You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
عربی تحریر: احمد حمزہ مدیر ماہنامہ لواء الاسلام، قاہرہ
-------------------------------------------------
اردو ترجمہ: ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی الازہری
==========================
سیدی یا رسول اللہ! آپ کی ولادتِ مبارکہ کی یاد دنیا پر بالعموم اور مسلمانوں پر با لخصوص یوں سایہ فگن ہوتی ہے کہ مسلمان مضطرب نفوس اور پریشان دل لیے ہوتے ہیں، دنیا بے چینی اور اضطراب سے بھری ہوتی ہے مگر ماہِ ربیع الاول کے آغاز سے ہی دنیا سلامتی سے بھر جاتی ہے، لوگوں کو محفوظ ہونے کا احساس اور اطمینان نصیب ہوتا ہے، اور یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا تھا۔
سیدی یا رسول اللہ! آپ ربانی حکمت کے تحت یتیم پیدا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی رحمت کے سائے میں پروان چڑھایا یہاں تک کہ آپ ادب کی راہ پہ چلنے والوں کے امام بن گئے، تربیت کرنے والوں کے لیے مینارۂ کی حیثیت اختیار کر گئے، آپ نے شانِ امیت کے ساتھ پرورش پائی، مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی بارگاہ سے اتنے علوم عطا فرمائے کہ آپ رہتی دنیا تک معلمین کے لیے بہترین نمونہ اور علم و حکمت کا ایسا سمندر بنے کہ اہل معرفت و یقین اُس سمندر سے چلو بھرتے ہوئے اکتسابِ فیض کرنے لگے، آپ کو آپ کے مخالفین نے اپنے کاہنوں اور احبار کے ہمراہ مقابلے کے لیے پکارا تو آپ نے اُنہیں دلیل اور واضح قول کے ذریعے خاموشی پر مجبور کر دیا، ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آپ کو تو خودآپ کے رب نے وہ سب کچھ پڑھا دیا جو آپ ذاتی طور پر نہ جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا عظیم فضل ہے۔
سیدی یا رسول اللہ! اگر آپ کی امت سے اپنے آپ کو منسوب کرنے والے بعض لوگ آپ کی تعلیمات اور کسی دوسرے انسان کی تعلیمات کے درمیان موازنہ کرتے ہیں تو ایسا ناپسندیدہ عمل آپ کے مرتبہ و مقام سے کچھ کمی کر سکتا ہے نہ ہی آپ کی تعلیمات کی قدر و قیمت کو کچھ نہیں گھٹاسکتا ہے۔ اِس لیے کہ اے اللہ تعالیٰ کے بعد ساری مخلوق سے افضل ہستی! آپ کی عطا کی ہوئی اقدار آپ سے بے پناہ محبت کرنے والے دلوں میں راسخ ہیں، آپ کی تعلیمات زندۂ جاوید ہیں، آپ کی تعریف و توصیف کے لیے ہر مسلمان کے دل میں ایک منبر سجا ہوا ہے اور ہر سچے مسلمان کی زبان پر آپ کی نعت ہے، دنیا بھر کے کروڑوں مسلمان ناموسِ رسالت کے محافظ ہیں۔ وہ آپ کی شان پر اپنی جانیں قربان کر دینے کے لیے اپنی ہتھیلیوں پر لیے پھرتے ہیں، آپ کی تعلیمات کا کسی دوسرے شخص کی تعلیمات سے مقابلہ کرنے والے اپنی اِن حرکتوں سے باز آجائیں، وہ اسلام، اُس کی وحدت اور اُس کی عظمت کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے اُن بدنصیبوں کا حال اُس شخص کی طرح ہے جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
الاکباسط کفیہ الی الماء لیَبْلُغَ فاہ و ما ھو ببالغہ و ما دعاہ الکافرین الا فی ضلال ۔ (سورۂ رعد: ۱۴)
ترجمہ: ’’مگر اُس کی طرح جو پانی کے سامنے اپنی ہتھیلیاں پھیلائے بیٹھا ہے کہ اُس کے منہ میں پہنچ جائے اور وہ ہرگز نہ پہنچے گا، اورکافروں کی ہر دعا بھٹکتی پھرتی ہے۔‘‘
سیدی ابو الزہراء! آپ کے کسی بھی عاشقِ صادق نے اپنے آپ پرکسی مصیبت کے ٹوٹنے یا ظلم کا شکار ہونے پر آپ کی پناہ طلب کی اور پھر وہ آپ کی پناہ میں آیا تو آپ اُس کے لیے بہترین پناہ دینے والے تھے ، میں بھی اپنے ادراک،عقل و شعور اور وجدان کے ساتھ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوں، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاء کے لیے دستِ مبارک اٹھائیے اور دعاء کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اُن پر نازل ہونے والے مصائب سے نجات عطا فرمائے، اور ہم سب کو امن و عافیت اور خوشحالی سے نوازے، میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے وسیلے سے میری التجاء کو قبول فرمائے گا، میرے خوابوں کو تعبیر بخشے گا، وہی ہے جو سب پر غالب ہے اُس کے سوا کسی کی یہ شان نہیں۔
ربنا انک تعلم ما نخفی و ما نعلن و ما یخفی علی اللّٰہ من شیء فی الارض و لا فی السماء ۔ (سورۂ ابراہیم: ۳۸)
ترجمہ: ’’اے ہمارے رب تو جانتا ہے جو ہم چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں، اور اللہ پر کچھ چھپا نہیں، زمین میں اورنہ آسمان میں۔‘‘
سیدی رسول اللہ! نہ تو یہ میری اوقات ہے اورنہ ہی مجھ میں ایسی ہمت ہے کہ میں آپ کی سراپا کرم ہستی سے مخاطب ہو سکوں مگر آپ کی بارگاہ کے لطف و کرم نے میری ہمت بندھائی ہے کہ میں آپ کے درِ اقدس پر آؤں اور اپنے شعور ،وجدان اوراحساسات کے ساتھ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنی حالتِ زار عرض کروں۔
ما جئت بابک ما دحابل داعیا
و من المدیح تضرع و دعاء
میں آپ کے درِ اقدس پر فقط آپ کی مدح کرتے ہوئے ہی نہیں بلکہ آپ کے وسیلے سے رب کی بارگاہ میں دعاء کے لیے حاضر ہوا ہوں، میں نے نعت کو رب کی بارگاہ میں گریہ و زاری اور دعاء بنایا ہے۔
میں نے آپ کو کبھی ایسا نہیں پایا کہ آپ نے کسی سوالی کو خالی ہاتھ لوٹایا ہو،
اے کائنات کے آقا و مولی! میری التجاؤں کو قبول فرمائیے، قیامت کے دن مجھے اپنی شفاعت سے سرفراز فرمائیے۔
جس دن آپ پیدا ہوئے اور آپ نے کائنات کو روشنی بخشی اُس دن آپ پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے درود و سلام کی بارشیں ہوں۔ اور اُس دن بھی آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور سلامتی نازل ہو جس دن آپ اپنے رب کی بارگاہ میں محبوبانہ شان سے حاضر ہوئے اور آپ کی شریعت کو زندہ جاوید بنا دیا گیا۔ اور اُس دن بھی آپ پر صلاۃ و سلام ہو جس دن سارے انبیاء کو چھوڑ کر فقط آپ کو مقامِ محمود پر فائز کیا جائے گا۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.