You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
امام زین العابدین کی شان میں
فرزدؔ ق تمیمی کا قصیدۂ میمیہ
ایک تحقیقی مطالعہ
اسیدا لحق قادری بدایونی
خانقاہ قادریہ بدایوں
اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کا دور حکومت ہے، حج کے موسم میںہزاروں بندگان خدا حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے دُور دُور سے کھنچے چلے آرہے ہیں،صحن کعبہ میں ازدحام کا یہ عالم ہے کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں ہے ۔اس حج کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس سال خلیفۃ المسلمین کا بیٹا اور ولی عہد ہشام بن عبدالملک بھی ملک شام سے سفر کرکے حج بیت اللہ کے لیے آیا ہے ، اس کے ساتھ اراکین سلطنت اور اعیان مملکت کے علاوہ اس کے بہت سے شامی دوست بھی ہیں ۔اس حج میں عہد اموی کا مشہور شاعرابو فراس ہمام بن غالب فرزدق ؔ تمیمی بھی ہے ۔
ہشام بن عبدالملک حجر اسود کا بوسہ لینے کے لیے آگے بڑھا ،شاید اس کے ذہن میں یہ بات ہو کہ ولی عہدی، دنیاوی کروفر اور شان وشوکت دیکھ کر لوگ اس کے سامنے سے ہٹ جائیں گے اوروہ بہ آسانی حجر اسود کا بوسہ لے لے گا ۔لیکن لوگوں نے ہشام اور اس کے لاؤ لشکر کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی ، کچھ دیر بھیڑ میں دھکے کھانے کے بعد ہشام نے حجر اسود کو بوسہ دینے کا ارادہ ترک کیا اور مطاف کے ایک کنارے پر آکر کھڑا ہوگیا۔
اسی درمیان گلستان نبوت کے گل سرسبد ،خانوادہ ٔ شیر خدا کے چشم وچراغ ،خاتون جنت کے لخت جگر اور امام عالی مقام کے صاحبزادے امام زین العابدین علی بن حسین ( رضی اللہ تعالیٰ عنہم )صحن کعبہ میں داخل ہوئے ، جیسے ہی لوگوں کی نظر امام زین العابدین کے چہرہ ٔ انور پر پڑی بھیڑ کائی کی طرح پھٹ گئی، آپ پورے اطمنان کے ساتھ حجر اسود کے پاس پہنچے اور اس کو بوسہ دے کر طواف کا آغاز کیا ، دوران طواف آپ جس طرف سے بھی گزرتے لوگ ادب واحترام سے ایک طرف ہٹ جاتے، ہشام کے ساتھ جو لوگ شام سے آئے تھے ان کے لیے یہ بڑا حیرت انگیز نظارہ تھا کیوں کہ وہ کچھ دیر پہلے مملکت بنو امیہ کے ولی عہد کی قدر ومنزلت دیکھ ہی چکے تھے۔ انہیں میں سے کسی شخص نے ہشام سے پوچھا کہ ’’ یہ کون ہے ؟‘‘ ۔
ہشام امام زین العابدین کو خوب اچھی طرح جانتاپہچانتا تھا، مگر وہ پہلے ہی ان شامیوں کے سامنے خفت محسوس کررہا تھااس نے سوچا کہ اگر ان نوجوان کے بارے میں ان کو بتاؤں تو کہیں یہ شامی انہیں کی طرف مائل نہ ہوجائیں، یہ سوچ کر اس نے تجاہل عارفانہ برتتے ہوئے یک گونہ اہانت آمیز لہجے میں جواب دیا کہ ’’ میں نہیں جانتا یہ کون ہے ‘‘ ۔
ابو فراس فرزدق ؔ قریب ہی کھڑا ہوا تھا ، اس کو اہل بیت نبوت کے اس گل ِ سرسبد کی یہ اہانت برداشت نہیں ہوئی، اس کی اسلامی غیرت بیدار ہوئی اور وہ شامی کی طرف متوجہ ہوکر بولا کہ مَیں ان کو جانتا ہوں،مجھ سے پوچھو یہ نوجوان کون ہے ؟شامی نے کہا کہ بتائو یہ کون ہیں؟فرزدق نے امام زین العابدین کی شان میںفی البدیہ ایک فصیح وبلیغ قصیدہ نظم کرکے برجستہ سنا دیا ۔اس نے کہا کہ: (ترجمہ اشعار)
یہ وہ مقدس شخصیت ہے کہ جس کے نقش قدم کو وادیٔ بطحا (یعنی مکہ مکرمہ ) پہچانتی ہے ، اور بیت اللہ ( یعنی کعبہ ) اور حل وحرم سب ان کو جانتے پہچانتے ہیں۔
یہ تو اس ذات گرامی کے لخت جگر ہیں جو اللہ کے تمام بندوں میں سب سے بہتر ہیں ( یعنی حضور اکرم ﷺ ) یہ پرہیز گار، تقویٰ والے، پاکیزہ ، صاف ستھرے اور قوم ( قریش )کے سردار ہیں ۔
جب ان کو قبیلہ ٔ قریش کے لوگ دیکھتے ہیں تو ان کو دیکھ کر کہنے والا یہی کہتاہے کہ ان کی بزرگی وجواں مردی پر بزرگی وجواں مردی ختم ہے ۔
تمہارا یہ کہنا کہ ’’ یہ کون ہیں ؟ ‘‘ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا ،جس ذات گرامی ( کو پہچاننے) سے توانکار کررہاہے ان کو تو عرب وعجم سب جانتے ہیں۔
یہ خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) کے لخت جگر ہیں، اگر تو ان کو نہیں جانتا ( تو سن لے کہ ) ان کے محترم نانا ( حضور اکرم ﷺ ) پرانبیائے کرام کے سلسلے کا اختتام ہواہے ۔
فی البدیہ اور برجستہ ہونے کے باوجود یہ قصیدہ نہ صرف یہ کہ زبان وبیان کی رو سے نہایت اعلیٰ پیمانے کا تھا بلکہ اس میں امام زین العابدین کے خاندانی اور ذاتی تمام فضائل وکمالات بڑی عمدگی اور فنکارانہ مہارت سے نظم کردیے گئے تھے ۔اس لیے یہ قصیدہ محبان اہل بیت اور ارباب شعروادب دونوں کے یہاں معروف ومقبول رہا۔ زیر نظر مضمون میں ہم اسی تاریخی اہمیت کے قصیدے کا عربی متن ، سلیس اردو ترجمہ اور اس کے متعلق بعض بنیادی اور کچھ ضمنی باتیں پیش کررہے ہیں۔
زین السجادامام زین العابدین علی بن حسین
آپ سید الشہدا امام حسین بن علی کے شہزادے اورحضرت علی مرتضیٰ وخاتون جنت کے پوتے ہیں، آپ کی والدہ کا نام سلامہ یا سلافہ یا غزالہ ہے ۔ آپ کی ولادت لگ بھگ ۳۸ھ میں ہوئی، معرکہ کربلا میں آپ اپنے والد امام عالی مقام کے ساتھ تھے،لیکن سخت علیل ہونے کے باعث معرکے میں شریک نہیں ہوسکے، جنگ کے خاتمے کے بعد قافلہ اہل بیت کے ساتھ دمشق لے جائے گئے وہاں سے مدینہ منورہ تشریف لائے۔
