You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
ایک حافظ صاحب میرے ساتھ پڑھتے رہے ہیں ، انھیں رشتے دار اس لیے رشتہ نہیں دیتے تھے کہ ان کا اپنا مکان نہیں تھا ۔
ایک اللہ کی بندی نے انھیں بیٹی کا رشتہ دے دیا تو اُسے اس کی ہمشیرہ کہنے لگی:
تو نے اس میں کیا دیکھا ہے؟
فلاں لڑکا خوب صورت بھی ہے ، اس کا اپنا مکان بھی ہے ، تُو نے اسے رشتہ دینا تھا ، اسے کیوں دیا ۔
انھوں نے جواب دیا :
مجھے پتا ہے اس کا مکان نہیں ، لیکن میں نے یہ دیکھا ہے کہ:
بیٹا حافظ قرآن ہے ، نمازی ہے ، نیک ہے ۔
اللہ نے چاہا تو مکان بھی بن جائے گا ۔
اللہ اللہ کرکے ان کی شادی ہوئی ، اور میاں بیوی مدینہ پاک چلے گئے ۔
وہاں سے واپس آکر انھوں نے مکان بھی بنا لیا اور فیکٹری بھی ۔
اللہ کریم نے انھیں اولاد سے بھی نوازا ہے اور ان کی بیوی اپنی دوسری بہنوں کی بہ نسبت زیادہ سکون میں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1: آج کل بعض لوگ لڑکیاں بیاہتے نہیں ، بیچتے ہیں ۔
لاکھوں کے زیوارات ، نقدی ، مکان ، جائیداد اور خرچے وغیرہ کامطالبہ رکھ کر رشتہ دیتے ہیں ۔
ایسا کرنے والے بیٹی کے خیر خواہ نہیں ہوتے ، اس کے لیے گڑھا کھود رہے ہوتے ہیں جس سے وہ زندگی بھر نہ نکل سکے ۔
2: بیٹی کا نکاح کرنے سے پہلے مال و دولت کی فراوانی نہیں دیکھنی چاہیے ، بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ:
¹ لڑکا محبت کرنے والا ہے ، اسے شادی کے لیے مجبور نہیں کیا گیا ۔
² نیک نیت ہے ، اور نیک عادات و اطوار کا مالک ہے ؛ اس کااٹھنا بیٹھنا اچھے لوگوں کے ساتھ ہے ۔
³ کماتا ہے ، نکھٹو نہیں ہے ۔
کماؤ پُتر ، غریب بھی ہو تو ایک دن امیربن جاتا ہے ، لیکن نکھٹو دولت سے بھرے ہوئے مکان بھی اُجاڑ دیتا ہے ۔
3: لڑکی کو سسرال والوں سے کوئی لالچ نہیں ہونا چاہیے ، نہ ان سے کوئی مطالبہ کرنا چاہیے ۔
اعلیٰ قسم کے ملبوسات ، عمدہ قسم کے میک اپ ، اور زیوارات وغیرہ پر نظر رکھنے کے بجائے ، محبت کرنے والے شوہر کو دیکھنا چاہیے ؛ بھلا اس سے اچھا لباس اور زیور کیا ہوسکتا ہے !!
4: برکت والا وہ نکاح ہوتاہےجس میں اخراجات کم ہوں ۔
اور اخراجات کم اسی صورت میں ہوسکتے ہیں جب بیوی بھی تعاون کرے ۔
سعادت مند بیوی کو ضرور تعاون کرنا چاہیے اور اپنی شادی کو باعث برکت بنانا چاہیے ۔
لقمان شاہد
17-1-20ء
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.