You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اعتکاف روح کی غذا
=============
اعتکاف کے فضائل :
-----------------------
اعتکاف ایک ایسی نیکی ہے جس کی اہمیت قرآن پاک میں بھی بیان کی گئی ہے اور احادیث رسول میں بھی۔ قرآن پاک میں ہے:
طَہِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ ۔
میرا گھر خوب ستھرا کرو۔ طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع وسجود والوں کے لیے۔
(البقرہ: ۲؍ ۱۲۵)
اس آیت میں اعتکاف والوں کے لیے خانۂ خدا کو پاک صاف رکھنے کا حکم ہے۔ اس سے اعتکاف کے لیے مسجد کی خصوصیت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ مردوں کے لیے مسجد ضروری ہے۔ ہاں عورتیں اپنے گھروں میں اعتکاف کرسکتی ہیں اور یہ گھر میں اس جگہ اعتکاف کریں گی جو نماز کے لیے خاص ہے۔اوراسی آیت سے یہ بھی معلوم ہواکہ نمازکے ساتھ اعتکاف بھی قدیم عبادت ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:
وَلَا تُبَاشِرُوْہُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِے الْمَسٰجِدِ
(البقرہ: ۲؍ ۱۸۷)
اور عورتوں کو ہاتھ نہ لگاؤ جب تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ معتکف کو جائز نہیں کہ شہوت سے عورتوں کو ہاتھ لگائے یا ان سے جماع کرے۔
اعتکاف کے مسائل اور بھی ہیں لیکن قرآن نے اس خاص مسئلے کو بیان کرکے اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اعتکاف کا ایک خاص مقصد یہ بھی ہے کہ اللہ کے بندے کچھ دنوں کے لیے اپنی عورتوں سے دور رہ کر خدا کی عبادت میں لگ جائیں اور اپنی توجہ کو دنیا کی طرف سے بالکل ہٹالیں۔
روزہ رکھ کر آدمی کھانے پینے اور جماع سے دن کے حصوں میں بچتا ہے رات میں یہ سب چیزیں جائز ہیں لیکن اعتکاف کی حالت میں رات کے وقت بھی جماع سے پرہیز کرنے کاحکم ہے۔ البتہ کھانے پینے کی رات میں اجازت ہے، روزہ دار دن میں بازار آجاسکتا ہے خرید وفروخت بھی کرسکتا ہے لیکن اعتکاف کی حالت میں معتکف کوگھومنے پھرنے خرید وفروخت کرنے کی بھی اجازت نہیں اور سواے مخصوص ضروریات کے مسجد سے نکلنا بھی جائز نہیں۔
خرید وفروخت اور تجارت کے لیے نکلنا بہر حال منع ہے البتہ اپنی یا بال بچوں کی ضرورت کی کوئی چیز خریدی اور سامان مسجد سے باہر ہوتو اس کی اجازت ہے۔
(ماخوذ: از بہار شریعت، ۵؍ ۱۵۲)
ابوداؤد شریف کی روایت ہے:
ام المؤمنین حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
معتکف پر سنت یہ ہے (یعنی یہ حکم حدیث سے ثابت ہے) کہ نہ مریض کی عیادت کو جائے ،نہ جنازے میں حاضر ہو، نہ عورت کو ہاتھ لگائے اور نہ اس سے مباشرت کرے اور نہ کسی حاجت کے لیے جائے مگر اس حاجت کے لیے جاسکتا ہے جو ضروری ہے (جیسے پیشاب، پاخانہ اور جمعہ کے لیے اگر اس مسجد میں نہ ہوتا ہو) اور اعتکاف بغیر روزہ کے نہیں اور اعتکاف جماعت والی مسجد میں کرے۔
