You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
یورپ میں جس انتہائی حساس طرز کی نظریاتی اور تہذیبی جنگ کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلط کیا جارہا ہے، وہ ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔سب جانتے ہیں کہ محمد مصطفی ﷺ کی عزت و ناموس ایک نازک ترین معاملہ ہے۔اس سے دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ مسلمانوں کے دل دکھتے ہیں۔ اس کے باوجود مسلمانوں کی دلآزاری کیلئے ایسی مذموم کاروائیوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔ حال ہی میں ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے گستاخ گیرٹ ولڈرز(Geert Wilders)نے نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے ’’ڈچ پارلیمنٹ‘‘ میں اپنی جماعت کے دفاتر میں کرانے کا اعلان کیا ہے اور متعلقہ سیکورٹی اہلکاروں نے اسے منظوری بھی دے دی ہے (معاذاﷲ) ۔Geert Wilders ہالینڈ کی پارلیمان کا رکن ہے ۔ اپوزیشن لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ آئندہ انتخابات میں وزیر اعظم کا امیدوار بھی ہے ۔ 2010 سے 2016 تک مسلسل اپنے ملک میں ’’سال کا بہترین سیاستدان‘‘ قرار پایا۔ پہلے یہ عیسائیت ترک کر کے اسرائیل چلا گیا تھا اور 1989 میں واپس ہالینڈ آکر *Freedom Party*کے نام سے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ 2004سے اسلامی شعائر اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی اہانت پر مبنی کرتوتوں کی وجہ سے اسے پوری دنیا میں شہرت حاصل ہوئی ۔ اس وقت’’ نیدر لینڈ‘‘ میں سب سے زیادہ تحفظ اسی شخص کو حاصل ہے۔2008 میں اس نے اسرائیل میں ٖ*Facing Jihad Conference*کی میزبانی کی جس میں دنیا کو جہادی خطرات سے آگاہ کرنے کے نام پر اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی۔ گستاخ فلم میکر Theo Van Gogh کے قاتل’’ محمد بویری‘‘ کے خلاف مقدمے کا واحد مدعی بھی یہی ہے۔ 2008 میں ہی اس نے ’’فتنہ‘‘ کے نام سے ایک مختصر دستاویزی فلم بھی بنائی جس میں قرآن پر اعتراضات کیے گئے اور اسے 5 زبانوں عربی، ترکی، فارسی، انگلش اور ڈچ میں ریلیز کیا گیا۔ڈچ پارلیمنٹ میں مسلمان عورتوں کو نقاب کرنے سے روکنے کی تحریک پیش کرنے والا شخص بھی یہی تھا۔ 2004 میں یورپ سے محمد ﷺ کی توہین پر مبنی خا کے بنانے کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس میں بھی اس کی خباثت شامل تھی۔خود اس نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین پر مبنی کارٹونز بنانے کا کام 2015 سے شروع کیا تھا۔ اب وہ گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا عالمی سطح کامقابلہ کروا رہاہے جس کی تاریخ کا اعلان ابھی نہیں کیا گیا ۔اُس نے 12جون کو ٹوئٹر پر’’ اظہار رائے کی آزادی‘‘ کے نام پر اس مقابلے کے انعقاد کا اعلان کیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس بد کردار شخص اور اسکے کارٹون مقابلے کو بین الاقوامی میڈیا بہت زیادہ کوریج دے رہا ہے۔ میڈیا کی زبان میں گیریٹ وائلڈر populist اور far-rightشخص ہے۔اسکو نہ صرف نیدر لینڈ بلکہ یورپ کے 9 ممالک سے دیگرمذہب مخالف سیاسی پارٹیوں کی حمایت بھی حاصل ہے جن میں فرانس کی national front۔ آسٹریا کی freedom party۔ اٹلی کی Northern leagueوغیرہ سرفہرست ہیں۔پورے یورپ میں 2008 سے مسلسل اس کے خلاف Hate Speech کے 13 مختلف مقدمات درج ہوئے لیکن کسی بھی مقدمہ کو حتمی انجام تک نہیں پہنچنے دیا گیا۔ مغرب کے زعماء اپنے آپ کو حقوق انسانی کا چیمپیئن کہتے ہیں جبکہ مغربی معاشرہ اپنے آپ کو جانوروں تک کے حقوق کا پاسدار سمجھتا ہے۔ یورپ میں آپ مذہبی منافرت، دہشت گردانہ سوچ، نسلی عصبیت یا یہودیوں کے قتل عام سے متعلق کوئی بات نہیں کہہ سکتے۔لیکن جب بات شعائر اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺکی توہین کی آتی ہے تو دوہرا معیار اپنایا جاتا ہے۔ کیا گیرٹ ولڈر کی جانب سے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنا اُنہیں دکھائی نہیں دیتا؟ حالاں کہ پیغمبر اعظم ﷺ کی شانِ اقدس میں توہین سے بین المذاہب تصادم کے شدید خطرات ہیں۔عالمی سطح پر انبیاء کرام کی توہین رکوانے کیلئے قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔UNO اور OIC کو اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔او آئی سی فوری طور پر سربراہی اجلاس طلب کرکے مغرب و یورپ کو دو ٹوک انداز میں پیغام دے کہ توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر مکمل پابندی لگائی جائے، ورنہ ہم راست اقدام پر مجبور ہوں گے۔ توہین رسالت مآب ﷺ کی ان بیہودہ کاروائیوں کے خلاف سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر نکلنا بھی اپنے پیارے نبیﷺ سے والہانہ محبت کے جذبات کی ترجمانی ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ مسلمان ممالک کا بھی منصبی فرض ہے کہ سفارتی ذرائع سے پرزور احتجاج کر کے ڈچ حکومت کو اپنے جذبات سے آگاہ کریں اور دنیا بھر کے مسلمان ممالک اور کاروباری لوگ ڈچ مصنوعات کا بائیکاٹ کردیں۔ اس طرح ملعون ’’گیرٹ ولڈر‘‘ کو منہ توڑ جواب دیا جاسکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے جذبات مجروح اوردل زخمی ہیں۔ہم اپنے ان قیمتی جذبات کو اپنی طاقت بھی بنا سکتے ہیں،ان کا مثبت استعمال بھی کرسکتے ہیں،۔مغرب کو غصہ اسی لئے ہے کہ اسلام یہاں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور وہ اس کا تدارک اور سدباب چاہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل نیدر لینڈز سے ہی متعلق مغربی میڈیا میں یہ پروپیگنڈہ ہوا تھا کہ ملک میں پیدا ہونے والے نصف بچے مسلمان ہیں حالانکہ ملک کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب صرف 5.8 فیصدہے۔ہم اگر حقیقی معنوں میں گستاخانہ خاکوں کا جواب دینا چاہتے ہیں تو ہمیں پیغمبر اسلام کی سیرت طیبہ کے حسین گوشوں کو ہر غیر مسلم تک درست شکل میں پہنچانے کی بھرپور جد و جہد کرنی ہوگی۔سیرت النبی صلی اﷲ علیہ و سلم پر مختلف زبانوں میں کتب، مقالات اور مضامین لکھ کر سوشل میڈیا کو بھردیں۔یورپ اور دنیا بھر کے انسانوں کو بتائیں کہ جس پیغمبر کے تم گستاخانہ خاکے شائع کرتے ہو اس عظیم پیغمبرﷺ نے ہی انسانیت کو معراج عطا کی۔دنیا کو اخلاقیات، معاشرت اور امن و آشتی کے اصول عطا کیے۔بہت سے غیر مسلموں نے اپنی کتب اور مقالہ جات میں نبی کریمﷺ کی بے حد تعریف و توصیف کی۔ ان تحریرات کو مختلف زبانوں میں تراجم کر کے سوشل میڈیا پر پھیلادیں۔ڈنمارک میں پیغمبر اسلام کے خاکے چھاپے گئے اس کے بعد گوگل سرچ انجن پر جو نام سب سے زیادہ سرچ ہوا وہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم تھا۔اسی طرح9/11 کے بعد بے شمار لوگوں کے لئے قبول اسلام کے رستے ہموار ہوئے۔اس طرح ان شا ء اﷲ بد خواہوں کی منفی کوششوں کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دو گے
---------------------------
تحریر: پروفیسر مسعود اختر ہزاروی
عنوان:"اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دو گے"
(شائع شدہ روزنامہ جنگ لندن 07-07-2018)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.