You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حضرت سیدنا علقمہ بن مرثد رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : تا بعین کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے آٹھ بزرگ ایسے عظیم ہیں گویا ان پرزہدو تقوی کی انتہاء ہو گئی ۔
حضرت سیدناعامر بن عبداللہ ، حضرت سیدنااویس قرنی ، حضرت سیدنا ہرم بن حیان ، حضرت سیدنا ربیع بن خُثیم، حضرت سیدنا ابو مسلم خولانی ، حضرت سیدنا اسود بن یزید، حضرت سیدنا مسروق بن اجدع اور حضرت سیدناحسن بن ابو حسن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
------------------------------------------------------------------------
(۱) حضرت سیدناعامر بن عبداللہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ
پھرآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت سیدناعامر بن عبداللہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہما کے متعلق بتایا: حضرت سیدنا عامر بن عبداللہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہما جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو بہت خشو ع و خضوع سے نماز پڑھتے ۔ شیطان ان کو بہکانے کے لئے سانپ کی شکل میں آتا اور ان کے جسم سے لپٹ جاتا، پھر قمیص میں داخل ہو کر گریبان سے نکلتا ، لیکن آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نہ تو اس سے خوفزدہ ہوتے،نہ ہی اسے دور کرتے بلکہ انتہائی خشوع خضوع سے اپنی نماز میں مگن رہتے۔
جب ان سے کہا جاتا : آ پ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سانپ کو اپنے آپ سے دور کیوں نہیں کرتے؟کیاآپ کو اس سے ڈر نہیں لگتا؟تو آ پ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے: مجھے اس بات سے حیاء آتی ہے کہ میں اللہ عزوجل کے علاوہ کسی اور سے ڈروں ۔
پھر کسی کہنے والے نے کہا:آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ جتنی محنت ومشقت کر رہے ہیں اس کے بغیر بھی تو جنت حاصل کی جاسکتی ہے اور اس کے بغیر بھی جہنم کی آگ سے بچا جاسکتا ہے۔ توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: اللہ عزوجل کی قسم !میں توخوب مجاہدات کرو ں گا اوردن رات اپنے رب عزوجل کی عبادت کروں گا ۔ اگر نجات ہوگئی تو اللہ عزوجل کی رحمت سے ہوگی، اور خدا نخواستہ جہنم میں گیا تو اپنی محنت ومشقت میں کمی کی وجہ سے جاؤں گا ۔
پھر جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی وفات کا وقت قریب آیا توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ زار وقطاررونے لگے ۔لوگو ں نے پوچھا : حضور! آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اتنا کیوں رورہے ہیں؟ کیا موت کا خوف آپ کو رلا رہا ہے؟توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: میں کیوں نہ روؤں ،کیا مجھ سے بھی زیادہ کوئی رونے کا حقدارہے ؟خدا عزوجل کی قسم! میں نہ توموت کے خوف سے رو رہاہوں ،نہ ہی اس بات پرکہ دنیا مجھ سے چھوٹ رہی ہے، بلکہ مجھے تو اس بات کا غم ہے کہ میری عبادت وریاضت، راتوں کا قیام اور سخت گرمیوں کے روزے چھوٹ جائیں گے، پھر کہنے لگے: اے میرے پاک پروردگار عزوجل! دنیا میں غم ہی غم اور مصیبتیں ہی مصیبتیں ہیں اور آخرت میں حساب و عذاب کی سختیاں پھر انسان کو آرام وسکون کیسے نصیب ہو؟
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
=====================
(۲) حضرت سیدناربیع بن خُثیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت سیدنا علقمہ بن مرثد رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:حضرت سیدنا ربیع بن خثیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت بلند مرتبہ بزرگ تھے۔ جب ان کو فالج کا مرض لاحق ہوا تو ان سے کہا گیا: حضور: اگر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ چاہیں تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا علاج کیا جاسکتا ہے۔یہ سن کر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: بیشک علاج حق ہے ، لیکن عاد وثمود کیسی بڑی بڑی قومیں تھیں، ان میں بڑے بڑے ماہر طبیب تھے ، اور ان میں بیماریاں بھی تھیں، ا ب نہ تو وہ طبیب باقی رہے نہ ہی مریض۔ اسی طرح جب آ پ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے یہ پوچھا جاتا : آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ لوگو ں کو وعظ ونصیحت کیوں نہیں کرتے؟ توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ جو اباً ارشاد فرماتے: ـابھی تو مجھے خود اپنی اصلاح کی ضرورت ہے ،پھر میں لوگوں کو کیسے نصیحت کروں؟انہیں کیسے ان کے گناہوں پر ملامت کروں؟ بے شک لوگ اللہ عزوجل سے دو سرو ں کے گناہوں کے بارے میں تو ڈرتے ہیں لیکن اپنے گناہوں کے بارے میں اس سے بے خوف ہیں ۔
جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا جاتا: آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے صبح کس حال میں کی؟تو ارشاد فرماتے: ہم نے صبح اس حال میں کی کہ اپنے آپ کو کمزور اور گناہ گار پایا، ہم اپنے حصے کا رزق کھاتے ہیں اور اپنی موت کے انتظار میں ہیں ۔
حضرت سیدنا علقمہ بن مرثد رحمۃاللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں: جب حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سیدنا ربیع بن خثیم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو دیکھتے تو سورہ حج کی آیت مبارکہ کایہ حصہ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ تلاوت کرتے اور فرماتے: اے ربیع رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ! اگر تجھے حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم دیکھتے تو تجھ سے بہت خوش ہوتے۔
حضرت سیدنا ربیع بن خثیم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اکثر اپنے آپ کومخاطب کرکے فرمایا کرتے: اے ربیع! اپنا زاد راہ باندھ لے اور سفرِآخرت کی خوب تیار ی کرلے، اور سب سے پہلے اپنی اصلاح کراور اپنے نفس کو خوب نصیحت کر۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
========================
(۳)حضرت سیدناابو مسلم خولانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ
حضرت سیدنا علقمہ بن مرثد رحمۃاللہ تعالیٰ علیہما فرما تے ہیں: حضرت سیدنا ابومسلم خولانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کبھی بھی کسی ایسے شخص کے پاس نہ بیٹھتے جو دنیاوی با توں میں مشغول ہوتا ۔ ایک مرتبہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ مسجد میں گئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ ایک جگہ جمع ہیں ، آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے یہ گمان کیا کہ یہ لوگ ذکر اللہ عزوجل کے لئے یہاں جمع ہیں۔ چنانچہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ان کے پاس جاکر بیٹھ گئے ۔ وہ لوگ آپس میں باتیں کررہے تھے ، کوئی کہہ رہا تھا : میرا غلام فلاں فلاں جگہ گیا ۔ کوئی کہہ رہا تھا: میں نے غلام کو سفر کا سامان مہیا کردیا ہے ۔ الغر ض اسی طرح کی دنیاوی باتیں اس محفل میں ہو رہی تھیں۔
جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ان کی یہ باتیں سنیں تو فرمایا: سبحان اللہ عزوجل! میراتو تمہارے متعلق کچھ اور ہی گمان تھا مگر تم کچھ اور نکلے۔ میری اور تمہاری مثال تو ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص سردی کے موسم میں شدید موسلا دھار بارش میں بھیگ رہا ہو پھر اچانک اسے ایک بڑی عمارت نظر آئی، جب وہ پناہ لینے کے لئے اس میں داخل ہوا تو اسے معلوم ہوا کہ اس بلند وبالاعمارت پر تو چھت ہی نہیں ، اور اس عمارت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا ۔
میں بھی تمہارے پاس اس لئے آیا تھا کہ شاید تم ذکر اللہ عزوجل میں مشغول ہو، لیکن تم تو دنیا دار لوگ ہو، تمہارے پاس بیٹھنا فضول ہے، یہ کہتے ہوئے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ وہاں سے تشریف لے گئے ۔
جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ بڑھاپے کی وجہ سے بہت زیادہ کمزور ہوگئے تو لوگوں نے عرض کی: حضور! اپنے مجاہدات میں کچھ کمی کردیجئے۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:اے لوگو ! تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ اگر تم مقابلے کے لئے میدان میں گھوڑا بھیجوتوکیا تم اس کے سوار کو ہدایت نہیں کر و گے کہ گھوڑا خوب بھگانا، اور کسی کو اپنے سے آگے نہ نکلنے دینا اورجب تمہیں وہ جیت کانشان نظر آئے جس تک پہنچنا ہے تو گھوڑے کی رفتار مزید تیز کردینا ۔