(مشکوٰۃ: ص؍۱۸۳، بہار شریعت:۵؍ ۱۴۶)
ابن ماجہ کی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے معتکف (اعتکاف والے) کے لیے فرمایا:
وہ یعنی معتکف گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیوں سے اسے اس قدر ثواب ملتا ہے جیسے اس نے تمام نیکیاں کیں۔
(مشکوٰۃ: ص؍۱۸۳)
سبحان اللہ اس حدیث پاک سے اعتکاف کی کیسی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
ہمیں غور کرنا چاہیے اور اعتکاف جیسی عبادت کے لیے کوشش کرنی چاہیے کہ یہ سنہرا موقع جس کا لمحہ لمحہ عبادت وثواب میں گزرتا ہے، بڑی قسمت والوں کو ہاتھ آتا ہے۔ آدمی سال بھر تو دنیا کے کاموں میں لگا رہتا ہے، کاش رمضان المبارک کے ایک آخری عشرے کو تو رب العالمین کے لیے خاص کرکے اس کی طرف سے ملنے والی رحمت ومغفرت کی سوغات کا مستحق بن جائے اور گناہوں سے آلودہ زندگی کو طہارت وپاکیزگی سے آراستہ اور ہمکنار کرلے۔
امام بیہقی شعب الایمان میں، سیدناعلی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہمااپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے رمضان میں دس دنوں (یعنی آخری عشرے) کا اعتکاف کرلیا تو ایسا ہے جیسے دو حج اور دو عمرے ادا کیے۔
(شعب الایمان:الجزئ؍ ۵،ص؍۴۳۶)
اعتکاف کرنے والے کے لیے یہ ایک بڑی بشارت ہے کہ دس روز تک اللہ کے لیے جس نے اس کے گھر میں اپنے کو محصور کرلیا اور دنیاوی علائق سے اپنے کو دور رکھا تو اس کے بدلے اللہ کی طرف سے دو حج اور دو عمرے کا اسے ثواب عطا کیا جاتا ہے۔
اور حج وعمرے کے فضائل احادیث میں یہ بیان کیے گئے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ راوی کہ
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
حج وعمرہ محتاجی اور گناہوں کو ایسے دور کرتا ہے جیسے بھٹی لوہے اور چاندی، سونے کے میل کو دور کرتی ہے اور حج مبرور (مقبول) کا ثواب جنت ہی ہے۔
(مشکوۃ شریف:مناسک،ص؍۲۲۲)
اورحضرت ابوہریرہ سے ایک ر وایت ہے کہ
جس نے حج کیا اور رفث (یعنی فحش کلامی) اور فسق نہ کیا تو گناہوں سے ایسا پاک لوٹا جیسے اس دن کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔(مشکوۃ شریف:ص؍۲۲۱)
حضرت ابوہریرہ ہی کی ایک اورروایت میں ہے:
عمرہ سے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو درمیان میں ہوئے اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔
(بہار شریعت: جلد ششم، ص؍۳،۴/مشکوۃ:۲۲۱)
یہ ایک حج وعمرہ کا ثواب ہے اور اعتکاف ایسا ہے جیسے کہ دو حج وعمرہ ادا کیے۔ا س سے اعتکاف کی فضیلت بہ خوبی واضح ہے۔