خاندانی نجابت وشرافت کے ساتھ ساتھ ذاتی اوصاف وکمالات کی بنیاد پرمعاصرین میں نمایاںشرف وفضیلت رکھتے تھے ،زہد وتقویٰ، جود وسخا، تواضع وانکساری اورغربا پروری میں ضرب المثل ہیں۔ شب بیداری اور عبادت گزاری میں ایسے ممتاز ہوئے کہ زین العابدین کے لقب سے یاد کیے گئے ۔
حضرت سعید بن مسیب سے کسی نے کہا کہ مَیں نے فلاں سے زیادہ متقی وپرہیزگار کسی کو نہیں دیکھا، اس پر حضرت ابن مسیب نے فرمایا کہ کیا تم نے علی بن حسین کو دیکھا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں، حضرت ابن مسیب نے فرمایا کہ مَیں نے علی بن حسین سے بڑھ کر متقی وپرہیزگار کسی کو نہیں پایا (۱)۔
امام ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں ذکر کیا ہے کہ امام زین العابدین نے اپنے والد امام حسین اور تایاحضرت امام حسن کے علاوہ ام المؤ منین حضرت عائشہ حضرت ابو ہریرہ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت مسور بن مخرمہ اور حضرت ابن عمر ( رضی اللہ تعالیٰ عنہم ) جیسے اجلہ صحابہ سے روایت کی ہے ( ۲)۔
امام ذہبی کے مطابق آپ سے روایت کرنے و الوں میںآپ کے صاحبزادے امام ابو جعفر محمدباقر، حضرت زید، حضرت عمر اور حضرت عبداللہ کے علاوہ زید بن اسلم ،عاصم بن عمر ، امام زہری، یحییٰ بن سعیداور ابو الزناد وغیرہ قابل ذکر ہیں( ۳ )۔
امام ذہبی نے امام زہری کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ’’ میں نے علی بن حسین سے زیادہ فقیہ کسی کو نہیں دیکھا‘‘ (۴)۔
علمائے جرح وتعدیل بہ اتفاق رائے آپ کو ثقہ ، مامون اور حجت تسلیم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحاح ستہ کے مصنفین نے بلاتکلف اپنی کتب میں آپ سے مروی احادیث درج کی ہیں ۔
آپ کی وفات ۹۴ھ میں ہوئی ( بعض نے ۹۲ھ بھی لکھی ہے )جنت البقیع میں اپنے تایا امام حسن کے پہلو میں آخری آرام گاہ ہے ۔
ابو فراس ہمام بن غالب فر زدؔق تمیمی
فَرَزْدَقْ ( وفات: ۱۱۰ھ ) عہد بنو امیہ کا ایک قد آور شاعر ہے،بصرہ میں پیدا ہوا او ر یہیں نشو ونما ہوئی، ہم عصر اموی شاعر جریر ؔ سے اس کی خوب شعری معرکہ آرائیاںہوئیں جن کے قصے اور اشعار آج بھی شائقین ادب کے لیے دلچسپی کا موضوع ہیں۔
فرزدق ؔ نے اپنی شاعری میں انداز بیان اور اسلوب میں جدتیں دکھائیں،خاندانی فخرو مباہات کی غلو آمیز مثالیں اس کے کلام میں نمایاں ہیں، ایام عرب کے قصے اور قدیم جاہلیت کے تصورات کے احیا میںاس نے بڑا زور صرف کیا (۵ )۔
ا س کی شاعری کے اسی پہلو کے مد نظرماہرین ادب کا یہ قول مشہور ہے کہ ’’ اگر فرزدق ؔ کی شاعری نہ ہوتی تو عربی زبان کا تہائی حصہ تلف ہوجاتا ‘‘ (۶ )۔
فرزدق ؔ کے اخلاق وکرداراور عادات واطوار کے بارے میں تقریباً سبھی مؤرخین کا اتفاق ہے ہے کہ’’ وہ ایک بر ا شخص تھا ،اس کے اخلاق گھٹیا تھے، فسق وفجور کا عادی اور عیاشی کا دلدادہ تھا‘‘ ( ۷ )۔
آدمی عملی طور پر کتنا ہی برا کیوں نہ ہو مگر کبھی کبھی اس کے اندر ایمانی اور اسلامی حمیت ضرور بیدار ہوہی جاتی ہے ،صحن کعبہ کا مذکورہ واقعہ اسی ذیل میں آتا ہے ۔
فرزدق کی قید وبند اور امام کی سخاوت
تذکرہ نگاروں نے لکھاہے کہ جب فرزدق کا یہ مدحیہ قصیدہ ہشام نے سنا تو بہت ناراض ہوا اور اس قصیدے کی پاداش میں فرزدق کو قیدخانے میں ڈلوادیا۔ جب امام زین العابدین کو خبر ہوئی کہ ہشام نے فرزدق کو قید کروادیا ہے اور اس کا جرم صرف یہ ہے کہ اس نے آپ کی مدح میں قصیدہ نظم کیا تھا ، اس سے آپ کا دریائے سخاوت جوش میں آیا اور آپ نے بطور انعام ایک خطیر رقم فرزدق کو بھجوائی، مگر فرزدق نے یہ کہہ کر وہ انعام لینے سے انکارکردیا کہ میں نے وہ قصیدہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نظم کیا تھا اس کے ذریعے دنیاوی مال ودولت کمانا مقصود نہیں تھا ، لیکن امام زین العابدین نے ارشاد فرمایا کہ ہم خاندان اہل بیت سے تعلق رکھتے ہیں ہمارا طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی چیز کسی کو عطا کردیتے ہیں تو واپس نہیں لیتے ۔ بالآ خر فرزدق نے آپ کے اس انعام کو قبول کرلیا ۔
علامہ ابن خلکان وفیات الاعیان میں لکھتے ہیں :
فلما سمع ہشام ہذہ القصیدۃ غضب وحبس الفرزدق وانفذ لہ زین العابدین اثنی عشر الف درہم فردہا وقال مدحتہ للہ تعالیٰ لا للعطا فقال انا اہل بیت اذا وہبنا شیئالا نستعیدہ فقبلہ(۸)
ترجمہ: جب ہشام نے یہ قصیدہ سنا تو غضب ناک ہوااور فرزدق کو قید میں ڈال دیا ، امام زین العابدین نے اس کے لیے ۱۲؍ ہزار درہم بطور تحفہ بھجوائے ، تو ہشام نے وہ تحفہ واپس کردیا اور کہا کہ میں نے ان کی مدح وثنا صرف اللہ تعالیٰ کی( خوشنودی کی) خاطر کی تھی،عطا وبخشش کے لیے نہیںکی تھی، حضرت زین العابدین نے ارشاد فرمایا کہ ہم اہل بیت جب کوئی چیز عطا کردیتے ہیں تو واپس نہیں لیتے، تو فرزدق نے وہ تحفہ قبول کرلیا۔
امام یافعی اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی وغیرہ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے ۔
