You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حضرت سیدنا علقمہ بن مرثد رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:حضرت سیدنا ربیع بن خثیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت بلند مرتبہ بزرگ تھے۔ جب ان کو فالج کا مرض لاحق ہوا تو ان سے کہا گیا: حضور: اگر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ چاہیں تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا علاج کیا جاسکتا ہے۔یہ سن کر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: بیشک علاج حق ہے ، لیکن عاد وثمود کیسی بڑی بڑی قومیں تھیں، ان میں بڑے بڑے ماہر طبیب تھے ، اور ان میں بیماریاں بھی تھیں، ا ب نہ تو وہ طبیب باقی رہے نہ ہی مریض۔ اسی طرح جب آ پ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے یہ پوچھا جاتا : آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ لوگو ں کو وعظ ونصیحت کیوں نہیں کرتے؟ توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ جو اباً ارشاد فرماتے: ـابھی تو مجھے خود اپنی اصلاح کی ضرورت ہے ،پھر میں لوگوں کو کیسے نصیحت کروں؟انہیں کیسے ان کے گناہوں پر ملامت کروں؟ بے شک لوگ اللہ عزوجل سے دو سرو ں کے گناہوں کے بارے میں تو ڈرتے ہیں لیکن اپنے گناہوں کے بارے میں اس سے بے خوف ہیں ۔
جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا جاتا: آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے صبح کس حال میں کی؟تو ارشاد فرماتے: ہم نے صبح اس حال میں کی کہ اپنے آپ کو کمزور اور گناہ گار پایا، ہم اپنے حصے کا رزق کھاتے ہیں اور اپنی موت کے انتظار میں ہیں ۔
حضرت سیدنا علقمہ بن مرثد رحمۃاللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں: جب حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سیدنا ربیع بن خثیم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو دیکھتے تو سورہ حج کی آیت مبارکہ کایہ حصہ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ تلاوت کرتے اور فرماتے: اے ربیع رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ! اگر تجھے حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم دیکھتے تو تجھ سے بہت خوش ہوتے۔
حضرت سیدنا ربیع بن خثیم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اکثر اپنے آپ کومخاطب کرکے فرمایا کرتے: اے ربیع! اپنا زاد راہ باندھ لے اور سفرِآخرت کی خوب تیار ی کرلے، اور سب سے پہلے اپنی اصلاح کراور اپنے نفس کو خوب نصیحت کر۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.