حضرت عطاخراسانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
معتکف کی مثال اس محرِم کی طرح ہے جواپنے آپ کورحمٰن کی بارگاہ میں ڈال دیتاہے اورکہتاہے :
اللہ کی قسم میں تیرے درکونہیں چھوڑوں گاحتیٰ کہ تومجھے اپنی رحمتوں سے نوازدے۔
(بیہقی،درمنثورتفسیرآیت ولاتباشروھن)
اعتکاف کے تفصیلی مسائل تو بہار شریعت اور فتاویٰ رضویہ میں ملاحظہ کیجیے۔
یہاں مختصر چند ضروری مسائل بہار شریعت سے نقل کیے جاتے ہیں۔
اعتکاف کسے کہتے ہیں:
مسجد میں اللہ کے لیے نیت کے ساتھ ٹھہرنا اعتکاف ہے اور اس کے لیے مسلمان عاقل اور جنابت وحیض ونفاس سے پاک ہونا شرط ہے۔ بلوغ یعنی بالغ ہونا شرط نہیں بلکہ نابالغ جو تمیز رکھتا ہے اگر بہ نیت اعتکاف مسجد میں ٹھہرے تو یہ اعتکاف صحیح ہے۔
(عالم گیری، در مختار، رد المحتار)
اعتکاف کس مسجد میں ہو:
اعتکاف کے لیے جامع مسجد ہونا شرط نہیں بلکہ مسجد جماعت میں ہوسکتا ہے،مسجد جماعت وہ ہے جس میں امام ومؤذن مقرر ہوں اگر چہ اس میں پنج گانہ جماعت نہ ہوتی ہو اور آسانی اس میں ہے کہ مطلقاً ہر مسجد میں اعتکاف صحیح ہے اگر چہ وہ مسجد جماعت نہ ہو، خصوصاً اس زمانے میں کہ بہتیری مسجدیں ایسی ہیں جن میں نہ امام ہیں نہ موذن،
(رد المحتار)
اعتکاف کی قسمیں:
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں:
(۱) واجب کہ اعتکاف کی منت مانی۔
(۲) سنت مؤکدہ کہ رمضان کے پورے عشرۂ اخیرہ یعنی آخر کے دس دن میں اعتکاف کیا جائے یعنی بیسویں رمضان کو سورج ڈوبتے وقت اعتکاف کی نیت سے مسجد میں ہو اور تیسویں کے غروب آفتاب کے بعد یا انتیس کو چاند ہونے کے بعد نکلے۔ اگر بیسویں تاریخ کو بعد نماز مغرب اعتکاف کی نیت کی تو سنت مؤکدہ ادا نہ ہوئی۔مغرب سے پہلے نیت کرناضروری ہے۔یہ اعتکا ف سنت کفایہ ہے کہ اگر سب ترک کردیں تو سب سے مطالبہ یعنی مواخذہ ہوگا اور شہر میں ایک نے کرلیا تو سب بری الذمہ ہوجائیں گے۔
(۳) ان دو کے علاوہ جواعتکاف کیا جائے وہ مستحب وسنت غیر مؤکدہ ہے۔
(در مختار ، عالم گیری)
مستحب اعتکاف کے لیے نہ روزہ شرط ہے نہ اس کے لیے کوئی خاص وقت مقرر بلکہ جب مسجد میں گیااور اعتکاف کی نیت کی توجب تک مسجد میں ہے معتکف ہے، چلا آیا اعتکاف ختم ہوگیا۔
(عالم گیری)
حضرت صدر الشریعہ اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
یہ بغیر محنت ثواب مل رہا ہے کہ فقط نیت کرلینے سے اعتکاف کا ثواب ملتا ہے اسے تو نہ کھونا چاہیے۔ مسجد میں اگر دروازے پر یہ عبارت لکھ دی جائے کہ ’’اعتکاف کی نیت کرلو اعتکاف کا ثواب پاؤگے‘‘ تو بہتر ہے کہ جو اس سے ناواقف ہیں انہیں معلوم ہوجائے گااورجوجانتے ہیں ان کے لیے یاددہانی ہوجائے گی ۔
( بہار شریعت: پنجم،ص؍۱۰۲۲، مکتبۃ المدینہ )
اعتکاف کی شرطیں:
