You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
ایک تاریخ ساز شخصیت پر تاریخ ساز کام
اتحاد ملت کے علمبردار ایک دور اندیش مدبرّ و رہنما
---------------------------------------------
”اُن کی ذات و شخصیت قومی یکجہتی کی روح اور عملی تصویر تھی“
========================
تبصرہ:محمداحمد ترازی
”مولانا نورانی کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانندتھی جس کے ہر ورق پر ایک سرگرمی عمل،تحریک،سچائی و بے باکی روز روشن کی طرح عیاں تھی،وہ رواں سیاسی نظام میں ایک نادر الوجود مثال تھے،انہوں نے ہر قدم خوب سوچ سمجھ کر اٹھایا اور پھر جو بھی فیصلہ کیا اس پر کامل حق الیقین کے ساتھ ڈٹ گئے۔علامہ مشرقی کے بقول ”دنیا کی مکر کی تاریخ میں سیاست صرف اپنے نقطہ نظر سے کامیاب حکومت کا نام ہے،سیاست کے سب چالباز اپنے حریف کی چال کو کم و بیش صاف طور پر دیکھتے ہیں،لیکن کیونکہ سب چور ہوتے ہیں اور سب کا مقصد بے بس اور بے خبررعیت کا کامیاب شکار کرنا ہوتا ہے،اسلیئے ہر چور اپنے حریف کی چال کو روایتی احترام کی نظر سے دیکھتا ہے اور سیاست کے تمام کھیل کو سرِمکتوم بنادینا اپنی سیاسی شرافت سمجھتا ہے،اس نقطہ نظر سے راعی کی رعایا کے خلاف ہمیشہ ایک سازش رہی ہے،جس کا پورا انکشاف اسلیئے نہیں ہوسکا کہ راعیوں کی ٹولی دنیا میں ایک مستقل گروہ رہا ہے،جس کی سیاسی شرافت اور آداب جماعت اس کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ چوروں کی منڈلی کے راز فری میسنوں کی طرح فاش کرکے رکھ دے۔“مقام صد شکر ہے کہ تاریخ پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد مولانا شاہ احمد نورانی کی صورت میں ایک ایسی سرگرم عمل اور تحریکی شخصیت کارزار سیاست میں سرگرم عمل رہی،جس نے اوّل الذّکر کی طرح بااصول،شفاف اور جرات مندانہ طرز سیاست کو فروغ دیا اور جنھوں نے رعایا کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو کھلے بندوں بے نقاب کیا۔“
------------------------------------------------------------------------------------------------
یہ اقتباس اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے منظور ہونے والے ”ایم فل“ کے اُس مقالے کا ہے جوایک نوجوان اسکالر مظہر حسین نے ڈاکٹر شاہد حسن رضوی کی زیر نگرانی مکمل کیا اورجسے حال ہی میں انوار رضا جوہر آباد،زیور طباعت سے آراستہ کرکے”پاکستان کے سیاسی اتحادوں میں مولانا نورانی کا کردار(قومی اتحاد سے متحدہ مجلس عمل تک)“ کے عنوان سے منظر عام پر لایا ہے،کسی کتاب پر تبصرے سے قبل صاحب کتاب کا تعارف،ہوسکتا ہے اصول،قواعد اور عام روایات سے ہٹ کر ہو،لیکن اس مقام پر کتاب سے پہلے صاحب مقالہ کا تعارف ہمارے نزدیک اسلئے بے انتہا اہمیت کا حامل ہے کہ صاحب مقالہ تاریخ میں”پاکستان کی مذہبی سیاست میں جمعیت علماءپاکستان کا کردار1972ءسے 2003ءتک“کے عنوان سے اسلامیہ یونیورسٹی بھاولپور سے پی ایچ ڈی کی تیاری کررہے ہیں،3جنوری 1976ءکو ضلع ساہیوال کے غیر معروف قصبے”کمیر“کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے مظہر حسین نے اپنی عملی زندگی کا آغازایک اسکول کے مدرس کی حیثیت سے کیا،وہ اس وقت گورنمنٹ ڈگری کالج فار بوائز منڈی یزمان میں شعبہ تاریخ کے لیکچرار کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
------------------------------------------------------------------------------------------------
