You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
ایک مرتبہ حضرتِ ِسیِّدُنا لُقمان حکیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے بیٹے کو (نصیحت کرتے ہوئے )فرمایا:
پیارے بیٹے! جب بھی تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو تُواسے اپنے حق میں بہتر جان اور یہ بات دِل میں بٹھالے کہ میرے لئے اِسی میں بھلائی ہے۔
بیٹے نے عرض کی:
یہ بات میرے بس میں نہیں کہ میں ہر مصیبت کو اپنے لئے بہتر سمجھوں ، میرا یقین ابھی اتناپُختہ نہیں ہوا ۔
حضرتِ ِسیِّدُنالقمان حکیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:
اے میرے بیٹے ! اللہ عَزّوَجَلَّ نے دنیامیں وقتاََ فوقتاََ انبیاءِ کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام بھیجے ، ہمارے زمانے میں بھی اللہ عَزّوَجَلَّ نے نبی علیہ السلام کو بھیجا ہے آؤ، ہم اُس سے فیضیاب ہونے چلتے ہیں ،ان کی باتیں سن کر تیرے یقین کو تقویت (یعنی مضبوطی) حاصل ہو گی۔
چُنانچِہ سامانِ سفر لیا، اور خچروں پر سوار ہو کردونوں روانہ ہوگئے ۔ دورانِ سفر ایک ویران جنگل میں دو پہر ہوگئی ،شدید گرمی تھی اور لُو بھی چل رہی تھی ، ایسے میں پانی اور کھانا وغیرہ بھی ختم ہوچکاتھا ، خچر بھی تھکن اورپیاس کی شدت سے ہانپنے لگے،
حضرتِ سیِّدُنا لقمان علیہ رحمۃ المنان اور آپ کا بیٹا خچروں سے اُتر کرپیدل ہی چل پڑے،بَہُت دُور ایک سایہ اور دھواں سا نظر آیا، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آبادی کاگمان کر کے اُسی طرف بڑھنے لگے ۔راستے میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بیٹے کو ٹھوکر لگی اور پاؤں میں ایک ہڈّی اس طرح گُھسی کہ تلوے سے پار ہوکر ظاہِرِ قدم تک نکل آئی اور وہ درد کی شدت سے بے ہوش ہو کر زمین پر گرپڑا۔شفقت کے سبب روتے ہوئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے دانتوں سے کھینچ کر ہڈّی نکالی۔
اپنے مبارَک عمامے سے کچھ کپڑا پھاڑا اور زخم پر باندھ دیا۔حضرتِ سیِّدُنالقمان رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے آنسو جب بیٹے کے چہرے پر گرے تو اُسے ہوش آگیا،کہنے لگا:
ابّا جان !آپ تو فرما رہے تھے کہ ہر مصیبت میں بھلائی ہے لیکن اب رونے کیوں لگے ؟
فرمایا:
پیارے بیٹے باپ کااپنی اولاد کے دکھ درد کی وجہ سے غمگین ہوجانا اور رو پڑنا ایک فطر ی عمل ہے، باقی رہی یہ بات کہ اس مصیبت میں تمہارے لئے کیا بھلائی ہے؟تو ہو سکتا ہے اس چھوٹی مصیبت میں مبتلا کر کے تجھ سے کوئی بہت بڑی مصیبت دو ر کردی گئی ہو ۔جو اب سن کربیٹا خاموش ہوگیا ۔
پھرحضرتِ سیِّدُنا لقمان علیہ رحمۃ المنان نے سامنے نظر کی تو اب وہا ں نہ تو دھواں تھا اور نہ ہی سایہ وغیرہ۔ چِتْکَبرے گھوڑے (یعنی سفید وسیاہ رنگ کے گھوڑے)پر سوارایک شخص بڑی تیزی سے بڑھا چلاآرہا ہے، وہ سوار قریب آ کر اچانک نظروں سے اوجھل ہوگیا!
اور آوازآنے لگی:
میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے مجھے حکم فرمایا: میں فُلاں شہر اور اس کے باشندوں کو زمین میں دھنسا دو ں۔ مجھے خبر دی گئی کہ آپ دونوں بھی اُسی شہر ہی کی طرف آرہے ہیں تومیں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دعا کی کہ وہ آپ کو اُس شہر سے دور رکھے۔ لہٰذا اُس نے یوں امتحان میں ڈالا کہ آپ کے بیٹے کے پاؤں میں ہڈّی چُبھ گئی اور اس طرح آپ دونوں اِس چھوٹی مصیبت کی و جہ سے ایک بہت بڑی مصیبت (یعنی اس عذاب والے شہر کی زمین میں دھنسنے )سے بچ گئے ۔
پھرحضرتِ سیِّدُناجبرئیل علیہ السلام نے اپنا مبارک ہاتھ اس بیٹے کے زخمی پاؤں پر پھیراتو زخم فوراً ٹھیک ہوگیا۔ پھرکھانے اورپانی کے خالی شدہ برتنوں پر ہاتھ پھیرا تو وہ دونوں کھانے اور پانی سے بھر گئے۔ اس کے بعدحضرتِ سیِّدُناجبرئیل علیہ السلام نے دونوں باپ بیٹے کو سامان اور سواریوں سمیت اٹھالیا اورآن کی آن میں یہ اپنے گھر میں موجود تھے حالانکہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا گھر اُس جنگل سے کافی دن کی مَسافت پر تھا ۔
(عیون الحکایات ، ص۱۰۹ )
اللہ عَزّوَجَلَّ کی اُن پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت ہو
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم
صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
مدنی مُنّو ! اس حکایت سے معلوم ہوا کہ ہمیں ہر حال میں اللہ عَزّوَجَلَّ کی رضا پر راضی رہنا چاہے ۔رب عَزّوَجَلَّ کی حکمت کو سمجھنے سے ہم قاصِر ہیں، اُس کے ہرہر کام میں حکمت ہوتی ہے کسی کو مصیبت میں مبتلا کرنا بھی حکمت تو کسی کو بے طلب مصیبت سے بچا لینا بھی حکمت ۔
یاالہٰی ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو
جب پڑے مشکل ،شہِ مشکل کشاکاساتھ ہو
صَلُّوْ ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.