سنت اعتکاف میں یعنی رمضان شریف کی پچھلی دس تاریخوں میں جوکیاجاتاہے اس میں روزہ شرط ہے لہٰذااگرکسی مریض یامسافر نے اعتکاف کیامگرروزہ نہ رکھاتوسنت ادا نہ ہوئی بلکہ یہ اعتکاف نفلی ہوا (ردالمحتار)
منت کے واجب اعتکاف میں بھی روزہ شرط ہے۔ (عا لم گیر ی )
معتکف کا مسجد سے نکلنا کب جائز ہے؟
معتکف کو مسجد سے نکلنے کے دو عذر ہیں۔
ایک حاجت طبعی کہ مسجد میں پوری نہ ہوسکے جیسے پاخانہ، پیشاب، استنجا، وضو اور غسل کی ضرورت ہو۔ اگر مسجد میں وضو وغسل کی جگہ بنی ہو یا حوض ہوتو باہرجانے کی بھی اجازت نہیں۔دوم حاجت شرعی مثلاً جمعہ کے لیے جانا یا اذان کہنے کے لیے منارہ پر جانا۔ جب کہ منارہ پر جانے کے لیے باہر ہی سے راستہ ہو اور اگر منارہ کا راستہ اندر سے ہوتو غیر مؤذن معتکف بھی منارہ پر جاسکتا ہے، موذن کی تخصیص نہیں۔ (در مختار، رد المحتار ملخصاً)
قضاے حاجت کے لیے گیا تو طہارت کرکے فوراً چلا آئے، ٹھہرنے کی اجازت نہیں اور اگر معتکف کا مکان مسجد سے دور ہے اور اس کے دوست کا قریب تو یہ ضروری نہیں کہ دوست کے یہاں قضاے حاجت کو جائے بلکہ اپنے مکان پر بھی جاسکتا ہے اور اگر اس کے خود دومکان ہیں ایک نزدیک دوسرا دور تو نزدیک والے مکان میں جائے کہ بعض مشائخ فرماتے ہیں :دور والے مکان میں جائے گاتو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔
(رد المحتار، عالم گیری)
اگر ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جہاں جمعہ نہیں ہوتا تو جمعہ کے لیے نکل سکتا ہے لیکن صرف اتنے وقت کے لیے کہ وہاں پہنچ کر سنتیں پڑھے پھر جمعہ کے بعد کی چار یا چھ سنتیں پڑھ کر چلا آئے۔
اگر ایسی مسجد میں اعتکاف کیا کہ اس میں جماعت نہیں ہوتی تو جماعت کے لیے نکل کر دوسری مسجد میں جاسکتا ہے،
(بہار شریعت)
اگر وہ مسجد گر گئی یا کسی نے مجبور کرکے وہاں سے نکال دیا اور فوراً دوسری مسجد میں چلا گیاتو اعتکاف فاسد نہ ہوا۔
(عالم گیری)
اگر ڈوبنے یا جلنے والے کو بچانے کے لیے مسجد سے باہر گیا یا گواہی دینے کے لیے گیا یا جہاد میں سب لوگوں کا بلاوا ہوا اور یہ بھی نکلا یا مریض کی عیادت یا نماز جنازہ کے لیے گیا اگر چہ کوئی دوسرا پڑھنے والا نہ ہو، تو ان سب صورتوں میں اعتکاف فاسد ہوگیا۔
(عالم گیری وغیرہ)
پاخانہ پیشاب کے لیے گیا تھا قرض خواہ نے روک لیا، اعتکاف فاسد ہوگیا۔
(عالم گیری) یعنی جب مسجد کے باہر گیا تب یہ حکم ہے۔
معتکف نے بھول کر کھالیا تو اعتکاف فاسد نہ ہوا۔ گالی گلوج یا جھگڑا کرنے سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا مگر بے نور وبے برکت ہوجاتا ہے۔
(عالم گیری وغیرہ)یعنی مکروہ ہوجاتاہے۔
معتکف مسجد ہی میں کھائے، پیئے، سوئے۔ ان امور کے لیے مسجد سے باہر ہوگا تو اعتکاف جاتا رہے گا۔