قصیدہ ٔ میمیہ باعث نجات اور ذخیرہ ٔ آخرت
امام زین العابدین کے تحفے کے جواب میںفرزدؔ ق نے جو بات کہی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے یہ قصیدہ محض دینی اور اسلامی حمیت کے باعث نظم کیا تھا ، اس قصیدے کو فی البدیہ نظم کرنے کے پیچھے کوئی دنیاوی غرض یا لالچ نہیں تھی۔ اسی لیے بعض اہل علم اور صاحبان دل نے فرمایا ہے کہ اسی قصیدے کی وجہ سے فرزدق ؔ کی نجات ومغفرت کی امید کی جاسکتی ہے ۔
وفیات الاعیان میںعلامہ ابن خلکان(وفات : ۶۸۱ھ ) لکھتے ہیں:
وتنسب الیہ مکرمۃ یرجی لہ بہا الجنۃ (۹ )
ترجمہ : فرزدؔق کی جانب ایک ایسا کارنامہ منسوب ہے جس کی بدولت اس کے لیے جنت کی امید کی جاتی ہے ۔
تقریباً یہی بات مرآۃ الجنان میںامام یافعی( وفات : ۷۶۸ھ ) نے بھی لکھی ہے :
وتنسب الی الفرزدق مکرمۃ یرتجی لہ بہا الرحمۃ فی دارالآخرۃ( ۱۰)
ترجمہ : فرزدؔق کی جانب ایک ایسا کارنامہ منسوب ہے جس کے ذریعے آخرت میں اس کے لیے رحمت کی امید کی جاتی ہے ۔
شیخ محقق حضرت عبدالحق محدث دہلوی اس قصیدے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’ امید ہے کہ پروردگار تعالیٰ آخرت میں فرزدقؔ کی اسی قصیدے کی بنیاد پر بخشش فرمادے گا‘‘(۱۱ )۔
پھر حضرت شیخ نے شیخ الحرمین ابو عبداللہ قرطبی سے منسوب ایک قول بھی نقل کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ:
’’ اگر اللہ کے یہاں ابو فراس کا اس قصیدے کے علاوہ کوئی اور عمل نہ بھی ہو تو یہی اس کی مغفرت کے لیے کافی ہوگا کیوں کہ یہ سلطان جابر کے روبرو اعلائے کلمۃ الحق ہے‘‘ (۱۲ )۔
اہل علم او ر صاحبان دل کے ان اقوال کو دیکھ کر یہ گناہ گار راقم الحروف بھی اس قصیدے کے ترجمہ کرنے اور اس کی نشرو اشاعت کرنے کے صلے میں رسول وآل رسول سے شفاعت اور اللہ تعالیٰ سے رحمت ومغفرت کا امید وار ہے ۔
قصیدے کے انتساب کا قضیہ
امام زین العابدین ، ہشام بن عبد الملک اور فرزدق ؔ کے ساتھ صحن کعبہ میںپیش آنے والا مذکورہ واقعہ کافی شہرت رکھتا ہے ، بے شمار اصحاب سیر وتذکرہ نے اس واقعے کو مکمل قصیدے یا قصیدے کے بعض اشعار کے ساتھ نقل کیا ہے ۔مگر اس کے باوجود اس قصیدے کے سلسلے میںعلما وادبا اور اصحاب تاریخ کے درمیان اختلاف رائے موجودہے، یہ اختلاف قصیدے کے شاعر اور ممدوح دونوں کے بارے میں ہے ۔جن لوگوں نے اس کو ثابت مانا ہے ان میں اکثر اہل علم کا ماننا ہے کہ یہ قصیدہ فرزدق ؔ کاہے جو امام زین العابدین کی شان میں کہا گیا تھا، بعض حضرات نے قصیدے کی نسبت حزین کنانی(۱۳) کی جانب کی ہے مگر قصیدے کا ممدوح امام زین العابدین ہی کو قرار دیا ہے ۔بعض حضرات نے اس قصیدے کے دو شعروں کو حزین کی جانب منسوب کرکے ان کا ممدوح عبداللہ بن عبدالملک کو قرار دیا ہے ، بعض حضرات نے قصیدے کے شاعرکی حیثیت سے تو فرزدقؔ کا ذکر کیا ہے مگر قصیدے کا ممدوح امام زین العابدین کی بجائے ان کے والد امام حسین کو قرار دیا ہے ۔ بعض روایتوں کے مطابق یہ قصیدہ جریر کا ہے ، بعض نے کہا کہ یہ قصیدہ کثیر کا ہے جو اس نے امام زین العابدین کے صاحبزادے امام محمد باقر کی شان میں کہا تھا۔
اس اختلاف رائے کے سلسلے میں اب تک جو حوالے ہمارے مطالعے میں آئے ہیں تلخیص واختصار کے ساتھ پیش خدمت ہیں۔
(۱) حافظ ابو نعیم اصفہانی ( وفات :۴۳۰ھ ) نے حلیۃ الاولیا میںامام زین العابدین کے تذکرے کے ضمن میں صحن کعبہ کا یہ واقعہ نقل فرماکر قصیدے کے ۸؍ اشعار درج کیے ہیں،شاعر کی حیثیت سے فرزدق اور ممدوح کی حیثیت سے امام زین العابدین کا ذکر کیا ہے (۱۴)۔
( ۲ ) ابن خلکان (وفات : ۶۸۱ھ ) نے وفیات الاعیان میںپورا واقعہ ذکر کرکے مکمل قصیدہ نقل کیا ہے ، فرزدق ؔ کو شاعر اور امام زین العابدین کو ممدوح قرار دیا ہے ( ۱۵)۔
(۳) امام یافعی ( وفات : ۷۶۸ھ )نے بھی مرآۃ الجنان میںواقعے کے ساتھ مکمل قصیدہ نقل کیا ہے ، آپ نے بھی واقعہ فرزدق اور امام زین العابدین سے ہی منسوب کیا ہے (۱۶ )۔
(۴) حافظ ابن کثیر (وفات : ۷۷۴ھ )نے البدایہ والنہایہ میں الصولی اور جریری کے طرق کے حوالے سے امام زین العابدین، ہشام اور فرزدقؔ کا واقعہ ذکر کرکے فرزدق ؔ کے نام سے مکمل قصیدہ نقل کیا ہے (۱۷)۔ یہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ ضروری ہے کہ حافظ نے واقعے یا اس کے طرق پر کوئی نقد وجرح نہیں کی ہے، بلکہ ان کے ایک بیان( جو آگے آرہا ہے ) سے اشارہ ملتا ہے کہ وہ ان اشعار کے فرزدق کی طرف انتساب اور امام زین العابدین کی مدح میں ہونے کو ترجیح دیتے ہیں ۔
(۵) حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی(وفات : ۱۰۵۲ھ ) نے یہ پورا واقعہ نقل کرکے شاعر کی حیثیت سے فرزدق اور ممدوح کی حیثیت سے امام زین العابدین کو تسلیم کیا ہے ، نیز آپ نے مولانا جامی کی فارسی مثنوی سے ۳۲ ؍ اشعار نقل کیے ہیں جو اس قصیدے کے منظوم فارسی ترجمے پر مشتمل ہیں(۱۸)۔( اس مثنوی کا تذکرہ آگے آرہا ہے )
