You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
دہشت گردی کے مختلف زاویے جن سے صہیونیت مستحکم ہورہی ہے
غلام مصطفی رضوی
نوری مشن مالیگاؤں
آج دنیا کے لیے سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ اس کے کئی زاویے ہیں۔اول صہیونی دہشت گردی- جس کاوجود یہودی وعیسائی اشتراک کا نتیجہ ہے۔ ان کے مظالم نے دُنیا سے امن وسکون غارت کر دیاہے۔ انھوں نے خود دہشت گردی کی اور دنیا کو یہ باور کرایا کہ اسلام دہشت گردی کو بڑھاوا دیتا ہے۔صہیونی قوتوں نے یکے بعد دیگرے کئی مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ایک مسلم ملک کو دوسرے مسلم ملک کا دشمن بنا کر منافرت کی کاشت کی۔دہشت گردی کے اس پروپیگنڈے نے مسلسل ذہن سازی کی اور مسلمانوںکو دفاعی پوزیشن میں لاکھڑاکیا۔ جس دین نے دنیا کو امن وسکوں کا تصور دیا تھا، اسی پر نکتہ چینی کی جانے لگی۔ اسلامی شعار، رسوم وطریقے سبھی کچھ شکوک وشبہات کی نظروں سے دیکھے جانے لگے۔ پھر بات یہیں ختم نہ ہوئی ساری دنیا میں اسلامی عروج کے خاتمہ کے لیے ماحول سازی یہ کی گئی کہ اسلام دُنیا کے مسائل حل نہیں کرسکتا۔ یا زمانی ترقی کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس کابیک گراؤنڈ یہ تھا کہ مادّی بندشوں میں جکڑے ذہن کراہ رہے تھے، انھیں روحانی سکون کی تلاش تھی۔ اورتلاش حق کا یہ سفر- بھٹکے ہوئے آہو کوسوئے حرم لے جانے والا تھا۔ ہر تلاش کرنے والے کی روحانی منزل صرف اسلام ہے۔ دُنیا نے دیکھا کہ جب جب اسلام کو پابند کیا گیا، بندشیں کھڑی کی گئیں، الزامات واتہامات لگائے گئے اسلام نئی توانائی کے ساتھ اُبھرا ہے اور دُنیا پر چھا گیا ہے۔زوال کی اندھیریوں کے بعد عروج کا آفتاب طلوع ہوا ہے۔نصف النہار پر پورے آب وتاب سے جگمگایا ہے۔
دہشت گردی کا دوسرا نیٹ ورک ہمارے ملک میں بھگوادہشت گردی کے روپ میں سامنے آیا۔ جنھوں نے مالیگاؤں، ناندیڑ سمیت متعدد مقامات کو نشانہ بنا کر مسلمانوں کے سر اپنا جرم ڈالنے کی کوشش کی اور بالآخر دیانت دار تحقیق کرنے والے افراد نے انھیں بے نقاب کردیا۔بھگوا شدت پسندوں کا وجود بھی اسلام کو بدنام کرنے میں منہمک رہا۔ یادرکھنا چاہیے کہ اسلام نے ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کی ہے۔ جتنی جنگیں ہوئیں ان کا پس منظر دیکھیے۔ قیام امن کی خاطر مسلمانوں نے ہتھیار اٹھائے ہیں۔ ظلم کا خاتمہ کیا ہے۔ اسلامی جہاد مظلوم کو حق دلاتا ہے؛ظالم کو سرنگوں کرتا ہے، جہاد کے نتیجے میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوا ہے اور ہر اسلامی جہاد کے بعد دنیا نے چین وسکون کا سانس لیا ہے۔ یہ اسلام کی تاریخ رہی ہے۔ جب کہ دہشت گردی ظالم کو قوت پہنچاتی اور مظلوم کو کم زور کرتی ہے۔
ایک الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے بزورِ قوت غیر مسلموں کو داخلِ اسلام کیا۔ اس ضمن میںہندوتوا تنظیمیں آگرہ کو مرکز بنا کر مسلمانوں کو مرتد بنانے پر تُلی ہوئی ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک معاملہ شدھی سنگھٹن کے نام سے ایک صدی پیش تر ہوا تھا جب مفتی اعظم علامہ محمد مصطفی رضاخان بریلوی نے اس فتنے کا خاتمہ عزیمت واستقامت سے کیا تھا۔ آج پھر اس کازکو اٹھا کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جب کہ حق یہ ہے کہ عہدِصحابہ وتابعین کے بعد اولیا ء اللہ نے دُنیا کے بیش تر خطوں میں اپنی دعوتی خدمات کے ذریعے اسلام کی تبلیغ کی اور کامیاب ہوئے۔ جس کا سبب ہے کہ ان اولیا کے آستانے آج بھی آباد ہیں اور دلوںکی دُنیا انقلاب آشنا ہورہی ہے۔ اسلام کی اشاعت کے دَعوے بہت ہوتے ہیں لیکن اصل تبلیغ تو انھیں اولیا کی بارگاہوں سے ہوتی ہے جن سے وابستہ مسلمانوںکی اکثریت ہے؛ جو امن وامان پر یقین رکھتی ہے اور جن کے ایمان کی جان رسول کریم ﷺ سے محبت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دُنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے شکار عاشقان مصطفی ہی بنائے جارہے ہیں۔ شام وعراق میں داعش کے حملوں کا نشانہ عام مسلمان ہیں جن کی عقیدتوں کا رشتہ مکین گنبد خضریٰ سے جڑا ہے۔ جو عشق رسول کو متاعِ حیات جانتے ہیں۔پاکستان میں امریکہ و برطانیہ کے ایجنٹ وہی ہیں جن کا تعلق مسلمانوں کی اکثریت سے نہیں ہے۔ سپاہِ صحابہ، جیش محمدی، جمعیۃالدعوۃ، حزب المجاہدین، طالبان پاکستان جس اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں بموں کی زد پر- وہ امریکہ وبرطانیہ کا پرووائڈ کردہ ہے۔ رسول کریم ﷺ کا دین تو سراسر محبت ہے۔ اسی لیے اہل محبت ہی ان دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ ورنہ عالمی یومِ امن میلادالنبی ﷺ منانے والے نشتر پارک میں کیوں نشانہ بنائے گئے؟ اور حال میں علم حاصل کرنے والے ننھے پھول پشاور میں کیوں مسل دیے(شہیدکیے) گئے؟ یہ توسچ ہے کہ انھیں شہید کرنے والے ’’درندے‘‘بعض طبقوں کے نزدیک ’’مجاہدین‘‘ ہیں لیکن اسلام کے نزدیک یہی ظالم ہیں، جن سے زمین فتنہ وفساد کاشکار ہورہی ہے، ایسے آلۂ کار ہردور میں رہے ہیں۔ ان ظالموںکو اسلام سے کوئی ہم دردی نہیں۔ ورنہ جب اسرائیل بم برسا رہا تھا نہتوں پرتو یہ ہتھیار بند اور بم بردار نام نہاد مجاہدین کس کھو میں چھپے تھے؟ غزہ جب لہولہان تھا یہ خودساختہ خلافت کے مدعی موت کی نیند کیوں سوئے تھے؟
یاد رکھنا چاہیے کہ انسانی خون کا احترام اسلام کی اولین ترجیح ہے۔ ایک جان کا قتل اسلام کے نزدیک پوری انسانیت کا قتل ہے اور کسی زندگی کو تحفظ دینا گویا پوری انسانیت کو تحفظ دیناہے۔ من حیث القوم ہماری ذمہ داری ہے کہ دہشت گردی کی تمام صورتوں سے نفرت کریں خواہ وہ صہیونی ہو یا بھگوا ہو یا پھر صہیونی ایجنٹوں- پاکستانی تنظیموں- کی ہو۔ ہم اسلامی امن کے داعی ہیں آج اسی پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت دُنیا معاشی دہشت گردی کا بھی شکار ہے۔ دوظاہراً بڑی طاقتوں کے جھگڑے میں مسلمان مفلوک الحال ہورہے ہیں۔ کیا نہیں دیکھتے کہ روس وامریکہ کی پنجہ آزمائی میں مسلم ممالک پس رہے ہیں۔ تیل کی منڈی میں روس کی کمر توڑنے کی خاطر امریکہ نے تیل کے دام گرانے کی کوشش کی۔ امریکہ کے اشاروں پر سعودی حکومت نے تیل کے دام تابڑ توڑ گرابھی دیے اور اس میں کمی کرتے کرتے یہ نوبت آئی کہ تیل کا عالمی مارکیٹ کم زور ہوا۔ فائدہ امریکہ کا ہوا۔ تیل پر منحصر کم زور مسلم ممالک یمن وشام، عراق وایران مفلوک الحال ہوتے چلے جارہے ہیں۔ کیا معاشی طور پر مسلمانوں کی کمر توڑنا دہشت گردی نہیں؟ اس سلسلے میں سعودی کا امریکہ کے اشاروں پر سر خم کردینا افسوس کن ہے اور باعث رنج واَلم بھی۔ ایسی صورتوں میں مسلم امہ کیسے اور کن صورتوں میں ترقی کرے گی اس رُخ سے اربابِ فکر ونظر کو غور کرنا چاہیے!
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.