(در مختار وغیرہ)مگر کھانے پینے میں یہ احتیاط لازم ہے کہ مسجدآلودہ (گندی)نہ ہو۔
معتکف کے سوا اور کسی کو مسجد میں کھانے پینے سونے کی اجازت نہیں اور اگر یہ کام کرنا چاہے تو اعتکاف کی نیت کرکے مسجد میں جائے اورنماز پڑھے یا ذکر الٰہی کرے ۔پھر یہ کام کرسکتا ہے۔
(رد المحتار)
اعتکاف میں سکوت کا حکم:
معتکف اگر بہ نیت عبادت سکوت کرے یعنی چپ رہنے کو ثواب کی بات سمجھے تو مکروہ تحریمی ہے اور اگر چپ رہنا ثواب کی بات سمجھ کر نہ ہوتو حرج نہیں اور بری بات سے چپ رہا تو یہ مکروہ نہیں بلکہ یہ تو اعلیٰ درجے کی چیز ہے کیوں کہ بری بات زبان سے نہ نکالنا واجب ہے اور جس بات میں نہ ثواب ہو نہ گناہ یعنی مباح بات بھی معتکف کو مکروہ ہے مگر بوقت ضرورت اور بے ضرورت مسجد میں مباح کلام نیکیوں کو ایسے کھاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو،
(در مختار)
یہ مسئلہ خاص طور سے قابل توجہ ہے کہ اکثر معتکف حضرات مباح باتوں میں حرج نہیں سمجھتے یعنی مباح کلام بھی بوقت حاجت ہو۔بغیرحاجت اس سے بھی پرہیزکرے۔
معتکف کیا کرے:
معتکف نہ چپ رہے نہ کلام کرے تو کیا کرے؟ یہ کرے: قرآن مجید کی تلاوت، حدیث شریف کی قراء ت اور درود شریف کی کثرت، علم دین کا درس وتدریس، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ودیگر انبیا علیہم الصلاۃ والسلام کی سیرتوں اور اذکار، اولیا و صالحین کی حکایات اور امور دین کی کتابت یعنی تصنیف وتالیف وغیرہ ۔
(در مختار)
اورسب سے اہم یہ ہے کہ جس پرنمازیں قضاہیں تمام نفل عبادات چھوڑکران کواداکرنے کی کوشش کرے۔
اعتکاف کی قضا:
نفل اعتکاف اگر چھوڑ دے تو اس کی قضا نہیں کہ وہیں تک ختم ہوگیا اور مسنون اعتکاف کہ رمضان کی پچھلی دس تاریخوں تک کے لیے بیٹھا تھا اسے توڑاتو جس دن توڑا فقط اسی ایک دن کی قضاکرے پھر سے دس دنوں کی قضا واجب نہیں۔
(رد المحتار)
اعتکاف کی قضا صرف قصداًتوڑنے سے نہیں بلکہ اگر عذر کی وجہ سے چھوڑا مثلاً بیمار ہوگیا یا بلا اختیار چھوٹا مثلاً عورتوں کو اعتکاف کی حالت میں حیض یا نفاس یا جنون و بے ہوشی طویل طاری ہوئی توان میں بھی قضا واجب ہے۔ اور بعض فوت ہوتو کُل کی قضا کی حاجت نہیں بلکہ بعض کی قضا کرے اور کُل فوت ہو تو کُل کی قضا ہے۔
(رد المحتار ملخصاً) (بہار شریعت: ج؍۵؍ ۱۴۷ تا ۱۵۵، مطبوعہ فاروقیہ بک ڈپو دہلی)
معتکف کے لیے حوض اور وضو خانے کا حکم:
معتکف کو حوض یاو ضو خانے جانے کی اجازت ہے۔ چاہے وضو کی حاجت ہو یا وضو پر وضو کرنا چاہے بہرصورت جاسکتا ہے اور وضو کے بعد اگر کچھ توقف کیا تب بھی اعتکاف فاسد نہیں ہوگا۔ یوں ہی غسل خانے میں غسل کرنے گیا تب بھی اعتکاف فاسد نہیں ہے چاہے غسل کی حاجت ہو یا نہ ہو کہ وضو خانہ وغیرہ جب مسجد سے ملحق ہوتو اعتکاف والے کے لیے خارج مسجد کاحکم نہیں۔