(۶) امام طبرانی( وفات: ۳۶۰ھ ) نے المعجم الکبیر میں ابو حنیفہ محمد بن حنیفہ الواسطی، یزید بن عمرو بن البراء الغنوی ، سلیمان بن الہیثم کی سند سے یہ واقعہ ذکر کیا ہے ، سلیمان بن الہیثم کا بیان ہے کہ یہ واقعہ فرزدق اور امام حسین کے درمیان پیش آیا، فرزدق ؔ نے یہ اشعار امام حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی شان میں فی البدیہ نظم کیے تھے، المعجم الکبیر میں طبرانی نے قصیدے کے ۹؍ شعر نقل کیے ہیں (۱۹)۔
اس روایت پر تنقید کرتے ہوئے شیخ محقق حضرت عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:
یہ روایت دو وجہوں سے ایک وہم اور خطا معلوم ہوتی ہے ایک تو یہ کہ ائمہ کا اس کے خلاف پراتفاق ہے جیسا کہ ذکر ہوا اور دوسری وجہ جیسا کہ دار قطنی نے روایت کی ہے کہ فرزدق نے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں دیکھا مگر ایک بار مکہ کے راستے میں (۲۰ )۔
حافظ ابن کثیر نے طبرانی کی یہ روایت نقل کرکے مندرجہ ذیل تنقیدکی ہے :
ترجمہ: امام حسین کے تذکرے کے ذیل میں طبرانی نے اسی طرح روایت کیا ہے ، حالانکہ یہ غریب ہے ،اس لیے کہ مشہور یہ ہے کہ یہ اشعار فرزدق نے علی بن حسین کی شان میں کہے ہیں نہ کہ ان کے والد ( امام حسین ) کی شان میں اور یہی زیادہ قرین قیاس ہے۔۔ اس لیے کہ فرزدق نے امام حسین کو صرف اسی وقت دیکھا تھا جب وہ حج کے لیے جارہا تھا اور امام حسین عراق جا رہے تھے،تو حضرت حسین نے فرزدق سے لوگوں کے بارے میں پوچھا تھا ، تو اس نے وہ جواب دیا تھا جو پیچھے گذرا ،پھر اس سے جدائی کے کچھ ہی دن بعد امام حسین شہید کردیے گئے تھے، تو فرزدق نے امام حسین کو کعبے کا طواف کرتے ہوئے کہاں دیکھ لیا؟واللہ اعلم (۲۱)۔
( ۷) ابو تمام( وفات : ۲۳۱ھ ) نے دیوان الحماسہ میں اس قصیدے کے ۵؍ شعر حزین لیثی (کنانی) کے نام سے درج کیے ہیں،مگر ان کا ممدوح عبداللہ بن عبدالملک کی بجائے امام زین العابدین ہی کو قرار دیا ہے۔ان پانچ اشعار میں ایک شعریہ بھی ہے :
یغضی حیاء ویغضی من مہابتہ ۔ فما یکلم الا حین یبتسم
یہ ان دو شعروں میں سے ایک ہے جن کو آمدی اور ابو الفرج وغیرہ نے بھی حزین کی طرف منسوب کیا ہے، جس کاذکر آگے آرہا ہے ۔
دیوان الحماسہ کے مشہور شارح خطیب تبریزی نے شرح میں لکھا ہے کہ ’’کہا جاتا ہے کہ یہ اشعار فرزدق کے ہیں‘‘( ۲۲)۔ اس کے بعد اختصار کے ساتھ صحن کعبہ والا واقعہ نقل کیا ہے ۔
(۸) ابو عبداللہ المصعب الزبیری ( وفات: ۲۳۶ھ ) نے کتاب ’’ نسب قریش ‘‘ میںمندرجہ ذیل دو شعر نقل کیے ہیں:
یغضی حیاء ویغضی من مہابتہ ۔ فما یکلم الا حین یبتسم
فی کفہ خیرزان ریحہا عبق ۔فی کف اروع فی عرنینہ شمم
ان دونوں شعروں کوعبداللہ بن عبدالملک کے تذکرے میں حزینؔ کی طرف منسوب کرکے درج کیا ہے(۲۳)۔
(۹)ابو القاسم الحسن ابن بشیر الآمدی ( وفات: ۳۷۰ھ ) نے’’ المؤتلف والمختلف ‘‘میں ان دونوں شعروں کا انتساب حزینؔ کی طرف کرتے ہوئے ان کو عبداللہ بن عبدالملک کی مدح میںقرار دیا ہے (۲۴)۔
(۱۰) ابن قتیبہ الدینوری ( وفات ۲۷۰ھ یا ۲۷۶ھ ) نے الشعر والشعراء میںیہ دونوں اشعار شاعر کا نام ذکر کیے بغیر نقل کیے ہیں اور ان کو ’’ بعض بنو امیہ ‘‘ کی شان میںقرار دیا ہے (۲۵)۔
(۱۱) ابو الفرج اصفہانی( وفات : ۳۵۶ھ ) نے الاغانی میں یہ دونوں شعرحزین کی طرف منسوب کرکے عبداللہ بن عبدالملک کی مدح میں قرار دیے ہیں۔ساتھ ہی یہ ریمارک بھی دیا ہے :
ترجمہ عبارت:بعض لوگوں نے ان دونوں شعروں کو فرزدق کے ان اشعار کے ذیل میں روایت کیا ہے جو اس نے امام علی بن حسین کی مدح میں نظم کیے تھے جن کا پہلا شعر یہ ہے
ہذاالذی تعرف البطحاء الخ
اور یہ راویوں کی غلطی ہے کیوں کہ یہ دونوں شعر اس پایے کے نہیں ہیں جن سے امام علی بن حسین جیسوں کی مدح کی جائے اس لیے کہ ان کی تو وہ فضیلت ہے جو کسی اور میں نہیں ہے (۲۶)۔
وفیات الاعیان کے حاشیے میں اصفہانی کی اس عبارت سے ڈاکٹراحسان عباس نے یہ نتیجہ نکالاکہ :
فالقصیدۃ صحیحۃ النسبۃ الی فرزدق فی رأی ابی الفرج الا ان البیتین السادس والسابع لیسا منہا (۲۷)
ترجمہ: ابوالفرج کی رائے میں قصیدے کی نسبت فرزدق کی جانب درست ہے سوائے اس کے کہ چھٹا اور ساتواں شعر اس کے قصیدے کے نہیں ہیں ۔
(۱۲) دیوان فرزدق ؔ میں بھی یہ قصیدہ امام زین العابدین کی مدح میں مذکورہ واقعے کے ساتھ درج ہے( ۲۸ )۔
(۱۳)حضرت شیخ محقق کے بقول بعض حضرات نے ان اشعار کی نسبت جریر کی طرف کی ہے، بعض نے کثیر سے منسوب کرکے امام زین العابدین کے صاحبزادے امام محمد باقر کی مدح میں قرار دیا ہے ۔ان دونوں رو ایتوں کے اصل ماخذ تک ہماری رسائی نہیں ہوسکی،ہاںالبتہ شیخ نے ان روایتوں کے بارے میںیہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ ’’ یہ تمام حکایات غلط ہیں ‘‘ (۲۹)۔
ان تمام اقوال وروایات سے مندرجہ ذیل نتائج نکالے جا سکتے ہیں:
الف : محدثین ، مؤرخین اور ادباکی ایک بڑی جماعت( جس میں حافظ ابن کثیر جیسے محتاط مؤرخ اور حضرت شیخ جیسے محقق بھی شامل ہیں)نے قصیدے کے شاعر کی حیثیت سے فرزدق اور ممدوح کی حیثیت سے امام زین العابدین کو تسلیم کرکے اس واقعے کو کثرت سے نقل کیا ہے ۔
