بعض کمر تک اور بعض منھ تک اور آپ ﷺ نے ہاتھ کے اشارے بتایا کہ انہیں پسینہ کی لگام لگی ہوگی ۔
بلا شبہ قیامت کی گھڑی ایسی ہوگی کہ جہاں نہ باپ کام آئے گا نہ بیٹا ،نہ ماں کام آئے گی نہ بیوی،نہ بھائی کام آئے گا نہ بہن ،جیسا کہ پروردگا عالم کا ارشاد ہے۔
﴿فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّۃُط یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیۡہِطوَ اُمِّہٖ وَ اَبِیۡہِطوَ صَاحِبَتِہٖ وَ بَنِیۡہِط(سورۃعبس:آیت ٣٣٬٣٤٬٣٥٬۳٦٬)
ترجمہ: پھر جب آئے گی وہ کان پھاڑنے والی چنگھاڑ،اس دن آدمی بھاگے گا اپنے بھائی،اور ماں اور باپ،اور جورو اور بیٹوں سے۔( کنزالایمان)
عقیدہ آخرت اسلام کا وہ بنیادی عقیدہ ہے جس پر ایمان لانے کے بعدانسان دنیاوآخرت دونوں جہان میں اللہ رب العزت کی رضا کے مطابق زندگی بسر کرسکتا ہے اور ایک ایسا کردارادا کرسکتا ہے جس سے اسےاللہ تبارک و تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ اس عقیدہ کی بنیاد پر اپنے تمام افعال کو اس طور پر انجام دے کہ کل بروز قیامت وعدۂ الٰہی کے مستحق ہو سکیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” بے شک نکوں کار ضرور چین (جنت) میں ہیں،اور بے شک بدکار (کافر ) ضرور دوزخ میں ہیں“۔
ماخذ و مرا جع
القرآ ن الکریم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمۂ کنزالایمان از۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ متوفی ۱۳۴۰ھ
خزائین العرفان از۔ علامہ نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمۃ متوفی
مشکاۃ المصابیح از۔ محمد بن عبداللہ خطیب تبریزی متوفی ۷۴۱ھ
تفسیر ابن کثیر از۔اسماعیل بن کثیر دمشقی متوفی ۷۷۴ھ
تفسیر طبری از محمد بن جریر طبری متوفی ۳۱۰ھ
تفسیر بغوی ابومحمد الحسین البغوی متوفی ۵۱۶ھ
ایسر التفاسیر ابو بکر
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.