حضرت صدر الشریعہ بدر الطریقہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ (خلیفۂ اعلیٰ حضرت) فرماتے ہیں:
فناے مسجد جو جگہ مسجد سے باہر اس سے ملحق ضروریات مسجد کے لیے مثلاً جوتا اتارنے کی جگہ اور غسل خانہ وغیرہ ان میں جانے سے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔بلا اجازت شرعیہ اگر باہر چلا گیا تو اعتکاف ٹوٹے گا۔فناے مسجد اس معاملے میں حکم مسجد میں ہے۔ سحری کے اعلان کے لیے فناے مسجد میں جاسکتا ہے۔
(فتاویٰ امجدیہ: ج؍۱، ص؍ ۳۹۹)
ہاں اگر مسجد سے ملحق وضو خانہ، حوض اور غسل خانہ وغیرہ بالکل خارج مسجد ہو یا سرے سے ہو ہی نہیں تو صرف حاجت کے وقت ہی ان کے لیے مسجد سے باہر جاسکتا ہے۔ اس صورت میں البتہ اگر غیر ضروری غسل یا وضو کے لیے گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
تنبیہ:
مسجد سے ملحق فناے مسجد میں پاخانہ بنا ہو اوراعتکاف کرنے والے تعداد میں زیادہ ہوں تو جس کو حاجت شدید ہو وہ گھر کے یا دوسرے قریب کے پاخانے میں باہر جاسکتا ہے جب کہ اندر زیادہ انتظار کرنا پڑے۔
معتکف کے لیے ضروری احتیاطیں:
اعتکاف کرنے والا ایک آدمی ہو یا بہت سے، ان سب کو ذیل کے امور کی پابندی کرنی چاہیے ۔
(۱)دنیاوی اور غیر ضروری باتوں سے پرہیز کریں۔
(۲)ہنسی، ٹھٹھا، مذاق سے بچیں۔
(۳)مسجد میں شور غوغا بالکل نہ کریں حتیٰ کہ آواز بھی بلند نہ کریں۔
(۴)گالی گلوچ اور فحش سے بچنا تو بہت ضروری ہے کہ اس سے اعتکاف اور روزہ دونوں مکروہ ہوں گے اور ایسا کرنا گناہ بھی ہے۔
(۵) کھانے پینے میں زیادتی نہ ہو کہ پیٹ خراب ہو اور دیگر پریشانیاں یا بیماریاں قریب آئیں اور پھر عبادت وتلاوت میں فرق آئے۔
(۶)اعتکاف میں کم کھانے، کم بولنے اور کم سونے پر بہ طور خاص عمل کریں کہ یہ روحانیت کا سر چشمہ ہے۔
(۷)مسائل دینیہ شرعیہ سیکھیں کہ یہ سب عبادتوں سے بڑھ کر عبادت ہے۔ اس کے لیے علما سے رابطہ کریں اور ان سے استفادہ کریں۔ خود علما بھی ایسے مواقع پر عوام الناس کو دین کی باتیں بتانے میں خاص دل چسپی لیں اوروقت دیں کہ یہ دونوں کے لیے باعث سعاد ت اور موجب اجر ہے۔
(۸)موبائیل سے بالکل اجتناب کریں کہ یہ دنیاوی روابط کو بڑھاوا دینے والا اور اعتکاف کے لیے بہت مُضر ہے۔ سخت ضرورت پر کبھی استعمال کرلیا تو حرج نہیں۔
(۹)دوست احباب کی بھیڑ جمع نہ کریں نہ دوسرے لوگ معتکف کے پاس زیادہ وقت دیں۔ کسی ضرورت سے جانا ہوتو ضرورت پوری کرکے فوراً ان سے جدا ہوجائیں۔ اسی میں دونوں کے لیے بھلائی ہے۔
(۱۰)معتکف علما ہوں تو علمی ودینی استفادے کے لیے ان کے پاس بیٹھنے میں حرج نہیں بلکہ بہت مفید اور باعث ثواب ہے۔