ب: امام طبرانی کی جس روایت سے قصیدے کے ممدوح امام حسین قرار پاتے ہیں اس روایت پر حافظ ابن کثیر اور شیخ محقق کی تنقید بر محل اور معقول ہے۔
ج: المصعب زبیری ، آمدی ، ابن قتیبہ اور ابو الفرج اصفہانی نے حزین کی طرف پورا قصیدہ منسوب نہیں کیا بلکہ صرف دو اشعار کا انتساب کیا ہے ، اس سے قصیدے کے باقی اشعار کو فرزدق سے منسوب کرنے پر کوئی اثر نہیں پڑتا، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دو شعرفرزدق کے قصیدے کے نہیں ہیں غلطی سے اس میں درج ہوگئے ہیں، جیسا کہ ابو الفرج اصفہانی کا موقف ہے ۔
د:یہاں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ یہ کوئی احادیث مبارکہ یا حلال وحرام کا معاملہ نہیں ہے جس میں روایت ودرایت کا وہ سخت معیار برتا جائے جو احادیث رسول ﷺ کے ردوقبول میں برتا جاتا ہے ، یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جس کا تعلق تاریخ ادبیات سے بھی ہے ، اگرعام تاریخی واقعات اور ادبی شہ پاروںکے ردو قبول میں بھی روایت ودرایت کا وہی سخت معیار برتا جائے تو تاریخ اور ادب دونوں کا قافیہ تنگ ہوجائے گا ۔
ہ:قصیدے کے متن ،اشعار کی ترتیب اورتعداد میں اختلاف روایت کو اس کے خلاف دلیل نہیں بنایا جاسکتا کیوں کہ ایسا اختلافِ روایت صرف اسی ایک قصیدے میں نہیں ہے بلکہ ادب جاہلی اور ادب اسلامی دونوں کے بہترین شعری اور نثری شہ پاروں میںاس قسم کا اختلاف روایت موجود ہے، جو ماہرین کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہے ۔
قصیدے کا منظوم فارسی ترجمہ
مولانا عبدالرحمن جامی نے اپنی معروف کتاب ’’ سلسلۃ الذہب ‘‘ میںامام زین العابدین اور ہشام بن عبدالملک کے اس پورے واقعے کوبطور مثنوی نظم کیا ہے ،اسی میں انہوںنے قصیدے کے مفہوم کو بڑی عمدگی اور خوبی سے فارسی نظم کے قالب میں ڈھال دیا ہے ۔یہ مثنوی ۸۶؍اشعار پر مشتمل ہے ۔ بطورنمونہ چند اشعار نقل کیے جاتے ہیں :
ناگہاں نخبۂ نبی و ولی
زین عباد بن حسین علی
در کسائے بہائے حلہ نور
بر حریم حرم فگند ظہور
برطرف می گذشت بہر طواف
در صف خلق می فتاد شگاف
زد قدم بہر استلام حجر
گشت خالی ز خلق راہ گذر
شامی ٔ کرد از ہشام سوال
کیست ایں با چنیں جلال وجمال
ازجہالت درآں تعلل کرد
در شناسائیش تجاہل کرد
گفت نہ شناسمش نہ دانم کیست
مدنی یا یمانی یا مکی است
بو فراس آں سخن ورِ نادر
بود در جمعِ شامیاں حاضر
گفت من می شناسمش نیکو
زو چہ پرسی بسوئے من کن رو
آں کس است ایں کہ مکہ وبطحا
زم زم و بوقبیس وخیف ومنیٰ
حرم وحل وبیت ورکن وحطیم
ناو دان ومقام ابراہیم
مروہ ، مسعی ٰ ، صفا، حجر ، عرفات
طیبہ ، کوفہ و کربلا و فرات
ہر یک آمد بقدر او عارف
بر علو مقام او واقف(۳۰)
شرح قصیدہ میمیہ از مولانا جمیل احمد بلگرامی
اس قصیدے کی شہرت ومقبولیت کے پیش نظر خیال ہے کہ علما وادبا نے اس کی شروح اور دیگر زبانوں میں اس کے ترجمے ضرور کیے ہوں گے ،لیکن تلاش وجستجو کے باوجود راقم الحروف کی ان تک رسائی نہ ہوسکی،اس قصیدے کی صرف ایک فارسی شرح راقم کی دسترس میںآسکی ، جس کا ایک نایاب قدیم نسخہ کتب خانہ قادریہ بدایوں میں محفوظ ہے،اس کتاب کا نام ’’ درر نضید شرح قصیدہ فرزدق تمیمی ‘‘ ہے، اس کے مصنف انیسویں صدی کے ایک عالم مولانا جمیل احمد بلگرامی ہیں، کتاب ۱۱۲؍ صفحات پر مشتمل ہے ، مولانا سید عبداللہ بلگرامی کی تصحیح اور تحشیہ کے ساتھ یہ کتاب ۱۸۷۳ء میں مطبع نول کشور کانپور سے شائع ہوئی ہے ،کتاب پرمولانا سید حسن احمد بلگرامی کی ۵؍ صفحات پر مشتمل فارسی میں طویل تقریظ ہے ،مولانا محمد اعلم بلگرامی نے عربی میں تقریظ ارقام فرمائی ہے،مزید یہ کہ انہوں نے ’’ مثنوی تاریخ ‘‘ کے عنوان سے ۱۷؍ اشعار پر مشتمل فارسی میں منظوم تقریظ بھی رقم کی ہے ۔
قصیدے کے مفردات کے معانی سمجھنے اور اشعار کے مفاہیم تک رسائی حاصل کرنے کے لیے یہ ایک مفید اور عمدہ شرح ہے ، مگر مصنف کا اسلوب ذرا گنجلک اور فارسی نثر قدرے مشکل ہے ، اس لیے فارسی کی متوسط صلاحیت رکھنے والے کو اس شرح کو سمجھنے کے لیے مزید ایک اور شرح کی ضرورت ہے۔
مصنف کا طریقہ یہ ہے کہ شعر نقل کرنے کے بعد پہلے وہ’’ تقطیع ‘‘ کے عنوان سے شعر کی عروضی حیثیت واضح کرتے ہیں، پھر مفردات کی لفظی اور معنوی تشریح کرتے ہیں۔پھر ’’ نحو ‘‘ کا عنوان دے کر شعر کی ترکیب نحوی کی طرف اشارہ کرتے ہیں ،اس کے بعد’’ معنی‘‘ کے عنوان سے شعر کا عمومی معنی ومفہوم بیان کرتے ہیں۔سب سے آخر میں’’ مزایا‘‘ کا عنوان دے کر شعر میں موجود بعض وجوہ بلاغت اور نحوی صرفی لطائف کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
ہم نے اوپر لکھا تھا کہ اس قصیدے کی کسی شرح یا ترجمے تک ہماری رسائی نہیں ہوسکی،مولانا جمیل احمد بلگرامی نے بھی مقدمہ ٔ کتاب میںتقریباً یہی بات لکھی ہے کہ:
’’ قصیدے کے ان تمام فضائل کے باوجود اس کی کوئی شرح دیکھنے سننے میں نہیں آئی اور نہ ہی کسی تذکرے اور تاریخ میں اس کا کوئی ذکر دیکھا گیا ، حالانکہ گمان غالب یہی ہے کہ لوگوںنے اس بیش بہا نگینے کو بغیر انگوٹھی کے نہ چھوڑا ہوگا‘‘(۳۱ )۔
