You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
مولانا حکیم سید محمود احمد برکاتی علماۓ دیوبند کے نیاز مند اور شاہ اسماعیل دہلوی کے ادارت مندوں میں سے ہیں۔وہ اپنی ایک کتاب "فضل حق خیرآبادی اور سن ستاون" میں منشی محمد جعفر تھانسیری کی زبانی ان کی کتاب "سوانح احمدی" کے جوالے سے لکھتے ہیں کہ
مولانا فضل حق خیرآبادی نے کتاب تقویۃ الایمان(مصنفہ مولوی اسماعیل دہلوی) کی اس عبارت، کہ اللہ تعالی چاہے تو کروڑوں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا کر ڈالے ، پر گرفت کی تو"اس کے جواب میں مولانا اسماعیل دہلوی نے ایک فتوی بدلائل عقلی و نقلی مدلل لکھا ہے ۔۔ اس کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کس خوبی سے آپ(مولوی اسماعیل) نے مخالفوں(فضل حق خیرآبادی) کا منہ بند کیا ہے "
اس پر حکیم برکاتی صاحب یوں تبصرہ فرماتے ہیں :
مخالفین کا منہ تو بند نہیں ہوا ،دین میں جو فتنہ پیدا ہو گيا اور قلب امت میں قادیانیت کا جو ناصور پیدا ہو گيا ، اس کا علاج نظر نہیں آتا ۔
(فضل حق خیرآبادی اور سن ستاون ص 111، مطبوعہ برکات اکیڈمی 298 ،اے لیاقت آباد کراچی، مئی 1987ء)
حکیم سید محمود احمد برکاتی مزید لکھتے ہیں:
"شاہ اسماعیل کی اس تحریر پر مولانا فضل حق خیرآبادی نے یہ اعتراض کیا تھا کہ نظیر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امکان تسلیم کرلینے سے ختم نبوت کا انکار لازم آتا ہے ، مگر شاہ اسماعیل صاحب کو اپنی بات پر اصرار رہا اور پھر ان کی حمایت میں مولوی حیدر علی رام پوری نے ان سے بھی بڑھ کر بات کہی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ممکن ہے ان (ہمارے) ارض و سما کے خاتم النبیین ہوں اور وہ مفروض (فرض نبی)مثیل خاتم النبیین (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثل خاتم) کسی دوسرے ارض و سما اور کسی اور دنیا کے خاتم النبیین ہو(صیانۃ الناس من وسوسۃ الخناس بحوالہ امتناع النظیر ص156)"
(فضل حق خیرآبادی اور سن ستاون ص 112، مطبوعہ برکات اکیڈمی 298 ،اے لیاقت آباد کراچی، مئی 1987ء)
آگے برکاتی صاحب رقم طراز ہیں
"ان حضرات نے اثر ابن عباس سے استدلال کیا جو ایک موضوع روایت اور از قبیل اسرائیلیات ہے ۔ اس روایت میں سات زمینوں کے وجود اور ان ساتوں زمینوں میں ہماری زمین کے انبیاء اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح الگ الگ ہر زمین میں دوسرے انبیاء اور خاتم النبیین کا ذکر ہے ،گویا اس طرح یہ حضرات امکان نظیر کے اثبات کی دُھن میں سات زمینوں کے سات خاتم النبیین ثابت کرنے پر تُل گۓ اور اس طرح نادانستہ ہی انکار ختم نبوت کی راہ ہموار ہوئی اور مرزا غلام احمد قادیانی کو یہ جرات ہوئی کہ وہ نبوت کا ادعا(دعوی) کرے، چنانچہ مرزا کے خلیفہ مرزا بشیر احمد نے مولانا قاسم نانوتوی دیوبندی کے رسالہ تحذیر الناس کی (جو اثر ابن عباس کی صحت کے حق میں ہے ) ایک عبارت نقل کر کے لکھا ہے :
"اہل بصیرت کے نزدیک اس شہادت کو خاص وزن حاصل ہونا چاہیے – یہ شہادت مدرسۃ العلوم کے نامور بانی حضرت مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کی ہے(ختم نبوت کی حقیقت ص 154، طبع کراچی)"
(فضل حق خیرآبادی اور سن ستاون ص 112، 113 ،مطبوعہ برکات اکیڈمی 298 ،اے لیاقت آباد کراچی، مئی 1987ء)
حکیم صاحب حاشیہ میں لکھتے ہیں "مولانا محمد قاسم نے 1873ء میں رسالہ تحذیرالناس لکھا اور 1880ء میں مرزا نے ملھم(الہام کرنے والا) اور مجدد ہونے کا دعوی کیا ہے"
(حاشیہ ص112) ۔ حکیم صاحب نے اس موضوع کا اختتام اس فکرانگیز عبارت پر کیا ہے۔ لکھتے ہیں
"مختصر یہ ہے کہ شاہ اسماعیل کے غیر محتاطانداز بیان اور ایک خاص گروہ کے علماء کی طرف سے ان کی بےجا اور ناحق حمایت نے ایک ایسے فتنے کو سر اٹھانے اور پنپنےکا موقع دیا جو 95 سال سے امت کے لیۓ درد سر بلکہ درد جگر بنا ہوا ہے ۔ مولانا فضل حق کی فراست نے بر محل اس فتنے کا سد باب کرنا چاہا تھا اور شاہ اسماعیل کی کتاب پر بروقت تنقید کی تھی "(ایضا ص113)
گھر کی اس بوجھل شہادت کے بعد مزید کسی تبصرے کی ضرورت ہی نہیں۔ اس سے قبل بھی حکیم سید محمود احمد برکاتی صاحب نے "مولانا فضل حق خیرآبادی کی زندگی کے سلسلے میں چند اغلاط کی تصحیح" کے عنوان کے تحت لکھا ہے :
"مولانا فضل حق کا جرم یہ تھا کہ جب شاہ اسماعیل نے 1818ء میں امام معین کی تقلید ترک کے"تمسک بالکتاب والسنۃ" کا (بزم خود)پرچم بلند کیا اور "تقویۃ الایمان" کے نام سے اردو میں ایک رسالہ لکھا ، جس کا نہ صرف انداز بیان حسن ادب سے عاری تھا ، بلکہ جمہور امت کے عقائد کے برعکس شفاعت کا انکار بھی کیا تھا اور نظیر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتناع کا بھی انکار تھا تو دہلی کے دینی حلقوں میں ہلچل مچ گئی اور وقت کے علماء جن کی اکثریت ولی اللہی علماء کی تھی ، سخت برہم ہوۓ۔(اعضا ص 103)
مزید لکھا :
"مولانا فضل حق نے جرات سے کام لے کر امتناع النظیر کے مسئلے پر شاہ اسماعیل دہلوی کے جواب میں ایک رسالہ تالیف فرمایا اور پھر "تحقیق الفتوی فی ابطال الطفوی" کے نام سے ایک مسبوط کتاب تحریر فرمائی جس پر علماۓ عصر اور خانوادۂ ولی اللہی سے وابستہ علماء کے بھی دستخط تھے۔"۔
(اعضا ص 103)
---
ماخوذ از ختم نبوت اور تحذیرالناس مصنفہ سید بادشاہ تبسم بخاری صاحب
--
ابوالبتول صفدر
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.