لوگو ں نے کہا: حضور! ہم ایسی ہی ہدایتیں گھڑ سوار کو کرتے ہیں۔پھر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! میں بھی اپنی موت کے بالکل قریب پہنچ چکاہوں، پھر میں اپنے عمل کو کم کیسے کردوں؟ بلکہ اب تو مجھے اپنے رب عزوجل کی اور بھی زیادہ عبادت کرنی چاہے۔پھر فرمایا: ہر کوشش کرنے والے کی کوئی نہ کوئی غایت ہوتی ہے،اورہرشخص کی غایت موت ہے۔کچھ تواپنی موت تک پہنچ چکے اورجو باقی ہیں عنقریب وہ بھی پہنچ جائیں گے، بالآخر مرنا سب نے ہے۔
؎ ملک فانی میں فنا ہر شئے کو ہے
سن لگا کر کان آخر موت ہے
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
=======================
(۴)حضرت سیدنااسود بن یزید علیہ رحمۃ اللہ المجید
حضرت سیدنا علقمہ بن مرثد رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: حضرت سیدنااسود بن یزید علیہ رحمۃاللہ المجید عبادت وریاضت میں خوب کوشش فرماتے ۔بہت زیادہ مجاہدات کرتے ،بکثرت روزے رکھتے یہاں تک کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا رنگ سبزی مائل اور پیلا پڑگیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسّی(80) حج کئے۔
حضرت سیدنا علقمہ بن قیسرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ان سے کہتے:آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کب تک اپنے جسم پر مشقت کرتے رہیں گے؟یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے: میں اپنے جسم کے آرام وسکون کے لئے ہی تو یہ سب کچھ کر رہا ہو ں۔ پھرجب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رونے لگے۔لوگو ں نے پوچھا: حضور! یہ رونا کیسا ؟فرمایا : میں کیوں نہ رو ؤں؟ کیا مجھ سے بھی زیادہ کوئی رونے کا حق دارہے ؟( پھر عاجزی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ) خد ا عزوجل کی قسم! اگر اللہ عزوجل نے مجھے بخش بھی دیا تب بھی مجھے اپنے گناہوں کی وجہ سے اللہ عزوجل سے حیا آتی رہے گی،اگر بندہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا گناہ بھی کرلے اور اسے بخش بھی دیا جائے لیکن پھر بھی اسے اپنے گناہ پر شر مندگی ضرور رہے گی ۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
====================
(۵)حضرت سیدنا مسروق بن اجدع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت سیدنا علقمہ بن مرثد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے ،حضرت سیدنا مسروق بن اجدع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زوجہ محترمہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہا فرماتی ہیں:حضرت سیدنا مسروق علیہ رحمۃ اللہ المعبود نماز میں طویل قیام کرتے جس کی وجہ سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی پنڈلیاں سوج جاتیں۔جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نماز پڑھتے تو میں ان کے پیچھے بیٹھ جاتی،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی حالت دیکھ دیکھ کر مجھے بہت تر س آتا اور میں روتی رہتی ۔
پھرجب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے وصال کا وقت قریب آیا توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رونے لگے۔ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے رونے کا سبب پوچھا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا :میں کیوں نہ روؤں، اس وقت میں اپنے آپ کو اس حالت میں پاتا ہوں کہ موت میرے سامنے ہے ،میرے ایک طر ف جنت اور دوسری طر ف جہنم ہے، اب معلوم نہیں کہ موت مجھے جہنم کی طر ف دھکیلتی ہے یا جنت میں لے جاتی ہے۔
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
======================
(۶)حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی
حضرت سیدناعلقمہ بن مرثد رحمۃاللہ تعا لیٰ علیہ حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی کے متعلق فرماتے ہیں:ہم نے حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃاللہ القوی سے زیادہ غمگین کسی بھی شخص کو نہیں دیکھا، آپ رحمۃاللہ تعا لیٰ علیہ ہر وقت غمگین و اداس رہتے ، اور فرما یا کرتے: ہم ہنستے ہیں او ر ہمیں اس بات کی فکر ہی نہیں کہ اگر (بر وزِ قیامت ) اللہ عزوجل نے ہمارے اعمال کے بارے میں یہ فرمادیا: جاؤ تمہارا کوئی بھی عمل میرے نزدیک مقبول نہیں۔ ( تو ہمارا کیا بنے گا )
آپ رحمۃاللہ تعا لیٰ علیہ فرمایا کرتے: اے ابن آدم! تیری ہلاکت ہو، کیا تو اللہ عزوجل سے مقابلہ کرناچاہتا ہے ؟ہا ں !ہا ں ! جس نے اللہ عزوجل کی نافرمانی کی گویااس نے اپنے پر وردگارعزوجل سے جنگ کی۔ خدا عزوجل کی قسم! میں ستّر(70) بدری صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ملا ہوں، ان میں سے اکثر او ن کا لباس پہنتے ،اگرتم انہیں دیکھتے تو انہیں دیوانہ سمجھتے،اور اگر وہ تمہارے نیک و پرہیز گار لوگو ں کو دیکھ لیتے تو ان کے متعلق کہتے: ان کے اندر کوئی قابل تعریف بات نہیں۔اوراگر وہ تمہارے گناہگاروں اور برے لوگو ں کو دیکھ لیتے تو ان کے متعلق فرماتے : (ایسا لگتا ہے جیسے) ان لوگو ں کا آخرت پر ایمان ہی نہیں۔
پھر آپ رحمۃاللہ تعا لیٰ علیہ نے فرمایا :خدا عزوجل کی قسم! میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے جن کے نزدیک دنیا کی وقعت قدموں کی خاک جتنی بھی نہیں ، اور وہ ایسے عظیم لوگ تھے کہ اگر ان میں سے کسی کو رات کے وقت تھوڑا سابھی کھانا ملتا تو کہتا: میں اکیلا یہ سارا کھانا نہیں کھاؤں گا بلکہ اس میں سے کچھ ضرور اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر صدقہ کر وں گا، حالانکہ خود ان کی ایسی حالت ہوتی کہ ان پر صدقہ کیا جائے ۔
حضرت سیدناعلقمہ بن مرثدرحمۃاللہ تعا لیٰ علیہ فرماتے ہیں:جب حضرت سیدناعمر بن ہبیرہ رحمۃاللہ تعا لیٰ علیہ عراق کے گور نر بن کر آئے تو انہوں نے حضرت سیدناامام حسن بصری اور امام شعبی علیہما رحمۃاللہ الکافی کو اپنے پاس بلایا اور انہیں ایک گھر دے دیا جس میں آپ دونوں حضرات رحمۃاللہ تعالیٰ علیہما تقریبا ًایک ماہ قیام فرما رہے۔ ایک دن صبح صبح ایک خادم ان کے پا س آیا اور کہا: حضرت سیدنا عمر بن ہبیرہ رحمۃاللہ تعا لیٰ علیہ آپ سے ملاقات کے لئے آرہے ہیں ، اتنی ہی دیر میں حضرت سیدناعمربن ہبیرہ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ اپنی لاٹھی سے سہارا لیتے ہوئے وہاں آپہنچے۔ آتے ہی سلام کیااور بڑے مؤدبا نہ انداز میں آپ دونوں حضرات رحمۃاللہ تعا لیٰ علیہماکے سامنے بیٹھ گئے ۔
پھر(گورنرِ عراق) حضرت سیدنا عمربن ہبیرہ رحمۃاللہ تعا لیٰ علیہ نے کہا:یزید بن عبدالملک نے مجھے ایک خط بھیجا ہے جس میں کچھ احکام نافذ کرنے کا حکم دیاگیا ہے، اور میں جانتا ہوں کہ ان احکام کے نفاذ میں ہلاکت ہی ہلاکت ہے ۔ اب اگر میں اس کی اطاعت کرتا ہوں تو اللہ عزوجل کی نافرمانی ہوتی ہے ، اور اگر اللہ عزوجل کی اطاعت کرو ں تو اس (یعنی یزید بن عبدالملک )کے حکم سے رو گر دانی ہو گی ،اب آپ حضرات ہی کوئی ایساطریقہ بتائیں کہ میں یزید بن عبدالملک کے حکم سے خلا صی پاجاؤں۔
یہ سن کرحضر ت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے حضرت سیدناامام شعبی علیہ رحمۃاللہ الکافی سے فرمایا: اے ابو عمر! تم ہی ان کے سوال کا جواب دو۔ حضرت سیدناامام شعبیعلیہ رحمۃاللہ الکافی نے کچھ اس طرح گفتگو کی:اے ابن ہبیرہ!تمہاری سلامتی اسی میں ہے کہ تم یزید بن عبد الملک کی بات مان لو۔ یہ سن کر حضرت سیدناعمر بن ہبیرہ رحمۃااللہ تعالیٰ علیہ حضرت سیدناحسن بصری علیہ رحمۃاللہ القوی کی طرف متو جہ ہوئے اور عرض کی: حضور !آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:امام شعبی علیہ رحمۃاللہ الکافی نے جو کچھ کہا وہ تو آپ سن چکے۔عر ض کی: حضور! آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) اس بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں ؟
اما م حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے ارشاد فرمایا: اے ابن ہبیرہ! عنقریب اللہ عزوجل کے فر شتوں میں سے ایک فرشتہ تیرے پاس آئے گا،جوبہت مضبوط اور انتہائی کرخت لہجے والاہوگا۔وہ کبھی بھی اللہ عزوجل کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتا، پھر وہ تجھے تیرے خوبصورت و کشادہ محل سے نکال کر انتہائی تنگ و تاریک قبر میں پہنچا دے گا۔ اے ابن ہبیرہ !اگر تو اللہ عزوجل سے ڈرے گا تو وہ تجھے یزید بن عبد الملک کے شر سے محفوظ رکھے گا جبکہ یزید بن عبد الملک تجھے اللہ عزوجل کی پکڑ سے ہر گز نہیں بچا سکتا۔