قصیدے کے بعض دیگر پہلو
عروضی حیثیت سے یہ قصیدہ بحر بسیط میں ہے،عربی قصیدے کے جو عناصر ترکیبی ہیں یعنی تشبیب ، گریز، دعا وغیرہ وہ اس میں نہیں ہیں کیوں کہ یہ ایک خاص موقع پر برجستہ کہا گیا تھا اور اس وقت صرف مدح مقصود تھی اس لیے اس میں تشبیب وغیرہ نظم نہیں کی گئی ، ایسے قصیدوں کو اصطلاح میں ’’مقتضب ‘‘ کہتے ہیں ۔
ہم نے پیچھے ذکر کیا تھا کہ جن حضرات نے قصیدہ نقل کیا ہے ان کی نقل میں اشعار کی تعداد اورترتیب دونوں میں اختلاف ہے، یافعی نے مرآۃ الجنان میں ۲۵؍ ابن خلکان نے وفیات الاعیان میں ۲۷؍اور ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں ۲۸؍اشعار درج کیے ہیں،جب کہ دیوان فرزدق میں ۲۷؍اور مولانا جمیل احمد بلگرمی کی شرح ’’ درر نضید ‘‘ میں ۲۹؍ اشعار ہیں۔ہم ترجمے کے ذیل میں اس اختلاف کی طرف اشارہ کریں گے ۔
ان تمام کتابوں میںوارد اشعار کویک جا کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قصیدے کے اشعار مرویہ کی مجموعی تعداد ۳۰؍ہے،جیسا کہ ذکر ہو ا کہ سب سے زیادہ( ۲۹؍) اشعار’’درر نضید‘‘ میں ہیںلہٰذا ہم اسی کو اصل بنا کر اس میں درج کردہ متن اور ترتیب کے مطابق یہاں قصیدہ درج کررہے ہیں۔مختلف کتب میں منقول قصیدے کے متن میں بھی بعض جگہ اختلاف ہے مگر یہ اختلاف صرف چند اشعار کے چند الفاظ میں ہے اور یہ اختلاف بھی اکثر جگہ ہم معنی الفاظ کی حدتک ہے اس سے شعر کے عمومی معنی ومفہو م پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ۔لہٰذاہم نے اس کا اظہار ضروری نہیں سمجھاکہ یہ مضمون اس ’’ تحقیقی طوالت‘‘کا متحمل نہیں ہے ۔
ماہرین کے نزدیک یہ قصیدہ عربی شاعری کا اعلیٰ نمونہ ہے ،معانی وبیان کی وہ خوبیاں جو کسی نگارش کو فنی شہ پارے کی حیثیت عطا کردیتی ہیں وہ تمام اس میںبدرجہ اتم موجود ہیں۔ اصول تحقیق کا تقاضا ہے کہ ترجمے کے ذیل میں ان وجوہ بلاغت اور اسرار معانی کی طرف بھی اشارہ کیا جائے، مگریہ طول عمل بھی ہے اور ایک اردو داں قاری کے لیے غیر ضروری بھی اس لیے ہم اس سے صرف نظر کر رہے ہیں۔
قصیدۂ میمیہ کا متن مع ترجمہ
( ۱)ہٰذَا الَّذِیْ تَعْرِفُ الْبَطْحَائُ وَطْأَتَہٗوَالْبَیْتُ یَعْرِفُہٗ وَالْحِلُّ وَالْحَرَمُ
یہ وہ مقدس شخصیت ہے کہ جس کے نقش قدم کو وادیٔ بطحا (یعنی مکہ مکرمہ ) پہچانتی ہے ، اور بیت اللہ ( یعنی کعبہ ) اور حل وحرم سب ان کو جانتے پہچانتے ہیں۔
( ۲)ہٰذَا ابْنُ خَیْرِ عِبَادِ اللّٰہِ کُلِّہِمٖ ہٰذَاالتَّقِیُّ النَّقِیُّ الطَّاہِرُ الْعَلَمُ
یہ تو اس ذات گرامی کے لخت جگر ہیں جو اللہ کے تمام بندوں میں سب سے بہتر ہیں ( یعنی حضور اکرم ﷺ ) یہ پرہیز گار، تقویٰ والے، پاکیزہ ، صاف ستھرے اور قوم ( قریش )کے سردار ہیں ۔
( ۳)اِذا رَأتْہٗ قُرَیْشٌ قَالَ قَائِلُہا اِلٰی مَکارِمِ ہٰذَا یَنْتَہِی الْکَرَمُ
جب ان کو قبیلہ ٔ قریش کے لوگ دیکھتے ہیں تو ان کو دیکھ کر کہنے والا یہی کہتاہے کہ ان کی بزرگی وجواں مردی پر بزرگی وجواں مردی ختم ہے ۔
( ۴)یَنْمِیْ اِلٰی ذِرْوَۃِ الْعِزِّ الَّذِیْ قَصُرَتْ عَنْ نَیْلِہٖ عَرَبُ الْاِسْلامِ وَالْعَجَمُ
ترجمہ: یہ عزت وبزرگی کے اس اوج کمال پر فائز ہیں جس کے حصول سے اسلام کے عرب وعجم قاصر ہیں۔
( ۵)یَکَادُ یُمْسِکُہٗ عِرْفَانَ رَاحَتِہٖرُکْنُ الْحَطِیْمِ اِذَا مَاجَائَ یَسْتَلِمُ
ترجمہ:جب وہ حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے آتے ہیں توایسا لگتا ہے کہ حجر اسود ان کی خوشبو پہچان کر ان کا ہاتھ پکڑ لے گا ۔
( ۶)فِیْ کَفِّہٖ خِیْزُرَانٌ رِیْحُہٗ عَبِقٗ فِیْ کَفِّ اَرْوَعَ فِیْ عِرْنِیْنِہٖ شَمَمُ
ترجمہ: ان کے دست مبارک میں ایک عصا ہے جو عمدہ خوشبو والا ہے ،یہ عصا ایسے عمدہ اور بہترین شخص کے ہاتھ میںہے جو بلند ناک والا ہے ( یعنی عزت وشرف والا ہے)
( ۷)یَغْضِیْ حَیَائً وَیُغْضیٰ مِنْ مَہَابَتِہٖ فَمَا یُکَلَّمُ اِلَّا حِیْنَ یَبْتَسِمُ
ترجمہ: وہ شرم وحیا سے نگاہیں نیچی رکھتے ہیں، اور ان کے رعب و ہیبت سے دوسروں کی نگاہیں نیچی رہتی ہیں، اس لیے ان سے اسی وقت گفتگوکی جاسکتی ہے جب وہ تبسم فرمارہے ہوں ۔
( ۸)یَنْشَقُّ نُوْرُ الْہُدیٰ مِنْ نُوْرِ غُرَّتِہٖ کَالشَّمْسِ یَنْجَابُ عَنْ اِشْرَاقِہَا الظُّلَمُ
ترجمہ: ان کی روشن ومنور پیشانی سے ہدایت کا نورپھوٹ رہا ہے ،جیسے تاریکیاں سورج کے نور سے چھٹ جاتی ہیں ۔
( ۹)مَنْ جَدُّہٗ دَانَ فَضْلُ الْاَنْبِیَائِ لَہٗ وَفَضْلُ اُمَّتِہٖ دَانَتْ لَہٗ الْاُمَمُ
ترجمہ: یہ وہ ذات گرامی ہے کہ جن کے جد محترم ( حضور اکرم ﷺ )کے سامنے تمام انبیائے کرام کی فضیلتیں سر نگوں ہیں( یعنی وہ تمام انبیائے کرام سے افضل ہیں)اورتمام امتوں کی بزرگی اور فضیلت ان کی امت کے آگے سر خم کیے ہوئے ہے۔( یعنی ان کی امت تمام امتوں سے افضل ہے )مرآۃ الجنان اور وفیات الاعیان دونوں میں یہ شعر نہیں ہے ۔
( ۱۰)مُنْشَقَّۃٌ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ نَبْعَتُہٗ طَابَتْ عَنَاصِرُہٗ وَالْخِیْمُ وَالشِّیَمُ