تینتیس سالہ نوجوان مظہر حسین کو حصول علم سے بے انتہا محبت ہے،جس کا ثبوت اس کم عمر ی میں اردو،اقبالیات،تاریخ اور مطالعہ پاکستان میں M.A،شعبہ تعلیم میںM.Ed،کمپیوٹر سائنس میں M.S.C،اور تاریخ میں M.Phil کی ڈگری ہے وہ حال ہی میں ایم بی اے کے امتحان سے فارغ ہوئے ہیں اور ڈاکٹر شاہد حسن رضوی کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کی تیاری کررہے ہیں،مظہر حسین کو کتب بینی کے ساتھ افسانہ نویسی اور تنقید نگاری کا بھی شوق ہے اور موصوف کے متعدد افسانے اور ڈھائی سو سے زیادہ کتابوں پر تنقیدی تبصرے مختلف ادبی رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔
------------------------------------------------------------------------------------------------
جناب مظہر حسین نے زیر نظر مقالے میں ”پاکستان کے سیاسی اتحادوں میں مولانا شاہ احمد نورانی کا کردار “کو موضوع بحث بنایا ہے،حقیقت یہ ہے کہ مولانا نورانی نے اپنے پارلیمانی دور سیاست میں متعدد سیاسی اتحادوں کی بنیاد رکھی اور اُن میں اہم مرکزی کردار ادا کیا،مولانا کی ہمہ پہلو زندگی کا بنیادی مقصدمقام مصطفی کا تحفظ اور نظام مصطفی کا نفاذ تھا،جس کیلئے مولانا نے اپنی ساری زندگی وقف کردی،نوجوان مقالہ نگار نے مولانا شاہ احمد نورانی کی زندگی کے اِسی پہلوکو زیر گفتگو لاتے ہوئے پاکستان کے سیاسی اتحادوں کی تشکیل میں مولانا کے عظیم الشان کردار کو سامنے لانے کی بہترین کوشش کی ہے،فاضل محقق کا یہ مقالہ سات ابواب”مولانا شاہ احمد نورانی ...حیات و خدمات کا اجمالی جائزہ،پاکستان قومی اتحاد اور مولانا شاہ احمد نورانی،تحریک پاکستان ایم آر ڈی اور مولانا شاہ احمد نورانی،مولانا شاہ احمد نورانی اور تحریک بحالی جمہوریت،مولانا نورانی اور پاکستان عوامی اتحاد،مولانا شاہ احمد نورانی اور اسلامی جمہوری محاذ،مولانا شاہ احمد نورانی اور ملی یکجہتی کونسل سے متحدہ مجلس عمل تک،اور مولانا نورانی کا انداز سیاست ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ “پر مشتمل ہے۔
------------------------------------------------------------------------------------------------
یہ وہ موضوعات ہیں جن پر فاضل محقق کی سیر حاصل گفتگو نے مولانا شاہ احمد نورانی کے ایک غیر متنازعہ اور عظیم مدبرّ رہنما ہونے کا کردار اجاگر کیا ہے،یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مولانا شاہ احمد نورانی نے اِن سیاسی اتحادوں کی تشکیل کے دوران کبھی اپنے عقیدے اور اُصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور وہ ہمیشہ اپنے عقیدے پر سختی سے کاربند رہے،انہوں نے کبھی بھی سیاست کو انفرادی مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا،اُن کی نمایاں خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ کبھی سیاسی اختلاف کو ذاتی اختلاف میں تبدیل نہیں کرتے تھے،اپنی انہی خوبیوں کی بدولت وہ تمام مکاتب فکر میں ایک روشن خیال اور غیر متنازعہ شخصیت کا درجہ رکھتے تھے اور یہی وہ بنیادی خصوصیات اور وجوہات تھیں جن کی بناءپر دیوبندی،اہل حدیث، اثناءعشری اور دیگر مکاتب فکرنے انہیں اپنا قائد ورہنما تسلیم کیا،مولانا نورانی نے اِن سیاسی اتحادوں میں ایک دور اندیش مدبرّ رہنما کا کردار ادا کیا،انہوں نے ہمیشہ اپنی خداداد صلاحیتوں اور فہم و فراست کی بدولت مختلف الخیال جماعتوں اور سیاست دانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد رکھا،اور مولانا کی زیر قیادت اِن سیاسی اتحادوں نے اسلامی اقدار اور بحالی جمہوریت کی تحریکوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔
------------------------------------------------------------------------------------------------