اے ابن ہبیرہ ! ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا ،اگر تو نے یزید بن عبدالملک کا کوئی ایسا حکم مانا جس میں اللہ عزوجل کے حکم کی نافرمانی ہو تو کہیں ایسا نہ ہوکہ اس کی وجہ سے اللہ عزوجل تجھ پر نگاہِ غضب ڈالے اور مغفرت کے دروازے تجھ پر بندکر دے ۔
میری ملاقات اس امت کے سابقہ لوگو ں سے بھی ہوئی ہے۔ وہ دنیا سے اتنے ہی دور بھاگتے تھے جتنی تم اس کی خواہش کرتے ہو، حالانکہ دنیا ان کے قدموں میں گر تی تھی اور تم سے کوسو ں دور بھا گتی ہے۔ اے ابن ہبیرہ! اللہ عزوجل نے جس مقام سے تجھے ڈرایا ہے، میں بھی تجھے اس مقام سے ڈراتا ہوں ۔اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
ذٰلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِیۡ وَخَافَ وَعِیۡدِ ﴿14﴾
ترجمہ کنزالایمان:یہ اس لئے ہے جومیرے حضورکھڑے ہونے سے ڈرے اورمیں نے جوعذاب کاحکم سنایاہے اس سے خوف کرے۔ ( پ13، ابراہیم:14)
پھرآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: اگر تواللہ عزوجل کی اطاعت کریگا تو اللہ عزوجل تجھے یزید بن عبدالملک کے شرسے بچائے گا اور اگر تو یزید بن عبدالملک کی اطاعت اور اللہ عزوجل کی نافرمانی کریگاتو اللہ عزوجل تجھے یزید بن عبدالملک کے سپر د کر دے گا ۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ نصیحت آموز باتیں سن کر حضرت سیدنا عمر بن ہبیرہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی آنکھیں بھر آئیں اور وہ زار وقطار روتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔
دو سرے دن حضرت سیدناعمربن ہبیرہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان دو نوں بزرگو ں کے لئے تحائف بھجوائے، حضرت سیدنا امام شعبی علیہ رحمۃاللہ الہادی کی نسبت حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃاللہ القوی کے تحائف زیادہ تھے(حضرت سیدنا امام شعبیعلیہ رحمۃاللہ الہادی)مسجد کی طر ف روانہ ہوئے اور (تحائف دیکھ کر) کہا :اے لوگو! تم میں سے جو بھی اس بات پر قادر ہو کہ وہ اللہ عزوجل کے حکم کو دنیا داروں پر تر جیح دے تو اسے ضرور ایسا ہی کرنا چاہے ۔
اس پاک پر ورد گار عزوجل کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ایسا نہیں ہے کہ جس چیز کو حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ ا لقوی جانتے ہیں ،میں اس سے جاہل ہوں، بلکہ بات دراصل یہ ہے میں نے ابن ہبیرہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی خوشنودی چاہی لیکن اللہ عزوجل نے مجھے اس سے دور کردیا(یعنی میں حضرت سیدنا حسن بصری علیہ رحمۃاللہ القوی کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا )
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)
====================================
(۷)حضرت سیدنا اویس قرنی علیہ رحمۃاللہ الغنی
==================
حضرت سیدنا علقمہ بن مرثد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت سیدنااویس قرنی علیہ رحمۃاللہ الغنی کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :'' حضرت سیدنااویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کے خاندان والوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو مجنون سمجھا ہوا تھا، اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے لئے اپنے گھروں کے قریب کمرہ بنا یاہوا تھا۔ دودوسال گزر جاتے لیکن گھر والے آپ کی طر ف تو جہ نہ دیتے، نہ ہی آپ کی خبر گیری کرتے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی گزر بسر اس طر ح کرتے کہ کھجور کی گٹھلیاں چنتے ، شام کو انہیں بیچتے اور ان کے بدلے جو رَدِّی کھجور یں وغیرہ ملتیں انہیں افطاری کے لئے رکھ لیتے (اور انہیں کھا کر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرتے )
جب حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعا لیٰ عنہ خلیفہ بنے، توایک مرتبہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کے اجتماع میں فرمایا: ''اے لوگو ! کھڑے ہوجاؤ ۔'' حکم پاتے ہی تمام لوگ کھڑے ہوگئے ۔پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: '' قبیلہ ُمراد کے لوگو ں کے علاوہ سب بیٹھ جائیں۔''(چند لوگوں کے علاوہ) سب بیٹھ گئے۔ پھر فرمایا: ''تم میں سے ''قبیلہ قرن''کے لوگ کھڑے رہیں باقی سب بیٹھ جائیں ۔''ایک شخص کے علاوہ سب بیٹھ گئے، یہ کھڑا ہونے والا شخص حضرت سیدنا اویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کا چچا تھا ۔
امیر المؤ منین حضرت سیدناعمر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے ان سے پوچھا :''کیاآپ ''قبیلہ قرن ''کے رہنے والے میں ا؟'' انہوں نے عرض کی :''جی ہاں !میں'' قرن ''ہی کا رہنے والاہوں۔'' پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا :''کیا آپ اویس قرنی کو جانتے ہيں ؟'' اس نے جواب دیا:'' حضور! آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس اویس( رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کے متعلق سوال کررہے ہیں وہ تو ہمارے ہاں احمق مشہور ہے، وہ اس لائق کہاں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے متعلق استفسار فرمائیں ،وہ توپاگل و مجنون ہے ۔''
یہ سن کرآپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ رونے لگے، اور فرمایا:'' میں اُس پر نہیں بلکہ تم پر رو رہاہوں،میں نے نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ''اللہ عزوجل اُویس قرنی کی شفاعت سے'' قبیلہ ربیعہ'' اور ''قبیلہ مضر'' کے برابر لوگو ں کوجنت میں داخل فرمائے گا ۔ ''
(سنن ابن ماجۃ، ابواب الزھد، باب صفۃ النار، الحدیث۴۳۲۳،ص۲۷۴۰)
(مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الفضائل، باب ما ذکر فی اویس القرنی، الحدیث۱،ج۷،ص۵۳۹)
حضرت سیدنا ہرم بن حیان علیہ رحمۃ اللہ المنان فرماتے ہیں:'' جب مجھ تک یہ حدیث پہنچی تو میں فوراً ''کو فہ'' کی طر ف روانہ ہوا ۔میرا وہاں جانے کا صرف یہی مقصد تھا کہ حضرت سیدنااویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کی زیارت کرلو ں،اور ان کی صحبت سے فیضیاب ہوسکوں۔'' کوفہ '' پہنچ کرمیں انہیں تلاش کرتا رہا۔ بالآخر میں نے انہیں دوپہر کے وقت نہرفرات کے کنارے وضوکرتے پایا ۔ جو نشانیاں مجھے ان کے متعلق بتائی گئی تھیں ان کی وجہ سے میں نے انہیں فوراً پہچان لیا ۔
ان کا رنگ انتہائی گندمی ،جسم دبلا پتلا،سر گرد آلوداور چہرہ انتہائی بارعب تھا۔ میں نے قریب جاکر انہیں سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا، اور میری طرف دیکھا۔ میں نے فوراً مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا لیکن انہوں نے مصافحہ نہ کیا۔میں نے کہا : ''اے اویس (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)! اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کیسے ہیں؟ ''ان کو اس حالت میں دیکھ کراور ان سے شدید محبت کی وجہ سے میری آنکھیں بھر آئیں اور میں رونے لگا۔ مجھے روتا دیکھ کر وہ بھی رونے لگے ۔
اور مجھ سے فرمایا:'' اے میرے بھائی ہرم بن حیان (علیہ رحمۃاللہ المناّ ن )!اللہ عزوجل آپ کو سلامت رکھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کیسے ہیں ؟ اورمیرے بارے میں اپ کوکس نے بتا یا کہ میں یہاں ہوں؟ ''میں نے جواب دیا:''اللہ عزوجل نے مجھے تمہاری طر ف راہ دی ہے۔''
یہ سن کرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے'' لَا اِلٰہَ اِلَّااللہُ ''اور'' سُبْحٰنَ اللہِ ''کی صدائیں بلند کیں،اور فر مایا:''بے شک ہمارے رب عزوجل کا وعدہ ضرور پورا ہونے والا ہے ۔''
پھر میں نے ان سے پوچھا :''آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو میرااور میرے والد کا نام کیسے معلوم ہوا؟ ''حالانکہ آج سے پہلے نہ کبھی میں نے آپ کو دیکھا اور نہ ہی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھے دیکھا۔''
یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ''مجھے میرے علیم وخبیرپروردگار عزوجل نے خبردی ہے۔ اے میرے بھائی ھر م بن حیان(علیہ رحمۃاللہ المناّ ن )! میری روح تیری روح کو اس وقت سے جانتی ہے جب (عالمِ ارواح) میں تمام روحوں کی آپس میں ملاقات ہوئی تھی ۔بے شک بعض مؤمن اپنے بعض مؤمن بھائیوں کوجانتے ہیں اور وہ اللہ عزوجل کے حکم سے ایک دوسرے سے اُلفت ومحبت رکھتے ہیں، اگرچہ ان کی بظاہرملاقات نہ ہوئی ہو،اگرچہ وہ ایک دوسرے سے بہت دور رہتے ہوں۔