ترجمہ:آپ کی اصل اور نمود رسول اکرم ﷺ سے ہے، آپ کے عناصر اور طبیعت وعادت سب عمدہ اور پاکیزہ ہیں۔
(۱۱ )ہٰذَا ابْنُ فَاطِمَۃٍ اِنْ کُنْتَ جَاہِلَہٗ بِجَدَّہٖ اَنْبِیائُ اللّٰہِ قَدْ خُتِمُوا
ترجمہ: یہ خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) کے لخت جگر ہیں، اگر تو ان کو نہیں جانتا ( تو سن لے کہ ) ان کے محترم نانا ( حضور اکرم ﷺ ) پرانبیائے کرام کے سلسلے کا اختتام ہواہے ۔
( ۱۲)اَللّٰہُ شَرَّفَہٗ قِدْماً وَعَظَّمَہٗ جَرَیٰ بِذاکَ لَہٗ فِیْ لَوْحِہٖ الْقَلَمُ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے قدیم زمانے سے ان کو شرف وعظمت عطا فرمائی، اوران کے لیے اسی شرف وعظمت کے واسطے اس کی لوح محفوظ میںقلم چل چکا ہے ۔( یعنی شرف وعظمت ان کا مقدر کی جاچکی ہے) ۔
( ۱۳)اَللّیْثُ اَہْوَنُ مِنْہٗ حِیْنَ تُغْضِبُہٗ وَالْمَوْتُ اَیْسَرُ مِنْہٗ حِیْنَ یُہْتَضَمُ
ترجمہ: اگر تم ان کو غصہ دلادو تو پھر( ان کے غصے کے مقابلے ) شیر کا غصہ بھی ہلکا ہے ،اور اگر ان پر ظلم وستم کردیا جائے تو( اس ظلم وستم کی سزا اور بدلے کے مقابلے میں ) موت بھی آسان ہے ۔
دیوان فرزدق،البدایہ والنہایہ ،مرآۃ الجنان اور وفیات الاعیان چاروں میں یہ شعر نہیں ہے ۔
( ۱۴)فَلَیْسَ قَوْلُکَ مَنْ ہٰذَا بِضَائِرِہٖ اَلْعُرْبُ تَعْرِفُ مَنْ اَنْکَرْتَ وَالْعَجَمُ
ترجمہ: تمہارا یہ کہنا کہ ’’ یہ کون ہیں ؟ ‘‘ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا ،جس ذات گرامی ( کو پہچاننے) سے توانکار کررہاہے ان کو تو عرب وعجم سب جانتے ہیں۔
( ۱۵)کِلْتَا یَدَیْہٖ غِیَاثٌ عَمَّ نَفْعُہُمَا تُسْتَوْکِفَانِ وَلَا یَعْرُوْہُمَا عَدَمُ
ترجمہ: ان کے دونوں ہاتھ ایسے فریاد رس اور بخشنے والے ہیں کہ ان کا نفع عام ہے ،ان ہاتھوں سے مسلسل خیرات تقسیم کی جاتی ہے ( اس کے باوجودبھی)اس میں کوئی کمی نہیں آتی ۔
( ۱۶)سَہْلُ الْخَلِیْقَۃِ لَا تُخْشیٰ بَوَادِرُہٗ یَزِیْنُہٗ اثْنَانِ حُسْنُ الْخَلْقِ وَالشِّیَمُ
ترجمہ: وہ نرم خو ہیں ان کی تیز ی( جلد غصہ ہونے ) سے خوف نہیں کیا جاتا، وہ دونوں خوبیوںسے آراستہ ہیںحسن صورت اور ( عمدہ )عادات۔
( ۱۷)حَمَّالُ اَثْقَالِ اَقْوَامٍ اِذَا فُدِحُوْا حُلْوُ الشَّمَائِلِ تَحْلُوْا عِنْدَہٗ نِعَمُ
ترجمہ: جب لوگ ( قرض سے ) گراں بار ہوجائیںتووہ لوگوں کا بار اٹھانے والے ہیں ،ایسے شیریں خصلت والے ہیں کہ ان کا احسان بھی شیریں ہوجاتا ہے ۔
( ۱۸)مَا قَالَ لَا قَطُّ اِلّا فِیْ تَشَہُّدِہٖ لَوْلَا التَّشَہُّدُ کَانَتْ لَائُ ہٗ نَعَمُ
ترجمہ: آ پ نے تشہد میں ’’ اشہد ان لا الٰہ الا اللہ ‘‘کہنے کے علاوہ کبھی ’’ لا ‘‘ ( نہیں ) نہیں فرمایا،اگر تشہد نہ ہوتا تو آپ کا یہ لا ( نہیں ) بھی ’’ نعم ‘‘ ( ہاں ) ہوتا۔یعنی کسی مانگنے والے کے جواب میں آپ کی زبان سے کبھی’’ نہیں‘‘ نہ نکلا ۔
( ۱۹)لَا یُخْلِفُ الْوَعْدَ مَیْمُوْنٌ نَقِیْبَتُہٗ رَحْبُ الْفِنَا ئِ اَرِیْبٌ حِیْنَ یَعْتَزِمُ
ترجمہ: کبھی وعدہ خلافی نہ کرنے والے ،مبارک نفس والے، وسیع صحن والے، اور جب ٹھان لیتے ہیں تو کر گذرنے والے ہیں۔یہ شعر دیوان میں نہیں ہے ۔
( ۲۰)عَمَّ الْبَرِیّۃَ بِالْاِحْسَانِ فَانْقَشَعَتْعَنْہَا الْعِنَایَۃُ وَالْاِمْلَاقُ وَالْعَدَمُ
ترجمہ: ان کا جود ونوال تمام خلائق کے لیے عام ہے ،اس لیے اس ( مخلوق)کے رنج وغم ، مفلسی اور تنگ دستی دور ہوگئی ۔
( ۲۱)مِنْ مَعْشَرٍ حُبُّہُمْ دِیْنٌ وَبُغْضُہُمُ کُفْرٌ وَقُرْبُہُمُ مَنْجَیً وَمُعْتَصَمُ
ترجمہ: وہ تو اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں کہ جن کی محبت عین ایمان ہے ، اور ان سے بغض کفر ہے ، اور ان کاقرب جائے پناہ اورسہارا ہے ۔
( ۲۲)اِنْ عُدَّ اَہْلُ الُّتقیٰ کَانُوا اَئِمَّتَہُمْ اَوْ قِیْلَ مَنْ خَیْرُ اَہْلِ الْاَرْضِ قِیْلَ ہُمُ
ترجمہ: یہ تو ان لوگوں میں سے ہیں کہ اگر پرہیز گاروں کو شمار کیا جائے تو یہ حضرات پرہیزگاروں کے امام ہوں گے ،یا اگر یہ پوچھا جائے کہ زمین میں سب سے بہتر کون لوگ ہیں؟ تو جواب میں کہا جائے گا کہ یہی ( اہل بیت ) ہیں۔
( ۲۳)لَا یَسْتَطِیْعُ جَوَادٌ بُعْدَ غَایَتِہِمْ وَلَا یُدَانِیْہِمُ قَوْمٌ وَاِنْ کَرُمُوْا
ترجمہ: کوئی جواں مرد اور سخی ان کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا ،اور نہ کوئی قوم ان کے قریب پہنچ سکتی ہے اگرچہ کتنی ہی بزرگی والی کیوں نہ ہو۔
( ۲۴)ہُمُ الْغُیُوْثُ اِذَا مَا اَزْمَۃٌ اَزَمَتْ وَالْاُسْدُ اُسْدُالثَّرَیٰ وَالْبَاْسُ مُحْتَدِمُ
ترجمہ:جب سخت قحط لوگوں کو گھیر لے تو یہ حضرات ابر باراں ہیں ، اور جب معرکۂ کارزار گرم ہو تو یہ حضرات‘‘ ثریٰ‘‘ کے شیروں کی طرح شیر ہیں۔
(عرب میں کوہ سلمیٰ کے ایک علاقے کا نام ثریٰ ہے جہاں شیر بکثرت ہوتے تھے)
( ۲۵)لاَ یَنْقُصُ الْعُسْرُ بَسْطاً مِنْ اَکُفِّہِمٖ سِیَّانِ ذٰلِکَ اِنْ اَثَرُوْا وَاِنْ عَدِمُوْا