قومی اور اجتماعی مسائل پر اُن کی سوچ ہمیشہ مثبت رہی،یہ اُن کی برد باری اور معاملہ فہمی کا ہی نتیجہ تھا کہ متحدہ مجلس عمل نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار حکومتی اور بیرونی طاقتوں کو ہلاکر رکھ دیا اور ملکی تاریخ میں پہلی بار حکمرانوں کو مذہبی جماعتوں کے وجود اور طاقت کا احساس دلایا، مولانا نورانی بازار سیاست کے بہت بڑے رمز شناس تھے،انہوں نے ہمیشہ لسانیت،قومیت،فرقہ واریت، تشدد اور لاشوں کی سیاست کوناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا،درحقیقت وہ حقیقی معنوں میں اسٹیبلیشمنٹ مخالف عالم دین اور مذہبی و سیاسی رہنما تھے۔
------------------------------------------------------------------------------------------------
حقیقت یہ ہے کہ مولانا نورانی متحرک،فعال اور ملک و قوم کا درد رکھنے والی ایک ایسی شخصیت تھے جنھوں نے اپنی ساری زندگی پاکستان کے اوّلین مقصد لاالہ الااللہ کے نعرے کو عملی صورت دینے میں وقف کردی،انہوں نے اِس نعرے کو اپنی سیاست کے نکتہ ارتکاز کے طور پر اپنایا اور اسے دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے وقت ہم خیالی کی بنیاد بنایا،مولانا نے ہر سیاسی اتحاد کی بنیاد بحالی جمہوریت اور نفاذ نظام مصطفی کی جدوجہد پر رکھی،آپ نے اپنی ذہانت اور تدبر سے پاکستان میں اتحاد ملت کے نعرے کو عملی شکل دی،آپ کے تحرک پر بنائے گئے تمام اتحادوں کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اتحاد ملت کے علمبردار تھے بلکہ اِن اتحادوں کی وجہ تخلیق اور روح رواں بھی تھے،ہماری اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ آپ نے جس اتحاد کو خیر آباد کہا وہ اتحاد آپ اپنی موت مرگیا،حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں فرقہ واریت کے سدباب کیلئے مولانا شاہ احمد نورانی کا کردار ناقابل فراموش تھااور اُن کی ذات و شخصیت قومی یکجہتی کی روح اور عملی تصویر تھی۔
------------------------------------------------------------------------------------------------
مولانا شاہ احمد نورانی کو اپنی تمام سیاسی جدوجہد کے دوران متعدد مرتبہ حکومتی جبرو استبداد کا نشانہ بھی بننا پڑا اور اپنے کئی دیرینہ رفیقوں کی قربانی بھی دینا پڑی،لیکن پارلیمانی محاذوں پر پے درپے شکستوں سے دوچار ہونے کے باوجود آپ نے کبھی غیر جمہوری روایات کا حصہ بننا پسند نہیں کیا،انہوں نے ملکی و مذہبی سیاست میں حصول اقتدار کے بغیر سیاست کی ایک نئی اور منفرد روش متعارف کروائی اور علماءو مشائخ کو مساجد و خانقاہوں سے نکل کر میدان سیاست میں فریضہ حق ادا کرنے کی ترغیب دی،اصول پسندی،دستوریت،قربانی ذات کے ساتھ اُن کے انداز سیاست کا چوتھا ستون حق گوئی و بے باکی تھاجس نے آخروقت تک ہر ظالم و جابر کے سامنے انہیں صف آرا رکھا۔
------------------------------------------------------------------------------------------------
درحقیقت نوجوان محقق مظہر حسین کا یہ مقالہ مولانا شاہ احمدنورانی کی سیاسی و مذہبی خدمات اور قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد پاکستانی سیاست میں بلندی کردار کا ایک ناقابل فراموش تاریخی باب ہے،فاضل محقق قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں اِس اہم موضوع پرتحقیق کرکے مولانا کی ہمہ جہت شخصیت کے ایک پہلوکو سامنے لانے کی کامیاب کوشش کی ہے،اِس کے ساتھ مقالے کے ناشر ملک محبوب الرسول قادری بھی مبارکباد کے مستحق ہیں،جن کی کوششیں اور کاوشیں سارھے سات سو صفحات پر مشتمل اِس ضخیم مقالے کو کتابی شکل میں سامنے لانے کا سبب بنی،خوبصورت جلد سے مزین آفسٹ پیپر پر یہ مقالہ ” انوار رضا جوہر آباد“ کے زیر انتظام سامنے لایا گیا ہے،جوکہ لحاظ سے قابل ستائش اور قابل مطالعہ ہے۔یہ مقالہ 27اے،شیخ ہندی اسٹریٹ،دربار مارکیٹ لاہور سے یا مندرجہ زیل ای میل پر رابطہ کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
------------------------------------------
[email protected]
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.