You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
شہرمالیگائوں کے حالات پر مختلف موضوعات پرسروے کئے گئے مضامین کااشاریہ
اہلیان مالیگائوں میں فضول خرچیوں کابڑھتاہوارجحان ایک سروے رپورٹ
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
گہوارۂ علم وفن کہلانے والے شہر’’مالیگائوں‘‘مختلف اعتبار سے ہر وقت سرخیوں میں رہتاہے۔اس شہر کی اپنی ایک منفردشناخت ہے۔اس سے قبل مختلف موضوعات پرراقم شہرکی سروے رپورٹ پیش کرچکا ہے۔ جیسے:(۱)شہر میں ووٹ بینک سسٹم کی بڑھتی ہوئی خرافات پر ناقدانہ وبیباک تبصرہ(۲)مالیگائوں کی اسکول وکالج سے لڑکیوں کے نکلنے والے ٹرپ(۳)مالیگائوں کاٹریفک کنٹرول سسٹم(۴)مالیگائوں میں بیماریوں کابڑھتاہواتناسب(۵) مالیگائوں میں صحافت کے چندنرالے پہلو(۶)شہرمالیگائوں میں عیدقرباں کی تیاریوں پر ایک تجزیاتی رپورٹ(۷)اسٹوڈنٹس،اساتذہ،ٹیوشن کلاسیس اور زیراکس دکانداروں کی غفلت(۸)اہل علم اور ارباب سیاست کی پالیسیاں اور عوامی اضطراب(۹)مالی ووڈ:شہر کی ترقی یاعذاب خداوندی کی دعوت کاذریعہ(۱۰)مالیگائوں میں معاشرتی مسائل اور امراض کی کثرت:تجزیاتی رپورٹ(۱۱)قوم کی لٹتی ہوئی آبرواور ہمارے بے حسی(۱۲)شہرمالیگائوں کی پچاس سالہ سیاسی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر(۱۳)ماہ رمضان میں اسلام کو بدنام کرنے والے مسلمانوں کے معمولات(۱۴)جشن آزادی اور اہلیان مالیگائوں کی بے حسی:قابل رحم وقابل توجہ(۱۵)عیدکی مبارکبادیوں کے بینرکا سلسلہ:سنت ہے یابدعت؟(۱۶)اسکول وکالج کی سالانہ گیدرنگ میں شرعی احتیاط کی ضرورت(۱۷)عید کی تعطیلات اور خرافات(۱۸)مالیگائوں کی معاشرتی تباہی پر ایک سروے رپورٹ(۱۹)شادی کی خرافات اور اہل علم وارباب سیاست کی خاموشی(۲۰)الیکشن کی ہنگامہ آرائیوں میں کئے گئے وعدوں کی تکمیل کا وقت کب آئے گا؟؟(۲۱)برقعے کامقصد پردہ ہے یا فیشن۔۔۔؟(۲۲)مالیگائوں میں امیروغریب کی خوشی وغم کافرق(۲۳)ہماری سوسائٹی میں صحت کے مسائل (۲۴)جنگ آزادی میں حصہ لینے والے مالیگائوں کے مجاہدین وغیرہ وغیرہ۔الحمدللہ!مذکورہ تمام مضامین شائع بھی ہوئے اور آن لائن تین ویب سائٹس پر موجود بھی ہیں۔
آج کے اس مختصر سے مضمون میںراقم مالیگائوں میں بڑھتی ہوئی فضول خرچیوں کااشاریہ پیش کرے گا۔راقم نے ٹووہیلرگاڑیوں کے شوروم سے رابطہ کیاتومعلوم ہواکہ تھرٹی فرسٹ کے جشن کے لیے بہت سے لوگوں نے نئی گاڑیوں کی بُکنگ کروائی تھی جبکہ ان کے پاس پہلے سے عمدہ اور اچھی گاڑیاں موجود تھیں۔بلکہ انہوں نے یہاں تک کہاں کہ جب کمپنی کوئی نئی بائک لانچ کرتی ہے تو بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو زیادہ روپئے دے کر سب سے پہلے وہ گاڑی خریدتے ہے تاکہ وہ دوستوں کی محفل میں فخریہ اندازمیںیہ کہہ سکے کہ ’’مالیگائوں میں سب سے پہلی گاڑی میں نے خریدی ہے‘‘چاہے اس کے لیے انہیں ہزاروں روپئے زیادہ ہی کیوں نہ دیناپڑے۔ہر چار چھ یاسال بھرمیں گاڑیاں تبدیل کرنے کارجحان بھی شہر میں بڑی تیزی کے ساتھ پنپ رہاہے۔اسی طرح راقم نے مختلف پان اسٹال پر وزٹ کی تو معلوم ہواکہ اس شہر میں ایسے بھی لوگ ہے جن کاایک مہینہ کا پان خرچ بیس تاتیس ہزار روپئے ہے۔اگر چھ تاآٹھ لاکھ لوگوں کی آبادی والے شہر میں بیس روپئے روزکے اوسط سے ایک لاکھ لوگ بھی پان کھاتے ہونگے تو ایک مہینے میں کروڑوں روپئے پان کھاکر تھوک دیئے جاتے ہیں۔