ترجمہ: تنگ دستی اور سختی ان کی جود وسخا کو کم نہیں کرتی ،مال کا ہونا یا نہ ہونا ان کے لیے برابر ہے (یعنی ان کے پاس مال ہو یا نہ ہو اس سے ان کے سخاوت پر کوئی فرق نہیں پڑتا)
یہ شعر مرآۃ الجنان میں نہیں ہے۔
( ۲۶)مُقَدَّمٌ بَعْدَ ذِکْرِ اللّٰہِ ذِکْرُہُمُ فِیْ کُلِّ بَدْئٍ وَمَخْتُوْمٌ بِہٖ الْکَلِمُ
ترجمہ: اللہ کے ذکر کے بعد انہی کاذکر سب سے مقدم ہے ،اسی کے ذریعے آغاز ہوتا ہے اور اسی پر گفتگو ختم ہوتی ہے ۔
( ۲۷)یَأ بَیٰ لَہُمْ اَن یَّحُلَّ الذَّمُّ سَاحَتَہُمْ خِیْمٌ کَرِیْمٌ وَاَیْدِی بِالنَّدَیٰ ہُضُمُ
ترجمہ: کوئی برائی ان کے دربار تک نہیں آسکتی،یہ نیک خو ہیں، ان کے ہاتھ عطا کرنے والے ہیں۔یہ شعر دیوان میں نہیں ہے۔
( ۲۸)اَیُّ الْخَلَائِقِ لَیْسَتْ فِیْ رِقَابِہِمٖ لِاَوَّلِیِّۃِ ہٰذَا اَوْ لَہٗ نِعَمُ
ترجمہ: مخلوق میں وہ کون ہے جو ان کی غلامی میں نہیں ہے ،ان کی اولیت وتقدم کی وجہ سے یاپھر ان کے احسانات کی وجہ سے۔یہ شعر مرآۃ الجنان میں نہیں ہے۔
( ۲۹)مَنْ یَعْرِفِ اللّٰہَ یَعْرِفْ اَوَّلِیَّۃَ ذَا وَالدِّیْنَ مِنْ بَیْتِ ہٰذَا نَالَہٗ الْاُمَمُ
ترجمہ: جو شخص اللہ کو جانتا ہے وہ ان کی اولیت اور تقدیم کو بھی جانتا ہے ، اور تمام لوگوں کو دین ان کے گھر سے ہی ملا ہے ۔
( ۳۰)یُسْتَدْفَعُ الشَّرُّ وَالْبَلْوَی بِحُبِّہِم وَیَسْتَزِیْدُ بِہٖ الاحْسَانُ وَالْکَرَمُ
ترجمہ:ان کی محبت کے وسیلے سے مصیبتیں اور آفتیں دور کی جاتیں ہیں، اور ان کے ذریعے احسان وکرم میں اضافہ ہوتا ہے ۔یہ شعر دیوان اور البدایہ والنہایہ سے اضافہ کیا گیا ہے ، درر نضید، وفیات الاعیان اور مرآۃ الجنان وغیرہ میں نہیں ہے ۔
مراجع ومصادر
(۱) موسوعۃ آل بیت النبی الاطہار : صلاح الدین محمود السعید،ص ۴۲۶، دارالغد الجدید قاہرہ ۲۰۱۱ء ۔
(۲)تذکرۃ الحفاظ: شمس الدین ذہبی ،ج۱/ ص ۶۴، دائرۃ المعارف النظامیہ حیدرآباد دکن ۱۳۰۹ھ
(۳)مرجع سابق
(۴) مرجع سابق
(۵) تاریخ ادبیات عربی : سید ابو الفضل ، ص ۱۰۳، انجمن فیضان ادب حیدرآباد دکن، طبع یازدہم ۲۰۰۹ئ۔
(۶) تاریخ ادب عربی: احمد حسن زیات، ترجمہ سید طفیل احمد مدنی ، ص ۱۴۷، الٰہ آباد۱۹۸۵ئ۔
(۷)تاریخ ادبیات عربی : سید ابو الفضل ، ص ۱۰۲، انجمن فیضان ادب حیدرآباد دکن، طبع یازدہم ۲۰۰۹ئ۔
(۸) وفیات الاعیان : ابن خلکان ، ج ۶/ص ۹۷،دار صادر بیروت ۱۹۷۷ء
(۹) مرجع سابق :ص ۹۵۔
(۱۰)مرآۃ الجنان :الیافعی ،ج ۱ /ص۲۳۹، دائرۃ المعارف النظامیہ حیدرآباددکن، ۱۳۳۷ھ۔
(۱۱) احوال ائمہ ٔ اثنا عشر : شیخ عبدالحق محدث دہلوی، ص ۳۹، مرتب وناشر خسرو قاسم ، علی گڑھ، غیر مؤرخ۔
پروفیسر خلیق احمد نظامی نے حضرت شیخ کی اس کتاب کا ذکر ’’ حیات شیخ عبدالحق محدث دہلوی ‘‘ میں کیا ہے ، اس کا مخطوطہ خدا بخش لائبریری پٹنہ میں تھا ، وہاں سے محترم خسرو قاسم علیگ نے حاصل کیا اور ترجمہ وترتیب کے ساتھ کچھ برس قبل علی گڑھ سے شایع کیا ۔
(۱۲)مرجع سابق
(۱۳)عمرو بن عبید بن وہب بن مالک ابو الحکم ،شعرائے بنو امیہ میں تھا ، ۹۰؍ ہجری میں وفات ہوئی۔
(۱۴) حلیۃ الاولیا : ابو نعیم اصفہانی ، ج ۳ / ص ۱۳۹ ، دارالفکر بیروت ۱۹۹۶ء ۔
(۱۵)وفیات الاعیان : ابن خلکان، تحقیق ڈاکٹر احسان عباس ، ج۶/ ص ۹۵،۹۶، دار صادر بیروت ۱۹۷۷ئ۔
(۱۶) مرآۃ الجنان :الیافعی ،ج ۱ /ص۲۳۹،تا ۲۴۱، دائرۃ المعارف النظامیہ حیدرآباد ،۱۳۳۷ھ۔
(۱۷)البدایہ والنہایہ : ابن کثیر دمشقی ،ج۱۲/ ص ۴۹۱ ، تا ۴۹۴( سنہ ۹۴ھ کے وقائع کے ذیل میں) دار ہجر جیزہ ، مصر ۱۹۹۸، تحقیق ڈاکٹر عبداللہ بن المحسن الترکی ۔
(۱۸)احوال ائمہ ٔ اثنا عشر : شیخ عبدالحق محدث دہلوی، ص ۴۰،۴۱، مرتب وناشر خسرو قاسم ، علی گڑھ، غیر مؤرخ۔
(۱۹) المعجم الکبیر : الطبرانی ، ج۳/ ص ۱۰۶،۱۰۷، مکتبہ ابن تیمیہ قاہرہ،تحقیق حمدی عبد المجید سلفی ۔
(۲۰) احوال ائمہ ٔ اثنا عشر : شیخ عبدالحق محدث دہلوی، ص ۳۹، مرتب وناشر خسرو قاسم ، علی گڑھ، غیر مؤرخ۔
(۲۱) البدایہ والنہایہ : ابن کثیر دمشقی ،ج ۱۱/ ۵۹۲،دار ہجر جیزہ ، مصر ۱۹۹۸، تحقیق ڈاکٹر عبداللہ بن المحسن الترکی ۔
(۲۲)شرح دیوان الحماسہ : خطیب تبریزی ، ج۴/ ص ۸۲،مطبع بولاق مصر ۶ ۹ ۲ ۱ ھ ۔
(۲۳) نسب قریش: المصعب الزبیری، ص ۱۶۴، دارالمعارف قاہرہ، طبع ثانی، غیر مؤرخ۔
(۲۴) الموتلف والمختلف:الآمدی، ص ۱۱۱،دارالجیل بیروت، ۱۹۹۱ء تحقیق ڈاکٹر ف۔کرنکو۔
(۲۵)الشعر والشعراء :ابن قتیبہ الدینوری،۶۴/۶۵،دارالمعارف قاہرہ ،طبع ثانی، تحقیق احمد محمد شاکر۔
(۲۶)الاغانی : ابو الفرج اصفہانی ،ج ۱۴/ ص ۷۵، مطبعۃ التقدم قاہرہ، غیر مؤرخ ۔
(۲۷)حاشیہ وفیات الاعیان : ابن خلکان، تحقیق ڈاکٹر احسان عباس ، ج۶/ ص ۹۵، دار صادر بیروت ۱۹۷۷ئ۔
(۲۸)دیوان فرزدق مشمولہ مجموعہ خمسہ دواوین: المطبعۃ الوہبیۃ قاہرہ، ۱۲۹۳ھ۔
(۲۹) احوال ائمہ ٔ اثنا عشر : شیخ عبدالحق محدث دہلوی، ص ۴۲، مرتب وناشر خسرو قاسم ، علی گڑھ، غیر مؤرخ ۔
(۳۰) سلسلۃ الذہب بر حاشیہ نفحات الانس: ص۲۹۴/ ۲۹۵، مطبع نول کشور کانپور، ۱۸۷۴ئ۔
(۳۱) مفہوم عبارت :درر نضید ص۴، مطبع نول کشور کانپور ،۱۸۷۳ئ۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.