برادران اسلام اور دیگر اسلامی بھائیوں سے گزارشات:
(۱)معتکف ایک ہو یا متعدد، دیگر حضرات کو چاہیے کہ ان کی خدمت کو اپنی سعادت تصور کریں ان کی ضروریات کی حتی الوسع تکمیل میں کوشاں رہیں کہ یہ بڑے ثواب کاکام ہے۔
(۲)بعض مساجد میں اعتکاف کرنے والوں کی تعداد بہت ہوجاتی ہے۔ ممبئی کی بعض مساجد میں سنا گیا کہ ان کی تعداد چالیس تک پہنچ جاتی ہے یا اس سے بھی زیادہ بلکہ نوجوانوں کے بارے میں یہ سن کر اور خوشی ہوتی ہے کہ وہ دنیاوی کھیل کود سے دور ہوکر خدا کے گھر میں دس روز کے لیے آبیٹھتے ہیں ۔یہ صورت حال بڑی خوش آئند اور مسرت بخش ہے تو ان دین پسندوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور ان کے لیے ان ایام میں دین کی ضروری تعلیم کامنتظمین کو معقول بندوبست کرنا چاہیے تاکہ ان کے لیے یہ ایام صرف یہی نہیں کہ عبادت میں گزریں بلکہ اہم فریضے کی ادائیگی یعنی دین سیکھنے میں صرف ہوں۔ اس کے لیے علما سے وقت لیا جائے کہ وہ وقتاً فوقتاً آکر ان کی دینی تعلیم اورتربیت میں حصہ لیں اور نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ دین سیکھنے میں بھرپور دل چسپی لیں، اس سنہرے موقع کو غنیمت جانیں اور اپنے اندر دینی شعور بیدار کرنے اور روحانیت کو پروان چڑھا نے کی طرف توجہ دیں۔
(۳)دوسرے اسلامی بھائی اور انتظامیہ مساجد کے افراد بھی ان معتکفین کی ضروریات اور سہولیات کا خاص خیال رکھیں کہ اعتکاف کی برکتوں سے انہیں بھی مالا مال ہونے کا یہ ایک حسین موقع ملتاہے جو سال بھر میں پھر کبھی ہاتھ آنے والا نہیں۔ قرآن پاک میں آیا:
تَعَاوَنُوْا عَلَے الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ وَلَا تَعَاوَنُواْ عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ
نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو، گناہ اور سرکشی پر مدد نہ کرو۔ (مائدہ: ۵؍۲)
اعتکاف کرنے والوں کو بھی چاہیے کہ اپنے مقصد پر ہر وقت نظر رکھیں اورسوچیں کہ وہ دنیا کو چھوڑ کر دس روز کے لیے کیوں خانۂ خدا میں گوشہ نشین ہوئے ہیں۔ ان کے اندر بھی عملی اورروحانی انقلاب آنا چاہیے۔ اگر ان کے اندر کوئی بری عادت تھی تووہ دور ہوجانی چاہیے ورنہ گناہ تو ہر جگہ گناہ ہوتا ہے۔ اللہ کے گھر میں اس کا مواخذہ اور بڑھ جاتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ نیکی اور ثواب کمانے آئے تھے الٹے گناہ کابوجھ نہ سرپرلے جائیں۔اللہ عزوجل ہمیں اعتکاف کے روحانی اوراسلامی پروگرام پرعمل کرنے اوراس کی برکتوں سے مالامال ہونے کی توفیق مرحمت فرما ئے ۔ آمین۔
[ماخوذ: ماہِ رمضان اور ہماری ذمہ داریاں، مطبوعہ نوری مشن مالیگاؤں]
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.