پان اسٹال پرپان کاپتہ فروخت کرنے والے شخص نے بتایاکہ میں ایک ہفتے میں مختلف پان دکانوں پر پانچ لاکھ روپیوں کاکچاپان دیتاہوں۔ قارئین خوداندازہ لگائیں کہ مالیگائوں میںایسے کتنے سپلائرہوں گے جودکانوں پر پان کاپتہ پہنچاتے ہوں گے؟ پان اسٹال والے اس پر کتناروپیہ کماتے ہوں گے؟ اور پان کے شوقین خون پسینے کی کتنی کمائی تھوک کی نذرکرتے ہوں گے؟یہ توصرف پان کاخرچ ہے اسی طرح بیڑی، سگریٹ،گٹکا، تمباکواورچائے کاتخمینہ بھی نکالاجاسکتاہے۔گلوبلائزیشن کے اس دور میں ہر کوئی انٹرنیٹ کااستعمال کرناچاہتاہے اور اس خواہش کی تکمیل کے لیے مہینے کے کروڑوں روپئے اہلیان مالیگائوں موبائل کی خریدوفروخت پر خرچ کردیتے ہیں۔اگرمالیگائوں میںایک لاکھ لوگ بھی 250؍روپئے کی ایک جی بی ایک مہینہ میں استعمال کرتے ہوں گے تواہلیان مالیگائوں لاکھوں کروڑوں روپیہ صرف انٹرنیٹ پر خرچ کردیتے ہیں اورانہیں احساس بھی نہیں ہوتا۔جبکہ بہت سے ایسے بھی لوگ ہے جو محض اپنی تفریح طبع کے لیے ایک سے زائد جی بی کا ریچارج کرتے ہے۔یہ تو رہاصرف نیٹ کاخرچ،کالنگ اور ایس ایم ایس پر ہونے والے اخراجات اس سے علاحدہ ہے۔فلم بینی،سنیمااور ویڈیوپر کئے جانے والے اخراجات کاآپ جائزہ لوں گے تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائینگی۔مگر اس طرح کی فضول خرچی کرنے والے افراد کی نجی زندگی میں آپ دیکھوں گے تو معلوم ہوگاکہ لاکھوںروپیہ اڑانے والے صاحب کامہربھی ابھی تک باقی ہے،انہی لوگوں سے آپ مسجدومدرسے کی امدادکے لیے چندہ یازکوٰۃ مانگ لوتو یوں منہ بناتے ہیں جیسے زکوٰۃ کے اصل مستحق یہی لوگ ہیں۔کسی یتیم بچی کی کفالت،کسی بے سہارے کے علاج،بیوہ وبے کس کی امداداور ناگہانی مصیبت کے لیے ان کی جیب سے چندسکوں کے علاوہ کچھ اورنہیں نکلتا۔غیروں کی مددکی بات تو دوران کے پاس تو خودکے بچوں کی تعلیم کامنصوبہ،والدین کی خدمت کاارادہ اورشریک حیات کے مستقبل کابھی خیال نہیں ہے۔یہ مست ہے اپنی فضول خرچی کی زندگی میں۔مگر یاد رہے جورب نعمت دیتاہے وہ چھین بھی لیتاہے اور جس نعمت کی قدر نہ کی جائے وہ ختم ہوجاتی ہے۔اسی طرح راقم نے ہوٹلوں اور چوراہوں پر کھانے کی گاڑیاں لگانے والے مختلف لوگوں سے ملاقات کی تومعلوم ہواکہ مسلم مردوں کی آدھی آبادی رات کاکھاناباہرتناول کرتی ہے۔ اگرمالیگائوں میں ایک ہزارہوٹلوں ،کھاناولوں اور گاڑیوں کی تعداد تعین کرکے روزکا دس ہزارکاکائونٹرتسلیم کریں تو اہلیان مالیگائوں روزکے دس لاکھ روپئے صرف عمدہ ولذیذ کھانے کی خواہش پر خرچ کردیتے ہیں جبکہ انہی کے گھر کے باقی کے ممبران دوپہر کے سالن اور روکھی سوکھی روٹی پر اکتفاکرلیتے ہیں جبکہ اللہ کے حبیب ﷺنے بیوی کے متعلق فرمایاہے کہ جوتم کھائووہی اسے کھلائواور جوتم پہنو اسے بھی وہی پہنائو۔اب اس کامطلب یہ نہیں کہ خود بھی ہوٹل میں کھائواور گھر پارسل بھی لے کرجائوبلکہ اپنی فضول خرچیوں پر کنٹرول کرواور گھروالوں پرخرچ کرواس لیے کہ پیغمبراسلامﷺنے فرمایاہے کہ سب سے بہترین صدقہ وہ ہے جو گھروالوں پر خرچ کیاجائے۔یہ صرف چندباتوں کااشاریہ تھااس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے کام ہیں جوہمارے یہاں رائج ہے مگرطوالت لکھنے کی اجازت نہیں دیتی۔اللہ پاک فضول خرچیوں سے محفوظ رکھیں۔
عطا ء الرحمن نوری(ایم اے، جرنلسٹ،ایم ایچ سیٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا) موبائل نمبر:9270969026
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.