پھر میں نے ان سے کہا :''اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے ،مجھے رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی کوئی حدیث سنائیے۔''یہ سن کر انہوں نے فرمایا: ''آپ پر میرے ماں باپ قربان! مجھے نہ تو حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی صحبت با برکت نصیب ہو ئی ا ور نہ ہی میں ان کی زیارت سے مشرف ہوسکا ،ہاں! اتنا ضرور ہے کہ میں نے ان عظیم ہستیوں کی زیارت کی ہے جن کی نظریں میرے آقاو مولیٰ حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے والضّحی والے چہرے کی زیارت کرچکی ہیں ۔میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اپنے اوپر اس بات کا دروازہ کھولوں کہ لوگ مجھے محدث ، مفتی یا راوی کہیں، میں لوگوں سے دور رہنا چاہتاہوں اور اپنی اس حالت پر خوش ہوں۔''
پھر میں نے ان سے کہا :'' اے میرے بھائی! مجھے اللہ عزوجل کے کلام سے کچھ تلاوت ہی سنا دیجئے ، اور مجھے کچھ نصیحت فرمائیے تا کہ میں اسے یاد رکھوں ۔ بے شک میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے صرف اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر محبت کرتا ہوں ۔یہ سن کر حضرت سیدنااویس قرنی علیہ رحمۃ اللہ الغنی نے میرا ہاتھ پکڑا،اوراَعُوْذُ بِاللہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم پڑھ کر فرمایا: میرے رب عزوجل کا کلام سب کلاموں سے اچھا ہے ۔پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سورہ دخان کی یہ آیتیں تلاوت فرمائیں:
وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَمَا بَیۡنَہُمَا لٰعِبِیۡنَ ﴿38﴾مَا خَلَقْنٰہُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوۡنَ ﴿39﴾ اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ مِیۡقَاتُہُمْ اَجْمَعِیۡنَ ﴿ۙ40﴾یَوْمَ لَا یُغْنِیۡ مَوْلًی عَنۡ مَّوْلًی شَیْـًٔا وَّ لَا ہُمْ یُنۡصَرُوۡنَ ﴿ۙ41﴾اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ اللہُ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الْعَزِیۡزُ الرَّحِیۡمُ ﴿٪42﴾
ترجمہ کنزالایمان:اورہم نے نہ بنائے آسمان اورزمین اورجوکچھ ان کے درمیان ہے،کھیل کے طورپر۔ہم نے انہیں نہ بنایامگرحق کے ساتھ لیکن ان میں اکثر جانتے نہیں۔بے شک فیصلہ کادن ان سب کی میعاد ہے۔ جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ ان کی مدد ہوگی، مگر جس پراللہ رحم کرے، بے شک وہی عزت والا مہربان ہے۔ (پ 25،الدخان: 38تا42)
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ چند آیتیں پڑھیں پھر ایک زور دار چیخ ماری۔ میرے گمان کے مطابق شاید آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بے ہوش ہوگئے تھے، جب انہیں کچھ افاقہ ہوا تو فرمانے لگے:'' اے ابن حیان!تیرا باپ فوت ہوچکا، عنقریب تو بھی اس دنیا سے رخصت ہوجائے گا۔ پھر یا تو تیرا ٹھکانا جنت میں ہو گایا پھر معا ذ اللہ عزوجل جہنم میں ۔(اللہ عز وجل ہم سب کو جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے)
اے ابن حیان علیہ رحمۃ اللہ المناّن!تیرا باپ حضرت سیدناآدم علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام اور تیری ماں '' حضرت سیدتناحوا'' رضی اللہ تعا لیٰ عنہا اس دنیا فانی سے جاچکے ، حضرات انبیاء کرام علیٰ نبیناوعلیہم الصلوٰۃ والسلام حضرت سیدنا نوح ، حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ، حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ ،حضرت سیدناداؤ د علیٰ نبیناوعلیہم الصلوٰۃ والسلام اور ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمبھی اس دنیا سے ظاہری پردہ فرما چکے ، خلیفہ اوّل امیرالمؤمنین حضر ت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی انتقال ہوگیا، اور میرے بھائی اور دوست خلیفہ ثانی امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فارو ق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی وصال ہوگیا۔ جب میں نے یہ سنا توفوراً کہا :''حضور! یہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کیا فرمارہے ہیں؟ حضرت سیدنا عمر فارو ق ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ تو ابھی حیات ہیں ،ان کا ابھی وصال نہیں ہوا۔'' یہ سن کرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:'' مجھے میرے پروردگار عزوجل نے خبردی ہے ، اورمیرا دل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ان کا انتقال ہوچکا ہے، عنقریب میں اور آپ بھی اس دنیا فانی سے رخصت ہوجائیں گے۔''
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں درودوسلام کے گجرے نچھاور کئے اور آہستہ آواز میں دعائیں مانگنا شروع کردیں۔
پھر فرمایا:'' میری ایک نصیحت ہمیشہ یاد رکھنا۔ کتاب اللہ عزوجل میں تمام احکامات آچکے ، تمام انبیاء کرام علیٰ نبیناوعلیہم الصلوٰۃ والسلام اوراولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا اس دنیا سے کوچ کرجانا ہمارے لئے ایک بہت بڑی نصیحت ہے ۔ہمیشہ موت کو یاد رکھنا۔اپنے دل کودنیا میں نہ الجھانا اور جب تو یہاں سے اپنی قوم کے پاس جائے تو انہیں (عذابِ آخرت) سے خوب ڈرانا ، اور تمام لوگو ں کا خیر خواہ اور ناصح بن کر رہنا اور کبھی بھی جماعت سے دور نہ ہونا ، اگر تو مسلمانوں کی بڑی جماعت سے جدا ہوگیا ،تو توُ دین سے جدا ہوجائے گا ۔ تجھے معلوم بھی نہ ہوگا اور تو جہنم میں داخل ہوجائے گا ۔''
پھر فرمایا:''اے میرے بھائی! تو اپنے لئے بھی دعا کرنا اور مجھے بھی دعاؤں میں یاد رکھنا۔''اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کرنے لگے :''اے پرور دگار عزوجل! ہرم بن حیان کا گمان ہے کہ''یہ مجھ سے تیری خاطر محبت کرتا ہے اور تیر ی رضاہی کی خاطرمجھ سے ملاقات کرنے آیا ہے ۔ یا اللہ عزوجل! مجھے جنت میں اس کی پہچان کرادینا ، اور جنت میں بھی میری اس سے ملاقات کرادینا ۔یا اللہ عزوجل! جب تک یہ دنیا میں باقی رہے اس کی حفاظت فرما ، اور اسے تھوڑی ہی دنیا پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرما۔یا اللہ عزوجل اسے جو نعمتیں تو نے عطا کی ہیں۔ان پر شکر کرنے والا بنادے ،ہماری طر ف سے اسے خوب بھلائی عطا فرما ۔''
پھر مجھ سے فرمایا:'' اے ابن حیان!تجھ پر اللہ عزوجل کی رحمت ہو اور خوب برکت ہو، آج کے بعد میں تجھ سے ملاقات نہ کرسکوں گا،بے شک میں شہرت کو پسند نہیں کرتا۔جب میں لوگو ں کے درمیان ہوتا ہوں تو سخت پریشان اور غمگین رہتا ہوں۔بس مجھے توتنہائی بہت پسند ہے۔آج کے بعد تو میرے متعلق کسی سے نہ پوچھنا۔ اور نہ ہی مجھے تلاش کرنا۔میں ہمیشہ تجھے یاد رکھوں گا، اگر چہ تم مجھے نہ دیکھو گے اور میں تجھے نہ دیکھ سکوں گا۔ میرے بھائی! تو مجھے یا در کھنا ،میں تجھے یا د رکھوں گا۔ میرے لئے دعا کرتے رہنا۔ اللہ عزوجل نے چاہا تو میں تجھے یاد رکھوں گا اور تیرے لئے دعا کرتا رہوں گا۔ اب تو اس سمت چلا جا اور میں دوسری طر ف چلا جاتا ہوں ۔
یہ کہہ کر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک طر ف چل دیئے۔ میں نے خواہش ظاہر کی کہ کچھ دُو رتک آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ چلوں، لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انکار فرمادیا، اور ہم دونوں روتے ہوئے ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔
میں بار بار آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو مڑمڑ کر دیکھتا ،یہاں تک کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک گلی کی طر ف مڑگئے۔ اس کے بعد میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کوبہت تلاش کیا لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجھے نہ مل سکے، اور نہ ہی کوئی ایسا شخص ملا جو مجھے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے متعلق خبر دیتا۔ہاں! اللہ عزوجل نے مجھ پر یہ کرم کیا مجھے ہفتے میں ایک ،دو مرتبہ خواب میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زیارت ضرور ہو تی ہے ، (اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)))
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.