You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدمحترم حضرت ابوصالح سیّدموسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تھے، آپ کا اسم گرامی سیّد موسیٰ کنیت ابوصالحاور لقب جنگی دوست تھا، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جیلان شریف کے اکابر مشائخ کرام رحمہم اللہ میں سے تھے۔
---------
جنگی دوستلقب کی وجہ :۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا لقب جنگی دوست اس لئے ہوا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خالصۃً اللہ عزوجل کی رضا کے لئے نفس کشی اور ریاضت ِشرعی میں یکتائے زمانہ تھے، نیکی کے کاموں کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے کے لئے مشہور تھے، اس معاملہ میں اپنی جان تک کی بھی پروا نہ کرتے تھے، چنانچہ
ایک دن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جامع مسجد کو جا رہے تھے کہ خلیفہ وقت کے چند ملازم شراب کے مٹکے نہایت ہی احتیاط سے سروں پر اٹھائے جا رہے تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جب ان کی طرف دیکھا تو جلال میں آگئے اور ان مٹکوں کو توڑ دیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے رعب اور بزرگی کے سامنے کسی ملازم کو دم مارنے کی جرأت نہ ہوئی تو انہوں نے خلیفۂ وقت کے سامنے واقعہ کا اظہار کیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلاف خلیفہ کو ابھارا، تو خلیفہ نے کہا: سیّد موسیٰ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)کو فوراً میرے دربارمیں پیش کرو۔
چنانچہ حضرت سیّد موسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دربار میں تشریف لے آئے خلیفہ اس وقت غیظ وغضب سے کرسی پر بیٹھا تھا، خلیفہ نے للکار کر کہا: آپ کون تھے جنہوں نے میرے ملازمین کی محنت کو رائیگاں کردیا؟
حضرت سید موسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:
میں محتسب ہوں اور میں نے اپنا فرض منصبی ادا کیا ہے۔
خلیفہ نے کہا:
آپ کس کے حکم سے محتسب مقرر کئے گئے ہیں؟
حضرت سید موسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے رعب دارلہجہ میں جواب دیا: جس کے حکم سے تم حکومت کر رہے ہو۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس ارشاد پر خلیفہ پر ایسی رقّت طاری ہوئی کہ سر بزانو ہوگیا (یعنی گھٹنوں پرسررکھ کر بیٹھ گیا) اور تھوڑی دیر کے بعد سر کو اٹھا کر عرض کیا:
حضور والا! امر بالمعروف اور نهی عن المنکر کے علاوہ مٹکوں کو توڑنے میں کیا حکمت ہے؟ حضرت سید موسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: تمہارے حال پر شفقت کرتے ہوئے نیز تجھ کو دنیا اور آخرت کی رسوائی اورذلت سے بچانے کی خاطر۔
خلیفہ پر آپ کی اس حکمت بھری گفتگو کا بہت اثر ہوا اور متاثر ہوکر آپ کی خدمت اقدس میں عرض گزارہوا: عالیجاہ! آپ میری طرف سے بھی محتسب کے عہدہ پر مامورہیں۔
حضرت سید موسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے متوکلانہ انداز میں فرمایا: جب میں حق تعالیٰ کی طرف سے مامورہوں تو پھر مجھے خلق کی طرف سے مامور ہونے کی کیا حاجت ہے۔
اُسی دن سے آپ جنگی دوست کے لقب سے مشہور ہوگئے۔
(سيرت غوث الثقلين، ص۵۲)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.